میڈیا پر حملے
بھتہ خوروں اور مذہبی شدت پسندوں کی طرف سے زیادہ اور ان سمیت متعدد عناصر کی جانب سے بھی، میڈیا کو شدید خطرات لاحق ہیں، ایسے میں پیر کو کیا گیا بم حملہ باعثِ حیرت نہیں تھا۔
کراچی میں روزنامہ بزنس ریکارڈر اور آج ٹی وی کی عمارت کے گیٹ کے ساتھ ایک بم دھماکا ہوا جبکہ وقت ٹی وی، روزنامہ نوائے وقت اور دی نیشن کی دفتری حدود میں نصب بم کو ناکارہ بنادیا گیا۔
اگرچہ تادمِ تحریر ان واقعات کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی تاہم گذشتہ ماہ ایکسپریس میڈیا گروپ سے منسلک تین کارکنوں کے قتل کے بعد، خاص طور پر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ خوف کی موجود فضا میں شدت کا باعث بنیں گے۔
ان میڈیا کارکنوں کے قتل کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کی، جس کے بعد، چند ہفتوں قبل پاکستانی میڈیا کےخلاف ایک 'فتویٰ' بھی جاری کیا گیا تھا۔ صرف یہی نہیں، اس گروہ نے ایک ہِٹ لسٹ بھی تیار کر رکھی ہے، جس میں بعض صحافیوں، پبلشرز اور مالکان و اینکرز سے لے کر فیلڈ اسٹاف تک کے نام شامل ہیں۔
اُنتیس صفحات پر مشتمل فتویٰ میں میڈیا کو 'کافر' قرار دیتے ہوئے، فتویٰ لکھنے والوں میں سے ایک، اور ٹی ٹی پی کے نائب سربراہ خالد حقانی کے جملے کا بھی حوالہ دیا گیا کہ '(میڈیا) ہمارے اور ہمارے مقاصد کے بار میں بدستور جھوٹ بول رہا ہے۔'
متعدد میڈیا گروپ کو لاحق خطرات بدستور بڑھتے جارہے ہیں لیکن ریاست اوراس کے نمائندے، اگر کوئی ہیں، تو وہ خاموش بیٹھے ہیں، انہیں ردِ عمل ظاہر کرنا چاہیے۔
خواہ یہ دہشتگرد تنظیمیں ہوں یا کھلی چھوٹ کے ساتھ، نمٹنے کے معاملے میں اُن کی نقل کرنے والے، میڈیا کو خاموش کرسکنے کا پیغام بھیج کر حالات کی سنگینی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ ایسے میں داؤپر کیا لگا، اس کی خاص اہمیت ہے: درست طور پر حقیقت سے باخبر رکھنے کی اہلیت۔
ایک ایسے ملک میں، جہاں معاشرے کے بڑے حصے کو شدت پسندی کی طرف دھکیلا جارہا ہو، اظہار رائے کی آزادی پہلے ہی مفاہمت کی بھینٹ چڑھتی جارہی ہے۔ چیزوں کی فہرست حوالہ ہے کہ اب زیادہ دیر تک کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا۔
میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں کو خاموش کرانے کے لیے دہشتگرد جو طریقے استعمال کرتے ہیں، وہی حکومت کے ساتھ بھی کھڑے ہیں، ایسے میں میڈیا کو لاحق خطرات میں نمایاں اضافہ ہوجاتا ہے۔
اگرچہ ریاست کو میڈیا ہاؤسزکی حمایت کرنی چاہیے اور موخرالذکر کو بھی اپنی حفاظت کے واسطے تمام تر تدابیر اختیار کرنی چاہئیں تاہم بڑھتے خطرات کے خلاف صحافتی برادری کی جانب سے مشترکہ آوازاٹھانا بھی اہم ہے۔
تاوقتیکہ صحافی متحد نہیں ہوتے، بڑی مشکلوں سے حاصل کی گئی میڈیا کی آزادی چھن جائے گی۔