ٹی ٹی پی کے اشاروں پر رقص
پشاور: تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، وہ کھیل کا پانسہ پلٹ سکتی ہے اب بھی اور پہلے بھی۔ مختصر یہ کہ ٹی ٹی پی کی مرضی نے ہی حکومت کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔
جب وہ ہمیں نشانہ بنانے اور ہمیں ہلاک کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، ہم اپنے سر جھکا دیتے ہیں اور قتل ہوجاتے ہیں۔ جب وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم سے مذاکرات کریں اور اس کے ساتھ ہی ہمیں قتل بھی کرتے رہیں تو ہم ان کے احسان مند ہوتے ہیں۔ ان کے نمائندوں کو سہولت بہم پہنچانے کے لیے ہمارے ہیلی کاپٹرز شمالی وزیرستان کی جانب پروازن کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے قائدین سے ہدایات لے سکیں، اور ٹھیک اسی وقت ہم پشاور اور کراچی سے لاشیں بھی اُٹھاتے ہیں۔
اور جب ریاست کے لڑاکا طیارے اور ہیلی کاپٹرز ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے سرجیکل فضائی حملے کرتے ہیں، تو یہ دہشت گرد جنگ بندی کا اعلان کردیتے ہیں اور ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور اس بات کے لیے ان کے ممنون احسان ہوتے ہیں کہ اگلے ایک ماہ تک ہم ان کے ساتھ امن سے رہیں گے۔
ایک ماہ کی مدت کی شرائط کے امکانات کے بارے میں سوچیے کہ جب نہ تو بم دھماکے ہوں گے اور نہ ہی دیسی ساختہ دھماکہ خیز ڈیوائس کے حملے۔ ایسا تو ماضی میں کئی سالوں سے نہیں ہوسکا ہے۔ لہٰذا ہمیں تو خوش ہونا چاہیٔے۔
کس قدر دلچسپ حقیقت ہے کہ جس روز شام کے وقت ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کے بارے میں اعلان کیا، اسی دن کی صبح خیبر ایجنسی میں اس کے کارندوں نے پولیو مہم کے رضاکاروں پر حملہ کیا تھا۔
اگر ٹی ٹی پی کے قائدین امن کو موقع دینے کے تصور پر سنجیدگی سے غور کررہے تھے، انہیں ہفتے کی صبح خیبرایجنسی میں حملے کو مؤخر کردینا چاہیٔے تھا۔
لیکن کسے پروا ہے؟
جنگ بندی رمزیہ کلام ہے۔ دیگر تکیہ کلام کی طرح آج کل کا تکیہ کلام یہ ہے کہ ’’ایک ہی پیج پر ہیں۔‘‘
اس سے پہلے اس بات پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا تھا کہ سول انتظامیہ اور فوجی قیادت ایک پیج پر ہے یا نہیں۔ اب کم ازکم ٹی ٹی پی کی قیادت تو حکومت کے ساتھ ایک پیج پر ہے۔ہمیں تو خوشی محسوس کرنی چاہیٔے۔ ہم اگلے پیج پر منتقل ہوگئے ہیں۔
اس بلاعنوان کتاب کے کس قدر پیجز ہیں، جسے ہزاروں عام شہریوں اور فوجی جوانوں کے خون سے تحریر کیا گیا ہے؟
کوئی نہیں جانتا۔
کس قدر دلچسپ حقیقت ہے کہ ہم ٹی ٹی پی کی تعریف کررہے ہیں کہ اس کے کمانڈروں کی مہربانیوں کی وجہ سے ہمیں ایک ماہ طویل جنگ بندی عطا ہوئی۔ خیبر پختونخوا کے وزیرِ اطلاعات شاہ فرمان کی ساری مدح سرائیاں کالعدم ٹی ٹی پی کے لیے ہیں، جس سے ان کی سخاوت ظاہر ہوتی ہے۔
وہ چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت مذاکرات کے لیے دہشت گردوں کی سنجیدگی کا مخلصانہ اور سنجیدہ مذاکرات کے ذریعے جواب دے۔
انہیں لگتا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ اس مرحلے پر امکان نہیں ہے کہ وفاقی حکومت انہیں مایوس کرے گی۔
لیکن پچپن ہزار عام شہریوں اور ہزاروں فوجیوں کے خاندانوں کا کیا ہوگا، جو ٹی ٹی پی کے ہاتھوں ہلاک ہوچکے ہیں؟
اس دلیل سے بگاڑ پیدا ہونے لگتا ہے۔ یقیناً پی ٹی آئی کی قیادت اور اس کی سائبر بریگیڈ کی طرف سے اس کو ’’منفی سوچ‘‘ اور امن کے امکانات کو سبوتاژ کرنے کی ایک کوشش قرار دیا جائے گا۔
لیکن اس مرحلے پر ان خاندانوں کی تشویش جائز ہے، جنہوں نےانسانی جانوں کا نقصان برداشت کیا ہے، اور انہیں حق ہے کہ وہ فوج اور عدلیہ کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی ہوتے دیکھیں۔
کیا ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے انہیں اپنا منہ بند رکھنے کے لیے کافی رقم ہرجانے کے طور پر ادا کردی ہے، اور وہ ہمیں جنگ بندی اور ٹی ٹی پی کے قاتلوں کے ساتھ امن کا کردار ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھیں گے۔
ہماری یادداشت کم ہے اور ہمارے مقاصد محدود نظری کا شکار۔
ہم بھول گئے ہیں کہ ٹی ٹی پی نے پچپن ہزار بے گناہ پاکستانیوں اور ہمارے ہزاروں فوجی جوانوں کو ہلاک کیا ہے۔
ہم نے یہ بھی بھلادیا ہے کہ ٹی ٹی پی ہمیں 80 ارب ڈالرز کا نقصان پہنچا چکی ہے۔اس نے ہمارے شہروں اور قصبوں کو اپنی وحشت اور خوف کی بے لگام مہم کے ذریعے یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس نے ہمارے بچوں کے اسکولوں کو تباہ کردیا تاکہ ہم جہالت اور ناخواندگی کے ساتھ زندگی گزاریں۔
ہماری عبادت اور تبلیغ کے حق کا انکار کرتے ہوئے اس نے ہماری مسجدوں پر بمباری کی۔ اس نے اپنے مسلک سے مختلف مذہبی مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو نشانہ بنا کر ہلاک کرکے ملک کو فرقہ وارانہ تقسیم کی گہری کھائی میں دھکیل دیا۔
انہوں نے ہمیں اپنے کھیل کے میدانوں میں دیگر ملکوں کی ٹیموں کی میزبانی کرنے سے روک دیا، چنانچہ ہماری ٹیم لندن ، شارجہ اور دبئی میں یہ میچز کھیلنے پر مجبور ہے۔
انہوں نے ہمارے فوجیوں کے سروں کے ساتھ فٹبال کھیلنے کی رونگٹے کھڑے کردینے والی خوفناک وڈیوز بھیجیں۔ انہوں نے ہمارے فوجی اثاثوں کو نشانہ بنایا اور ہمارے قیمتی فوجی سازوسامان تباہ کرکے ہمیں اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچایا۔
2010ء میں اغوا ہونے والے ایف سی کے جوانوں کی ٹی ٹی پی کی جانب سے ہلاک کیے جانے کی خبریں جب سامنے آئیں تو وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے ساتھیوں نے یہ تاثر دیا کہ امن مذاکرات اور دہشت گردانہ حملے ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔
اور اب جبکہ ٹی وی رپورٹوں کے مطابق بمباری جاری ہے تو دونوں فریقین کے مذاکرات کاروں کے درمیان رابطے بھی اس دوران جاری ہیں، جب کہ عام تاثر یہ ہے کہ یہ مذاکرات ٹی ٹی پی کے گڑھ پر لڑائی کے لیے مذاکرات کو روک دیا گیا ہے۔
جنگ بندی کے اعلان پر ٹی ٹی پی کی ہرایک تعریف کررہا ہے اور ان کا ڈھول پیٹ رہا ہے، لیکن یہ نہیں بھولناچاہیٔے کہ ہمارے معاشرے کا ایک بے زبان اور اہم طبقہ اس امن عمل میں اپنی نمائندگی سے محروم ہے۔
یہ بے زبان لوگ ان خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو ٹی ٹی پی کی مظالم کے سبب اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں۔ ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم ان متاثرہ خاندانوں کی قیمت پر ان کے انصاف کے حق کو رد کرکےٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی معاہدہ کریں۔ اور ان لوگوں کو عزت دیں جنہوں نے ان کی بہنوں، ماؤں، والد اور بچوں کو ہلاک کرچکے ہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں