بچوں کی دیکھ بھال : زندگی اور موت کا فرق

شائع February 21, 2014
آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں بچوں کے ایمرجنسی کیئر یونٹ میں ایک ماں اپنے چار سالہ بیٹے کا ہاتھ تھامے ہوئے ہے۔ تصویر آصف عمر۔۔۔
آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں بچوں کے ایمرجنسی کیئر یونٹ میں ایک ماں اپنے چار سالہ بیٹے کا ہاتھ تھامے ہوئے ہے۔ تصویر آصف عمر۔۔۔
آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں بچوں کے ایمرجنسی کیئر یونٹ میں قائم اسمال نرسری روم، تصویر آصف عمر۔۔۔
آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں بچوں کے ایمرجنسی کیئر یونٹ میں قائم اسمال نرسری روم، تصویر آصف عمر۔۔۔
آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں بچوں کے علاج کے لیئے ایمرجنسی کیئر یونٹ، تصویر آصف عمر۔۔
آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں بچوں کے علاج کے لیئے ایمرجنسی کیئر یونٹ، تصویر آصف عمر۔۔
ایک ماہ کا بچہ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں بچوں کے ایمرجنسی کیئر یونٹ میں داخل ہے۔ تصویر آصف عمر ۔۔۔
ایک ماہ کا بچہ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں بچوں کے ایمرجنسی کیئر یونٹ میں داخل ہے۔ تصویر آصف عمر ۔۔۔
آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں بچوں کے ایمرجنسی کیئر یونٹ میں بڑے بچوں کے لیئے استعمال کیا جانے والا آکسیجن ماسک۔ تصویر آصف عمر۔۔۔
آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں بچوں کے ایمرجنسی کیئر یونٹ میں بڑے بچوں کے لیئے استعمال کیا جانے والا آکسیجن ماسک۔ تصویر آصف عمر۔۔۔
ایک ماہ کا بچہ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں بچوں کے ایمرجنسی کیئر یونٹ میں۔ تصویرآصف عمر ۔۔
ایک ماہ کا بچہ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں بچوں کے ایمرجنسی کیئر یونٹ میں۔ تصویرآصف عمر ۔۔

اگر آپ ایک چھوٹے بچے کی ماں ہیں اور کراچی کی رہنے والی ہیں تو اس کا بہت امکان ہے کہ آپ ندا ایچ رزکی کی کہانی سے اپنا تعلق جوڑ سکیں- چند ماہ پہلے ندا کا دو سالہ بیٹا نمونیا کی بیماری میں مبتلا ہوا اور اسے کلفٹن کے ایک نجی اسپتال لے جایا گیا-

ندا بتاتی ہیں "بیماری کی تشخیص نمونیا کی گئی اور میڈیکل اٹینڈنٹس اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ انہیں ڈرپ لگانے کیلئے ایک کنولا ڈالنا ہو گا- انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ بچہ رو رو کر ہلکان ہوئے جا رہا تھا اور اس کی تکلیف دیکھتے ہوئے انہیں کسی متبادل ذریعے سے بچے کو ضروری دوائی دینے کوشش کرنی چاہئے تھی"- اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے ان کے لہجے کی تلخی سے ان کی ناراضگی عیاں تھی-

آخر کار وہ میڈیکل اٹنڈنٹ کئی بار سوئی چبھونے کے بعد، کنولا ڈالنے کیلئے متعلقہ نبض ڈھونڈنے میں کامیاب ہو ہی گیا تاہم اس دوران میں بچے کو پہنچنے والی تکلیف میں اضافہ ہی ہوا-

پاکستان کی آدھی کے قریب آبادی بچوں پر مشتمل ہے اور ان میں دس میں سے ایک بچہ اپنی پانچویں سالگرہ دیکھنے سے پہلے ہی شدید بیماری کی وجہ فوت ہو جاتا ہے- دو کروڑ سے زیادہ آبادی والے اس شہر کی ضروریات کیلئے بچوں کی دیکھ بھال کے مٹھی بھر ایمرجنسی یونٹ موجود ہیں-

پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے صدر، ڈاکٹر اقبال میمن کے مطابق "موجودہ سینٹرز میں 'نیشنل انسٹیٹیوٹ فار چائلڈ ہیلتھ'، سول اسپتال، کراچی، آغا خان اسپتال، عباسی شہید اسپتال اور شاید کوئی ایک آدھ نجی اسپتال شامل ہو"-

این آئی سی ایچ کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر جمال رضا کا کہنا ہے کہ کراچی کی بے پناہ آبادی کے ساتھ ساتھ، این آئی سی ایچ میں سندھ کے مختلف علاقوں کے علاوہ جنوبی پنجاب اور پڑوسی بلوچستان کے علاقوں سے بھی کیسز آتے ہیں-

نجی سیکٹر میں بھی اس حوالے سے بہت بڑا خلا موجود ہے-

آغا خان یونیورسٹی اسپتال کے ایمرجنسی میڈیسن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ، ڈاکٹر جنید رزاق نے بتایا "بچے نوجوان بڑوں کی طرح نہیں ہوتے- مخصوص حالات میں بچوں اور بڑوں کے علاج معالجے میں نازک لیکن اہم فرق ہوتا ہے- اور یہ فرق زندگی اور موت کا فرق بھی ثابت ہو سکتا ہے"-

طبی حوالے سے چند بنیادی فرق بتاتے ہوئے، ساؤتھ سٹی اسپتال کے ڈاکٹر سہیل تھوبانی کا کہنا تھا، "اگر کسی بچے کے سینے میں درد کی شکایت ہو، تو دل کے دورے کی بات کسی کے دماغ میں سب سے آخر میں آئے جبکہ کسی بڑے کو ایسی تکلیف ہونے کی صورت میں اس کا خیال شاید سب سے پہلے آئے گا"-

ان کا مزید کہنا تھا "پیٹ کے درد کی صورت میں بھی ایسی ہی صورتحال ہوتی ہے، جب ایک بڑے کے لئے آپ کو کینسر تک کا جائزہ لینا ہوتا ہے جبکہ بچوں میں ایسی تکلیف میں دوسری طبی امکانات کا جائزہ لیا جاتا ہے- بچوں اور بڑوں کے علاج معالجے میں زمین آسمان کا فرق ہے"-

جناح اسپتال کے شعبہ حادثات کی سربراہ، ڈاکٹر سیمیں جمالی بتاتی ہیں کہ بچوں کے علاج کے لئے ایک الگ قسم کی پلاننگ درکار ہوتی ہے- "ہمیں بچوں کے معاملے میں یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ ان میں کس قسم کی بیماریاں اور ٹراما عام ہے جبکہ بڑوں کیلئے شاید ایسا کرنا ضروری نہ ہو"-

اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کیلئے رزاق نے دوا کی مقدار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا "ایک میڈیکل افسر جو کہ بڑوں کیلئے دوا تجویز کرنے میں مہارت رکھتا ہو، آسانی ایک بچے کیلئے دوا تجویز کرنے یا اس کی مقدار کے بارے میں غلطی کر سکتا ہے"-

یہ شاید بادی النظر میں اتنا خطرناک دکھائی نہ دے لیکن بچوں کے معاملے میں چھوٹے سے فرق کے بھی انتہائی شدید اور منفی اثرات ہو سکتے ہیں جبکہ بڑوں کے ساتھ یہ اثرات اتنے شدید نہیں ہوتے-

این آئی سی ایچ کے رضا کے اندازے کے مطابق پبلک سیکٹر میں آنے والے ستر سے اسی فیصد کیسز میڈیکل ایمرجنسی کے ہوتے ہیں جن میں نمونیا، ڈائریا، زخم کا سڑنا اور سانس کی مختلف بیماریاں شامل ہیں- ڈائریا یا اسہال کی بیماری میں جسم کا پانی کم ہو جاتا ہے اور یہ پاکستان میں چھ ماہ سے دو سال کی عمر تک کے بچوں میں موت کی سب سے عام وجہ ہے- بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان دنیا کے ان پانچ ملکوں میں شامل ہے جہاں بچوں میں نمونیا اور ڈائریا سے ہونے والی اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے-

بقیہ بیس سے تیس فیصد کیسز 'سرجیکل ایمرجنسی' کے ہوتے ہیں جس میں آگ، 'بیرونی جسموں یا چیزوں' سے پہنچنے یا لگنے والے مختلف زخم وغیرہ شامل ہیں-

چھالیہ وہ 'بیرونی باڈی یا جسم' ہے جسے چھوٹے بچے سب سے زیادہ نگل جاتے ہیں- پی پی اے کے ڈاکٹر میمن ایک چودہ سالہ پشتون بچے کی حالیہ مثال بیان کرتے ہیں جس نے چھالیہ نگل لی اور اس سے اس کا دم گھٹنے لگا-

انہوں نے بتایا کہ خوش قسمتی سے انہوں نے اس چھوٹے بچے کو دیکھ لیا اور فوری طور پر اسے این آئی سی ایچ منتقل کروایا کیونکہ جس نجی اسپتال میں وہ بچہ زیر علاج تھا وہاں بچوں کی ایمرجنسی کیسز سے نمٹنے کے آلات ہی موجود نہیں تھے- انہوں نے اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا اگر بچے کو صحیح وقت پر مطلوبہ طبی امداد نہ ملتی تو اس کے نتائج جان لیوا بھی ثابت ہو سکتے تھے-

انہیں اس بات کا یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ بچے کے والدین کو بچے کے چھالیہ کھانے کے بارے میں علم بھی تھا اس کے باوجود انہوں نے اسے چھالیہ کھانے سے باز نہیں رکھا-

زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ میمن نے پچھلے چار ہفتوں میں اس قسم کے آٹھ کیسز دیکھے ہیں-

سب اسپیشلیٹی کو سمجھنا

ڈیپارٹمنٹ آف پیڈیاٹریکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر اسد اقبال میاں کا کہنا ہے "میرے خیال میں زیادہ تر کیسز میں بچوں کا ڈاکٹر، اس بات کا تعین کرتا ہے کہ مسئلہ کیا ہے اور پھر اسی حساب سے اسے ایمرجنسی کیئر میں ریفر کرتا ہے-

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ بچوں کے ڈاکٹر کا رول بہت اہم ہے لیکن وہ بچوں کے ایمرجنسی کیئر اسپیشلسٹ کی صلاحیتوں اور قابلیت کا متبادل نہیں، جو کہ صورتحال کو اس مرحلے تک جانے سے روک سکتا ہے جس میں بچے شدید بیمار ہو جائے"-

ندا اس بات سے خاصے محتاط انداز میں اتفاق کرتے ہوئے کہتی ہیں "کسی بھی میڈیکل ایمرجنسی کی صورت میں، سوائے ٹراوما کے، میں کبھی بھی اپنے بچے کو بچوں کے ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جانا چاہوں گی کیونکہ کلینک پر طویل انتظار کرنا پڑتا ہے"-

پی پی اے کے سابق صدر، ڈاکٹر عامر ایم خان جوگزئی، بچوں کی دیکھ بھال کے مختلف مراحل کے بارے میں بتاتے ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے- وہ کہتے ہیں "جب بھی ایمرجنسی کیئر کے بارے میں سوچا جاتا ہے، نومولود کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے-

بلکہ لوگ عورتوں کے امراض اور زچگی کے ماہرین پر بھروسہ کرتے ہیں حالانکہ انہیں یہ سمجھنا چاہئے یہ ماہرین بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے تربیت یافتہ نہیں ہوتے"-

اور جب یہ نومولود تھوڑے بڑے ہوتے ہیں اور گھٹنوں کے بل چلنا شروع کرتے ہیں تو ان کی ضروریات پوری کرنے کیلئے مناسب سہولیات اور وسائل درکار ہوتے ہیں جن میں ایسے تربیت یافتہ پروفیشنلز بھی شامل ہیں جو ان کی میڈیکل مشکلات و شکایات کی تشخیص اور ضروری علاج کر سکیں-

آج کے دور میں پاکستان میں بچوں کے ایمرجنسی کیئر اسپیشلسٹس کی شدید قلت ہے- لہٰذا نئے لوگوں کو بھرتی کر کے ٹرین کرنا اپنے آپ میں خود ایک مشکل ہے-

ساؤتھ سٹی اسپتال کے ڈاکٹر تھوبانی اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں "ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ باقاعدہ تربیت فراہم کرنے کیلئے باقاعدہ تربیت دینے والے درکار ہوتے ہیں جو ہمارے پاس موجود نہیں-

اگر آپ گاڑی چلانے کی تربیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہو گی جو اچھی طرح گاڑی چلانا جانتے ہوں تا کہ وہ آپ کو سکھا سکیں"-

اس کے علاوہ، بچوں کی دیکھ بھال اور علاج کے لئے علیحدہ سائز اور معیار کے میڈیکل آلات کی ضرورت ہوتی ہے- اس کے ساتھ ساتھ چند میڈیکل پروفیشنلز تو چھوٹے بچوں کیلئے "دوستانہ" ماحول کے قیام کی ضرورت پر بھی زور ڈالتے ہیں-

جمالی بتاتی ہیں "حقیقت یہ ہے کہ بچوں کو اسپتال پسند نہیں ہوتے، انہیں نسبتاً آرام دہ اور دوستانہ ماحول درکار ہوتا ہے" (بڑوں کے ایمرجنسی روم سے بالکل مختلف)-

ٹریننگ اور پلاننگ

فی الوقت اے کے یو میں پیڈیاٹرک ایمرجنسی میڈیسن کا ایک سیکشن موجود ہے جو ڈیپارٹمنٹ آف ایمرجنسی میڈیسن کا حصہ ہے- یہاں ٹریننگ کے لئے پیڈیاٹرکس اور ایمرجنسی میڈیسن سے روٹیشن پر اسپیشیلیٹی ریذیڈنٹ بھیجے جاتے ہیں-

تاہم، اس شعبے میں اسپیشلائزیشن کیلئے ایمرجنسی میڈیسن یا پیڈیاٹرکس میں بنیادی ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد بھی، مزید دو سے تین سالہ ٹریننگ درکار ہوتی ہے- کالج آف فزیشن اور سرجنز پاکستان (سی پی ایس پی) وہ ادارہ ہے جو باقاعدہ طور پر ملک کے میڈیسن اور میڈیکل پروفیشنلز کے مختلف کورسز اور سرٹیفکیٹس کا اجراء اور ان کی تصدیق کرتا ہے-

ڈاکٹر جبیں فیاض جو کہ آغا خان یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف ایمرجنسی میڈیسن پچھلے ایک سال سے زیادہ عرصے سے پی پی اے سے بات چیت میں مصروف ہیں تا کہ پی ای سی کو وہ توجہ اور مقام مل سکے جس کا وہ حقدار ہے- ان کا کہنا ہے "ہم ایک نجی اسپتال میں کام کرتے ہیں تاہم ہم آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کو نظر انداز نہیں کر سکتے جو سرکاری اسپتالوں پر انحصار کرتا ہے"-

اپنے مقصد کی وضاحت میں ان کا کہنا تھا "چونکہ سی پی ایس پی کے بہت سے ممبران پی پی اے میں بھی موجود ہیں لہٰذا ہمیں امید ہے کہ جب ہم خود کو تسلیم اور باقاعدہ کروانے کے لئے سی پی ایس پی سے رابطہ کریں گے تو ہمیں زیادہ مشکل نہیں ہونی چاہئے"-

این آئی سی ایچ کے رضا، سی پی ایس پی کی اس ضرورت کے بارے میں بتاتے ہیں جس کے تحت انہیں ان فیلوز کی تربیت کی نگرانی کے لئے ایسے ماہرین درکار ہیں جو مذکورہ شعبے میں ضروری تربیت اور مہارت رکھتے ہوں-

ان کا کہنا ہے "ایسے ماہرین تیار کرنے میں وقت لگے گا کیونکہ ہمیں اپنوں ہی میں سے ایسے ماہرین تیار کرنا ہوں گے- ویسے بھی ملک میں امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر ہم غیر ملکوں سے ایسے ماہرین نہیں بلا سکتے"-

رضا کے خیال میں ایسے سپروائزر تیار کرنے میں کم از کم پانچ برسوں کا وقت درکار ہو گا اور انہیں امید ہے ایسا ہونے کے بعد جلد ہی اس اسپیشلیٹی کو سی پی ایس پی تسلیم اور منظور بھی کر لے گا- اس دوران، فیاض کے خیال میں پی پی اے کا بیوروکریٹک سیٹ اپ اس ذیلی اسپیشلیٹی کو تسلیم کروانے میں رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے-

ترجمہ: شعیب بن جمیل

کارٹون

کارٹون : 4 اکتوبر 2024
کارٹون : 3 اکتوبر 2024