• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:11pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:30pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:31pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:11pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:30pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:31pm

پُروقار سفر

شائع March 3, 2014
لاپتا بلوچوں کے لیے کارواں اسلام آباد میں، وزیراعظم کی ایک ملاقات صورتِ حال بدل سکتی ہے۔
فوٹو۔ سیدعلی شاہ
لاپتا بلوچوں کے لیے کارواں اسلام آباد میں، وزیراعظم کی ایک ملاقات صورتِ حال بدل سکتی ہے۔ فوٹو۔ سیدعلی شاہ

چھوٹے ہوں یا بڑے، طویل عرصے سے جاری تنازعات میں ایسے بھی لمحات آتے ہیں جب کہانی بہتری کی خاطر تبدیل ہوکر، پالیسی میں بدلاؤ اور شاید قضیے کے خاتمے کی طرف بھی قیادت کرسکتی ہے۔ اگر کوئی قضیہ خاتمے کا مستحق ہے تو ان میں سے ایک ہے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے طرف سے بلوچستان کے نافرمان اور علیحدگی پسندوں پر مظالم کا روا سلسلہ۔

یہاں بھی ایک ایسا لمحہ ہے جسے اسلام آباد کی سیاسی حکومت اگر اپنے بس میں کرلے تو پھر بلوچستان میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے تحت جاری پالیسی کی کہانی کا بھی رخ بدلا جاسکتا ہے۔ نہایت دل گرفتہ حالات میں طویل مسافت پیدل طے کرنے والے ماما قدیر بلوچ کا کارواں پُروقار انداز میں اپنی منزل اسلام آباد تک پہنچ چکا۔

ماما قدیر بلوچ اور ان کے ساتھ چلنے والی چند زندگیوں نے خطرات کے باوجود، بہادری سے تمام تر مصائب کا سامنے کرتے ہوئے جو کچھ کیا، وہ نام نہاد لاپتا بلوچوں اور بلوچستان کے مختلف حصوں سے تواتر کے ساتھ ملنے والی بلوچ مسخ شدہ لاشوں کے حقائق کو اُجاگر کرتا ہے۔

جبراً اغوا کیے گئے بلوچوں کے ورثا کی طرف سے احتجاج کرنے والے مارچ کے یہ شرکا، جو خود بدترین ریاستی جرائم کا نشانہ بنے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی جانب سے پُرامن اور عدم تشدد پر مبنی احتجاج ایک علامت ہے۔

وزیرِ اعظم نواز شریف کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ اٹھ کر کھڑے ہوں تاکہ تاریخ میں ان کا شمار حق والوں کے ساتھ ہو۔

اگر جناب شریف ماما قدیر اور ان کے ساتھ آنے والوں سے ذاتی طور پر ملاقات کریں، ساتھ کھڑے ہوں اور وعدہ کریں کہ اِن کی حکومت وہ اور اُن جیسے دوسرے خاندانوں کے تحفظ اورلاپتا افراد کی یقینی بازیابی کے لیے ہرممکن اقدامات اٹھائے گی تو اس سے ناقابلِ یقین حد تک طاقتور پیغام جائے گا کہ قانون کی حکمرانی اور بلوچ حقوق کے معاملے کو آخرِکار اسلام آباد میں برسرِ اقتدار لوگ سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔

اس ضمن میں وقت کی بھی غیر معمولی اہمیت ہوگی: بلوچستان میں حقوق کی خلاف ورزیاں طویل عرصے سے جاری ایک قضیہ ہے لیکن ان سب کے باوجود سب سے زیادہ بڑا مسئلہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں کی زیادتیاں ہیں۔ جناب شریف اپنے انتخابی وعدوں پر عمل کرکے، کنارے پر کھڑے بلوچستان کو واپس دھارے میں لانے کی پوزیشن میں ہیں۔

یقیناً، جمہوری طور پر منتخب ایک وزیرِ اعظم اور اپنے حقوق کی خاطر باوقار جدوجہد کرنے والے شہریوں کے درمیان ملاقات، قائم چیزوں کے لیے ایک چیلنج نہیں ہوگی تاوقتیکہ، اس کے نتیجے میں بامقصد عمل بھی سامنے آئے۔

یہاں شریف حکومت اور وہاں بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالمالک کی قیادت میں قائم صوبائی حکومت اس حوالے سے اب تک ناکام رہی ہیں۔ اگرچہ ابتدا میں انہوں نے معاملات درست کرنے کی باتیں کی تھیں لیکن نہ تو وزیرِاعظم اور نہ ہی وزیرِ اعلیٰ نے بلوچستان میں علیحدگی پسندی سے جُڑے تشدد کے خاتمے کے واسطے اخلاقی جرائت اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

بہرحال، یہ منتخب حکومتوں کو تسلیم کرنے کا سوال ہے، جب تک اسے قوت اور اصرار کے ساتھ چیلنج نہیں کیا جائے گا، پرانی صورتِ حال بدستور اپنی جگہ برقرار رہے گی۔ اگر وزیرِ اعظم نواز شریف ماما قدیر سے ملاقات کرتے ہیں تو پھر شاید وہ بلوچستان کی صورتِ حال کے ری سیٹ بٹن کو بھی دباسکیں؟

انگریزی میں پڑھیں

ڈان اخبار

کارٹون

کارٹون : 10 نومبر 2024
کارٹون : 8 نومبر 2024