پولیس نشانے پر
کراچی پولیس کو کثیرالنوع خطرات کاسامنا ہے جیسا کہ یہ جرائم پیشہ، سیاسی مسلح گروہوں، نیز مذہبی و فرقہ وارانہ دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں۔ اگرچہ بڑی تعداد میں پولیس اہلکار ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے لیکن جمعرات کی صبح رزاق آباد پولیس ٹریننگ سینٹر کے سامنے جس انداز میں انہیں بم حملے کا نشانہ بنایا گیا، وہ منفرد ہے۔
اس بم دھماکے میں متعدد پولیس اہلکار جانوں سے گئے؛ اطلاعات سے اشارے ملے ہیں کہ بارود سے بھری گاڑی کو اہلکاروں کو لے جانے والی بس سے ٹکرادیا گیا تھا۔
یہاں بعض شکوک و شبہات برقرار ہیں کہ آیا یہ خودکش حملہ تھا یا پھر ریموٹ کنٹرول کے ذریعے دھماکا کیا گیا تاہم کالعدم پاکستانی طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ خیبر پختون خواہ میں اپنے ساتھیوں کی 'ٹارگٹ کلنگ' کا بدلہ لینے کے لیے انہوں نے یہ حملہ کیا تھا۔
اگرچہ اس طرح کے حملے پولیس کی حوصلہ شکنی کی خاطر کیے جاتے ہیں لیکن اس میں شہریوں کا احساسِ عدم تحفظ بھی شامل کرلیا جائے۔ شہری پریشان ہیں کہ اگر قانون نافذ کرنے والے اہلکار خود اپنی حفاظت نہیں کرسکتے تو وہ شہریوں کا تحفظ کیسے کرسکتے ہیں۔
جیسا کہ اس وقت پورا پاکستان دہشتگرد حملوں کی لہر میں ہے اور کراچی میں جاری ٹارگیٹڈ آپریشن میں پولیس کے سرکردہ کردار کے باعث، اس طرح کے حملے حیرت کا باعث نہیں۔ تشویش کا سبب یہ حقیقی سوال ہے کہ اس طرح کے حملوں کی روک تھام کے واسطے ریاست کیا کررہی ہے۔
گذشتہ چند برسوں سے پورے پاکستان میں پولیس صفِ اول پر کھڑی ہے۔ ٹی ٹی پی سے منسلک عسکریت پسندوں نے سن دوہزار نو میں لاہور کے مناوہ پولیس ٹریننگ سینٹر کو نشانہ بنایا جبکہ خیبر پختون خواہ میں بھی پولیس اہلکار تواتر سے شدت پسندوں کے بارودی مواد یا خود کش حملوں کا نشانہ بن رہےہیں۔
ایک سطح تک، پولیس مراکز و سہولیات کے اطراف سیکیورٹی سخت تر کر کے صورتِ حال بہتر کی جاسکتی ہے؛ مثال کے طور پر کراچی میں پولیس کے مراکز وسہولیات کی سیکیورٹی نہایت کمزور خیال کی جاتی ہے۔
یہاں چوکنا رہنے کا بھی سوال موجود ہے۔ اطلاعات سے اشارے ملتے ہیں کہ رزاق آباد دھماکے میں استعمال کی جانے والی گاڑی تقریباً آدھا گھنٹے تک سینٹر کے باہر کھڑی رہی تھی۔ کسی نے اس گاڑی کی موجودگی کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟
لیکن نہایت گہرائی میں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانے والے حملوں کو انٹیلی جنس نظام میں بہتری لا کر ہی روکا جاسکتا ہے۔ چاہے یہ روک تھام کی بات ہو یا دہشتگردی کے کسی واقعے کے بعد اس کی تفتیش کا مرحلہ، ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ناکامی سے دوچار ہیں۔
اس کا نتیجہ، وردی والے ہوں یا شہری، دونوں کا بہتا لہو اور زندگی کا نقصان ہے۔