ذرا حساب کیجیے
مذاکراتی عمل کے دوران اگر وہ پُرتشدد کارروائیاں نہ ہونے کی ضمانت نہیں دے سکے تو پھر کسی معاہدے پر پہنچ جانے کے بعد، وہ کس طرح پُرتشدد کارروائیاں نہ کیے جانے کی ضمانت دینے کے قابل ہوسکتے ہیں؟ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے خیال پر یہ سوال شروع سے موجود ہے اور ہر بار، جب بھی مذاکرات کی کوشش ہوتی ہے، یہ پلٹ کر سامنے آجاتا ہے۔
حالانکہ یہ حقائق پہلے ہی ثابت ہوچکے اور جیسا کہ گذشتہ روز اسلام آباد کی عدالت پر حملہ ہونے کے بعد بھی ہوا، طالبان کے طرف داروں کا یہ طریقہ واردات ہے کہ چاہے بے نام تیسری قوت ہو یا باریک پردے کے پیچھے پوشیدہ طاقت، وہ ہر تازہ حملے کے بعد مبینہ طور پر انہی کو تشدد میں ملوث گردانتے ہیں۔
یہ منطق ہی غیر منطقی ہے: ٹی ٹی پی ایک ایسا شرپسند گروہ ہے جس کا ایجنڈا تشدد اور ریاست کو اٹھا کر باہر پھینکا ہے لیکن وہ امن و استحکام کے حق میں ہے جبکہ یہاں ایسے بے نام عناصر ہیں جو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔
ایسا تجویز کرنا ہی سنگدلی ہے لیکن اس کے بعد اٹھنے والا سوال یقینی ہے: اب جبکہ وہ عناصر واقعی پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کررہے ہیں تو پھر امن پسند ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کیوں کیے جائیں؟
یقنیاً، مذاکرات کی وکالت کرنے والے عوام کے سامنے ہرگز یہ اعتراف نہیں کریں گے کہ تنہائی میں وہ کیا کچھ تسلیم کرچکے ہیں: ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ایک ایسی پالیسی ہے جس کی جڑیں خوف و دہشت میں پیوست ہیں۔
اس شرمناک مفاہمانہ منطق کے مطابق اگر ٹی ٹی پی کو مصروف نہیں کیا جاتا تو پھر وہ مزید قتل وغارت گری کریں گے جیسا کہ یہ ملک اب تک دیکھتا چلا آرہا ہے۔ ٹی ٹی پی کے مضبوط ٹھکانوں پر اگر لڑائی مسلط کی جاتی ہے تو اس کے سنگین نتائج مرتب ہوں گے، لہٰذا اس سے بچنے کے لیے بہتر یہی ہے کہ طالبان سے مذاکرات کرلیے جائیں۔
حکومت نے معاہدے کی جستجو میں پہلے اپنی اصل کمزور پوزیشن دکھائی ہے لیکن اب ریاست کم از کم دوباتوں کا واضح اظہار کرسکتی ہے کہ اگر مذاکرات ہوئے تو ٹی ٹی پی کی شرائط پر ہرگز نہیں ہوں گے۔
اول، اب حکومت اور اس کی مذاکراتی ٹیم کو ٹی ٹی پی سے صاف صاف مطالبہ کردینا چاہیے: اگر ٹی ٹی پی کسی حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کرتی تو پھر اس کی قیادت کو واضح کردینا چاہیے کہ اس کے مجموعے میں شامل کون کون سی تنظیمیں اور گروہ اس کے زیرِ اثر ہیں اور کون کون سے گروہ یا تنظیمیں اس کے قابو سے باہر ہیں۔
رسمی طور پر کھلے بندوں اس اظہارکے بغیر، کسی بھی پُرتشدد کاروائی سے ٹی ٹی پی کا اظہارِ لاتعلقی وسیع پیمانے پر ناقابلِ قبول ہوگا۔
دوئم، فوجی قیادت کے ساتھ مل کر حکومت کو ٹی ٹی پی کے باقیماندہ مضبوط ٹھکانوں پر دستک دینے کے منصوبے پر کام جاری رکھنا چاہیے، جبکہ ٹی ٹی پی کے متوقع ردِ عمل سے نمٹنے کے لیے شہروں اور قصبوں میں سیکیورٹی انتظامات سخت کیے جانے چاہئیں۔
اس سے ٹی ٹی پی کو ممکنہ طور پر واضح پیغام جائے گا کہ صرف مذاکرات واحد حل نہیں، سلامتی کے ادارے اپنے شہریوں اور خود ریاست کے تحفظ کی اہلیت رکھتے ہیں۔
اگر یہ عزم ظاہر کردیا جاتا ہے اور اس پر قائم بھی رہتے ہیں تو پھر ٹی ٹی پی کے واسطے پینترہ بازی اور حیلے بہانوں کی گنجائش بہت کم پڑجائے گی۔
تبصرے (3) بند ہیں