چترال خطرے میں
چترال کے کیلاشی اور اسماعیلی کمیونٹیز کو جو دھمکیاں دی گئی ہیں اگر ریاست نے اسے ہلکا لیا تو لگتا ہے ایسا خود اس کی اپنی قیمت ہوگا۔ حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی ایک وڈیو میں ٹی ٹی پی نے دھمکی دی ہے کہ اگر 'اسلام قبول' نہ کیا تو پھر ان لوگوں کو مسلح حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ بیرونی دنیا میں بھی کیلاشی اچھی طرح جانے اور پہچانے جاتے ہیں، وجہ یہ کہ گذشتہ دہائیوں کے دوران حکومتوں نے، ملک میں کثیر الثقافتی مجموعے کے ثبوت کے طور پر، ان کے پُرامن بقائے باہمی کو اُجاگر کیا ہے۔
خیبر پختون خواہ کے ایڈوکیٹ جنرل نے جمعرات کو کندھے اُچکاتے ہوئے کہا کہ 'یہ بیرونی خطرے سے زیادہ اندرونی مسئلہ ہے۔' تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند آسانی سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان نقل و حرکت کرسکتے لیکن پھر بھی یہ پاکستان کے لیے مسئلہ ہیں اور داخلی سطح پر ٹھوس خطرات قائم کرتے ہیں۔
تاہم اب تک یہ بات واضح نہیں کہ کیلاشیوں کو جو خطرات لاحق ہیں، ان کی نوعیت کس حد تک سنجیدہ ہے؛ وہ علاقہ جسے یہ لوگ اپنا گھر کہتے ہیں، باقیماندہ شمال ۔ مغرب سے اس لیے نسبتاً زیادہ پُرامن ہے کہ عسکریت پسند گروہوں میں ان کی شمولیت نہ ہونے کے برابر ہے۔
تاہم، دو ایسی ٹھوس وجوہات ہیں، جن کی بنا پر ناگزیر ہے کہ ریاست اس معاملے پر سخت موقف اپنائے اور واضح کرے کہ خواہ وہ غیر مسلم ہوں یا (فقہی بنیاد پر) مسلم اقلیت، شہریوں کے کسی بھی گروہ کو دی جانے والی اس طرح کی دھمکیاں قابلِ قبول نہیں، پاکستان کے اندر ان تمام کا تحفظ کیا جائے گا۔
اول، یہ حقیقت کہ اگر یہاں کوئی شدت پسند گروپ ان باشندوں کے خلاف پُرتشدد کاروائیاں یا انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کرے، تو منصفانہ طور پر، اُن کے لیے یہ کافی آسان ہوگا۔ ذراشہروں کی صورتِ حال پر ہی غور کرلیں کہ جہاں بھاری سیکیورٹی کے باوجود تواتر سے دہشتگرد حملے ہورہے ہیں۔
وادیِ چترال کا دور دراز واقع ہونا ہی اس کے باشندوں کو خطرات کے سامنے کمزور بناتا ہے، یہی سب سے اہم وجہ ہے کہ ریاست کو یہاں پر زیادہ سخت سیکیورٹی یقینی بنانا چاہیے۔
دوم، اگر حکومت نے اس معاملے پر سخت موقف اختیار نہ کیا تو یہ دھمکیاں دینے والوں کو خطرناک مثال قائم کرنے کی اجازت دینے کے مترادف ہوگا۔ اگر عقائد 'تبدیل' نہ کرنے پر آج انہیں خطرے کا سامنا ہے، تو پھر کل کس کی باری ہوگی؟
مسلم اقلیت سمیت، دیگر تمام عقائد کے پیروکار پہلے ہی خود کو خطرات میں گھرا محسوس کررہے ہیں۔ وہ جو تنگ نظری پر مبنی، اپنی ہی تشریح کردہ مذہب کو جبراً سب پر تھوپنا چاہتے ہیں، اس کی بہرطور مزاحمت کی جانی چاہیے۔