مذاکرات کون خراب کر رہا ہے؟
آخر کار حکومت پاکستان نے سمجھداری اور ہوشنمدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بات پر اتفاق اور آمادگی ظاہر کر ہی دی کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سائے تلے جمع، 'حقیقی' اسلامی نظام اور انصاف کی فراہمی کو ممکن بنانے کی مسلح جدوجہد کرنے والے مختلف گروپوں کے ساتھ، اخلاص اور سنجیدگی سے بات چیت کی جائے-
اس کے ساتھ ہی بعض قوتوں نے مذکورہ مذاکرات کی ابتداء ہونے سے پہلے ہی ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش میں تشدد کے واقعات شروع کر دیے-
اس بات کی پیش گوئی پی ٹی آئی کے عمران خان نے اسی وقت کر دی تھی جب چند دن پہلے وزیر اعظم نے امن منصوبے کے آغاز کا اعلان کیا تھا-
اس موقع پر پی ٹی آئی کی ایک سینئر رہنما، ڈاکٹر شیریں مزاری نے خبردار کیا تھا کہ کوئی "تیسری قوت" ہر حال میں حکومت اور ٹی ٹی پی امن مذاکرات میں خلل ڈالنے کے لئے دہشت گرد حملے شروع کر دے گی-
ان کا کہنا تھا کہ یہ بات انہیں اس غیبی آواز نے بتائی ہے جو انہیں ان کے سر میں سنائی دیتی ہے اور ساتھ اس آواز نے اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ اس حوالے سے میں کمبل چھوڑتا ہوں پر کمبل مجھے نہیں چھوڑتا، والا معاملہ بھی ہو سکتا ہے-
یہاں یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ جب وزیراعظم نے ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کرنے کی پیشکش کی، تو اس کے چند ہی منٹ بعد، کراچی میں ایک بم حملے میں رینجرز کے کئی اہلکار ہلاک ہو گئے- جو بات رپورٹ میں نہیں بتائی گئی وہ یہ تھی کہ الطاف حسین نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی-
کراچی میں ہمارے نمائندے نے تصدیق کی ہے کہ حکام نے اسکاٹ لینڈ یارڈ اور بی بی سی سے رابطہ کیا ہے اور ان سے الطاف حسین کے خلاف ایکشن لینے کا کہا ہے-
اسی روز، بی بی سی نے بتایا کہ رینجرز کے خلاف استعمال کیا جانے والا بم، الطاف حسین نے ذاتی طور پر تیار کیا تھا اور پھر اسے ڈاکٹر فاروق ستار کے ذریعے اسمگل کروایا گیا اور جسے رینجرز کی گاڑی کے پاس فیصل سبزواری نے نصب کیا تھا-
اسکاٹ لینڈ یارڈ نے حکومت پاکستان کو یقین دلایا ہے کہ وہ اس معاملے کی سنجیدگی سے چھان بین کریں گے- یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ برطانیہ کے ممتاز مسلم فلاحی ادارے، حزب التحریر سے بھی الطاف حسین کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لئے مدد لی جائے-
لندن میں ہمارے نمائندے کا مزید کہنا ہے کہ حزب التحریر، بی بی سی کے ساتھ مل کر ایک ایسی دستاویزی فلم تیار کرے گی جس میں ایم کیو ایم کی پاکستان، عراق، شام اور سوڈان میں کاروائیوں کے بارے میں بتایا جائے گا- ہو سکتا کہ ان ملکوں کے علاوہ افغانستان میں بھی ایم کیو ایم کی کاروائیوں کے بارے میں بتایا جائے-
وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے امن منصوبے کے اعلان کے دو دن بعد، حکومت نے ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کرنے کے لئے چار افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دی- تحریک طالبان پاکستان نے اس اقدام کا گرم جوشی سے خیر مقدم کیا، اور اسی گرم جوشی کے مظاہرے میں عمران خان کو اپنی کمیٹی کے رکن کے طور پر نامزد کر دیا-
عمران خان نے اس پیشکش پر بہت عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے عمران خان کو اس اعزاز سے نوازا جو کہ ڈاکٹر مزاری کے دعوے کے مطابق امن کا نوبل پرائز جیتنے جیسا اہم اور اچھا ہے-
تاہم، عمران خان نے بعد میں شائستگی کے ساتھ اپنے بے پناہ مصروف شیڈول کی وجہ سے اس پیشکش کو رد کر دیا، جس میں بچوں کے لئے ڈرون مخالف فلمیں دکھانا، ناپید ہوتے ہوئے ہاتھیوں کا بچاؤ اور پشاور کو تقریباً بند دینا شامل ہے تاکہ خیبر پختونخواہ کے پولیو ورکرز، کم از کم نصف درجن بچوں کو پولیو ڈراپس پلا سکیں- اس کے علاوہ ان کے شیڈول میں ٹویٹ کرنا بھی شامل ہے-
خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے حال ہی میں صوبے میں کئی پولیو ورکرز کے قتل کے سلسلے میں ملوث افراد کے بارے میں کچھ ثبوت حاصل کیے ہیں- تحریک انصاف کے ایک وزیر، شاہ فرمان کے مطابق، پولیو ورکرز کو شکیل آفریدی بریگیڈ نامی ایک تنظیم کی طرف سے نشانہ بنایا جا رہا ہے-
فرمان نے حال ہی میں اس رپورٹر کو بتایا کہ عین ممکن ہے کہ اس تنظیم کو ارب پتی ناول نگار، سلمان رشدی کی جانب سے، افغانستان میں نیٹو فورسز کی ایماء پر، فنڈنگ مہیا کی جا رہی ہو تا کہ حکومت پر شکیل آفریدی کو جیل سے رہا کرنے کے لئے دباؤ بڑھایا جائے-
آفریدی کو پاکستانی حکام نے تب گرفتار کیا تھا جب اس نے اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں تلاش کرنے کے لئے سی آئی اے کی مدد کی تھی- فرمان کا کہنا تھا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ اسامہ وہاں موجود ہی نہیں تھے اور وہ اب بھی زندہ ہیں، آفریدی اب بھی پاکستانیوں کی نگاہ میں مجرم ہیں-
جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے خیال میں اس وقت اسامہ کہاں ہیں تو فرمان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مزاری اس آواز کا انتظار کر رہی ہیں جو صرف ان کے دماغ میں سنائی دیتی ہے، کہ وہ انہیں اسامہ کے محل وقوع کے بارے میں بتائے- انہوں نے یہ باتیں، میزبان ماہرہ خان کے ٹی وی پروگرام، "ٹک لائٹر سائیڈ آف لائف" میں گفتگو کرتے ہوئے بتائیں-
جب عمران خان نے شائستگی کے ساتھ ٹی ٹی پی کی کمیٹی کا حصہ بننے سے معذوری ظاہر کر دی، تو ٹی ٹی پی نے دو دیگر نام تجویز کر دیے- انصار عباسی اور اوریا مقبول جان-
عباسی ٹیلی ویژن کی ایک مشہور شخصیت ہیں، جنہیں اکثر ٹاک شوز میں قانونی، کرپشن، اخلاقی معاملہ/معاملات پر، جن کا ان سے کوئی تعلق بھی نہیں ہونا چاہئے، اپنی ماہرانہ رائے دیتے ہوئے سنا اور دیکھا جا سکتا ہے-
اوریا ایک سرکاری ملازم ہیں، جو اردو کے مشہور ناول نگار نسیم حجازی کے ناول بہت زیادہ پڑھتے ہیں، خاص طور پر وہ ناول جن میں طاقتور گھوڑوں پر سوار قدیم فوجی، گھوڑوں پر ہی سوار دوسرے قدیم سپاہیوں کو قتل کرتے ہیں-
بہرحال، تحریک طالبان پاکستان نے آخرکار ایک تین رکنی کمیٹی تک محدود رہنے کا فیصلہ کیا جس میں چند بہت ڈراؤنے دکھنے والے لوگ بھی شامل ہیں-
لیکن ان دونوں کمیٹیاں کی پہلی ملاقات سے اس سے ایک روز قبل ایک امام بارگاہ کے قریب ایک خودکش حملہ ہو گیا- جیسے ہی مذاکرات کے مخالفین نے تحریک طالبان پاکستان کو اس حملے کے لئے مورد الزام ٹھہرانا شروع کیا، ایک ٹی وی چننیل نے چند عینی شاہدین کے انٹرویو لئے جن سب نے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے اسکول یونیفارم پہنے ایک نوعمر لڑکی کو دھماکے سے چند سیکنڈز پہلے امام بارگاہ کی جانب جاتے دیکھا تھا-
ان میں سے دو عینی شاہدین نے بتایا "وہ ملالہ کی طرح لگ رہی تھی"-
اور پھر اسی روز کراچی میں ایک ریلوے ٹریک پر بم دھماکا ہوا جس سے لاہور جانے والی ایک ٹرین پٹری سے اتر گئی- یہاں بھی عینی شاہدین کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے دھماکے سے چند منٹ پہلے اسکول یونیفارم میں ملبوس ایک نوعمر لڑکی کو ٹریک پر چلتے دیکھا تھا-
جماعت اسلامی کے ایک رہنما نے چند رپورٹرز کو بتایا کہ پردوں کے پیچھے چھپی ایک دہشت گرد تنظیم، ملالہ تعلیمی فنڈ نے نہ صرف ان دونوں حملوں کی منصوبہ بندی کی بلکہ انہیں سرانجام بھی دیا ہے- ان کا کہنا تھا حکومت یہ بات جانتی ہے لیکن اسے صرف اس لئے خفیہ رکھا جا رہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتی-
جب کچھ رپورٹروں نے وزیر داخلہ چوہدری نثار سے اس بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے- تاہم انہوں نے بتایا کہ حکومت دو امکانات کا جائزہ لے رہی ہے- ایک تو یہی اور دوسرے کہ اس میں بنگلہ دیش کی خفیہ ایجنسی کا ملوث ہونا-
جب ایک رپورٹر نے ٹی ٹی پی کے اس طرح کے متعدد حملوں میں ملوث ہونے کے حوالے سے سوال کیا تو نثارصاحب کا کہنا تھا کہ "برائے مہربانی اتنی جلدی نتائج اخذ نہ کریں- پاکستانی عوام اور معیشت اب تک اس سکتے سے باہر نہیں آ سکے ہیں جو انہیں بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے عبدالقادر ملا کو پھانسی چڑھانے سے پہنچا"-
خوفناک دہشت گرد حملوں کے دو دن کے بعد ہی مبصرین، حکومت کے اندرونی ذرائع اور ڈاکٹر مزاری کے سر میں سنائی دینے والی آواز اس بات پر متفق تھے کہ ان دھماکوں کے پیچھے ملالہ کا ہاتھ تھا-
حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت کے اندرونی ذرائع اور ایک ٹی اینکر کہتے ہیں کہ اب انہیں اس بات کا یقین ہو گیا ہے کہ پاکستان میں 2002 سے ہونے والے حملوں میں سے نوے فیصد کے پیچھے ملالہ کا ہاتھ ہے-
ٹی وی کی ایک مشہور شخصیت کا دعویٰ ہے کہ "اس بات کے سراغ اور شواہد اس کی کتاب میں موجود ہیں- وہ بل گیٹس اور بان کی مون کے ساتھ کام کر رہی ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس کے ساتھ مصباح الحق بھی ہوں جنہوں نے حال ہی میں ملالہ کے ساتھ دبئی میں چائے پی تھی"-
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کو یقینی طور پر اس کی چھان بین کرنی چاہئے"-
کہا جا رہا ہے کہ لبرل مبصر، ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے حکومت سے خاموشی سے درخوست کی ہے کہ ملالہ سے مذاکرات کیے جائیں-
ہود بھائی کا کہنا ہے کہ وہ اس سے بات چیت کرنے کو تیار ہیں- حکومت نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس معاملے پر غور کرے گی اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس نے ملالہ کے دو ممتاز نقادوں سے بھی رابطہ کیا ہے تا کہ انہیں اس کمیٹی کا حصہ بنایا جا سکے جسے حکومت ملالہ سے بات چیت کرنے کے لئے قائم کرنا چاہتی ہے-
تاہم دونوں حضرات نے انکار کر دیا ہے بلکہ انہوں نے وزیر اعظم پر زور دیا ہے کہ وہ فوجی طیاروں کے ذریعے سوات میں لڑکیوں کے اسکولوں پر بمباری کرنے کے آرڈر جاری کریں-
گو کہ حکومت نے 'ملالہ فیکٹر' کو خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن وہ جنھیں اندرونی معاملات کی خبر ہے انہیں اس بات کا یقین ہے کہ حکومت کے لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ اس کے خلاف کاروائی کرے اور اسے پاکستان میں حملے کرنے سے روکے تاکہ حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کامیاب سے ہمکنار کیا جا سکے-
ملالہ اب تک ہماری فون کالوں کا جواب دینے سے گریز کر رہی ہے- کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ وہ اپنی اگلی چال کی پلانننگ کر رہی ہے اور اس بار اس میں دو ڈرونز بھی شامل ہوں گے کیونکہ امریکیوں نے کم از کم دو ڈرونز کا کنٹرول، اس کے ہاتھ میں دے دیا ہے، جن کے کوڈ نام ہیں کامران اکمل اور عمر اکمل-
پشاور کے نواح میں ایک عینی شاہد نے ہمارے رپورٹر کو بتایا کہ اس نے اسکول یونیفارم پہنے ایک نوعمر بچی کو ایک میزائل اپنے اسکول بیگ میں ڈالے جاتے دیکھا- جب اس نے بچی سے پوچھا کہ وہ بیگ میں کیا لے جا رہی ہے تو اس نے بتایا کہ اس میں ٹافیاں اور چوسنے والی میٹھی گولیاں ہیں اور پھر خوشی خوشی اسرائیل کا قومی ترانہ گنگناتے ہوئے وہاں سے رفو چکر ہو گئی-
ترجمہ: شعیب بن جمیل
نوٹ: یہ ایک فرضی طنزیہ مضمون ہے
تبصرے (3) بند ہیں