• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm

طالبان سے مذاکرات کے لیے نئی کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ: ذرائع

شائع March 6, 2014
فائل فوٹو—
فائل فوٹو—

اسلام آباد: ڈان نیوز ٹی وی نے ذرائع کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک نئی بااختیار کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق امکان ہے کہ یہ نئی کمیٹی آئندہ دو روز میں تشکیل دے دی جائے گی جو صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت کے علاوہ فوج، آئی ایس آئی اور دیگر اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ہوگی۔

اس سے قبل آج جمعرات کی صبح تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے لیے قائم حکومت اور طالبان دونوں کمیٹیوں کے اراکین نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کی، جس میں مذاکراتی عمل کو آگے کی جانب بڑھانے پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔

ملاقات میں طالبان سے براہ راست مذاکرات کے لیے موجودہ حکومتی کمیٹی کو تحلیل کرکے ایک نئی حکومتی کمیٹی کو تشکیل کرنے کی تجویز پر غور کیا گیا۔

مشترکہ اعلامیے کے مطابق وزیراعظم اور کمیٹیوں کے درمیان ملاقات میں پاکستان کو ہر قسم کی شدت پسندی سے پاک کرنے کا عزم کیا گیا۔

اعلامیہ میں نئی فیصلہ سازی میں دونوں کمیٹیوں کی باہمی مشاورت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ امن کے بغیر پاکستان میں خوشحالی نہیں آسکتی۔

مشترکہ اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ دونوں کمیٹیاں رابطہ کاری کے فرائض انجام دیں گی۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی اس ملاقات میں شریک ہیں، جن کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ وہ نئی کمیٹی میں شامل ہوں گے۔

آج ہونے والی ملاقات کے سلسلے میں حکومتی اور طالبان کمیٹی کے اراکین آج صبح ہی وزیراعظم ہاؤس پہنچ گئے تھے۔

ملاقات ختم ہونے کے بعد طالبان کی کمیٹی کے رکن مولانا سمیع الحق نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ ملاقات ایک مثبت ماحول میں ہوئی جس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ کسی صورت بھی آپریشن نہ کیا جائے۔

اس سے قبل گزشتہ روز حکومت اور طالبان کے مذاکرات کاروں کے درمیان اکوڑہ خٹک میں اجلاس کا پہلا دور ہوا تھا، جو دونوں اطراف سے بعض شرائط و ضوابط پر اتفاق رائے کے ساتھ ختم ہو گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ملاقات کے دوران وزیراعظم نے حکومت اور طالبان دونوں کمیٹیوں کی کارکردگی کو سراہا اور کہا کہ حکومت اور طالبان باہمی تعاون کریں تاکہ ان لوگوں کی نشاندہی کی جاسکے جو مذاکراتی عمل میں خلل پیدا کرتے ہیں۔

مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ ایک دو روز میں وزیرستان جانے کے حوالے لائحہ عمل مرتب کرلیا جائے گا۔

اجلاس کے بعد حکومتی کمیٹی کے کوآرڈینٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ اجلاس میں مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے کے حوالے سے مختلف آپشنز پر بات چیت کی گئی، انہوں نے اجلاس کے نتائج کو تسلی بخش قرار دیئے۔

ان کا کہنا تھا کہ مذاکراتی عمل دوسرے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے اور اس میں اہم فیصلے کیے جائیں گے، جبکہ بات چیت کے پہلے دور میں دونوں فریقین کے درمیان رابطوں اور اعتماد کو بڑھانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ حکومت کی کمیٹی میں کمیٹی کے کوآڑڈینیٹر عرفان صدیقی، آئی ایس آئی کے افسر میجر (ر) عامر شاہ، سابق سفیر رستم شاہ مہمند اور نامور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی شامل ہیں۔

اس کے علاوہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے مذاکرات کے لیے قائم کی گئی کمیٹی میں جمیعت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق، لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز اور جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر ابراہیم شامل ہیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

Syed Mar 06, 2014 11:37am
پاکستان سے دہشتگرد لشکروں، سپاہوں اور طالبانِ خون کا قلع قمع کرنا وقت کی فوری ضرورت ہے۔ ساتھ ہی اتحادِ امت کے ذریعے اِن تکفیریوں کے ہمدردوں، خیرخواہوں اور سیاسی ونگز کو نتھ ڈالنا بھی انتہائی ضروری ہو گیا ہے خواہ اُن کا تعلق بابائے خوارج کی جمعیت علمائے 'اسلام' سے ہی کیوں نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔ تمام بے لگام عناصر بشمول علمائے سُو کو لگام ڈالنی ہی پڑے گی
Syed Mar 06, 2014 11:46am
کالعدم دہشتگرد طالبان کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان قومی اتفاق رائے منتشر کرنے کی سازش ہے۔ دہشتگردوں کی طرف سے وقتی جنگ بندی قابلِ قبول نہیں۔ تمام لشکر، سپاہ اور طالبانِ خون کو فوری طور پر اور غیر مشروط ہتھیار ڈالنا پڑے گا۔ پاکستان کی بقاء کیلئے اِن دہشتگردوں کی طرف سے وقتی جنگ بندی مسئلے کا حل نہیں، ریاستی ادارے اپنا آپریشن شروع کریں اور اِن خوارج و تکفیری طالبان کے مزید ٹائم لینے کے دھوکے میں نہ آئیں- یاد رکھیں، پاکستان اور طالبان ایک ساتھ نہیں چل سکتے، لہذا آپریشن شروع کیا جائے اور تمام دہشت گردوں کے مکمل خاتمے یا سرنڈر کرنے تک جاری رکھا جائے۔ طالبان کی سرپرستی اور حمایت کو ریاست کے خلاف ایک سنگین جرم قرار دیا جائے،اور پھر جو بھی لوگ اس جرم کے مرتکب ہوں اُن کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ ملک سے انتہاپسندی، نام نہاد فرقہ واریت اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے سخت ترین سزا کا دیا جانا بھی وقت کی اولیں ضرورت ہے۔
Israr Muhammad Mar 06, 2014 08:09pm
مزاکرات‏ ‏میں‏ ‏فوج‏ ‏شامل‏ ‏نہیں‏ ‏کرنا‏ ‏چاھیے‏ ‏اس‏ ‏کا‏ ‏کوئی‏ ‏آئینی‏ ‏و‏ ‏قانونی‏ ‏جواز‏نہیں‏‏ ‏فوج‏ ‏ایک‏ ‏ادارہ‏ ‏ھے‏ ‏حکومت‏ ‏کے‏ ‏ماتحت‏ ‏ان‏ ‏کا‏ ‏مزاکرات‏ ‏سے‏ ‏کوئی‏ ‏تعلق‏ ‏نہیں‏ ‏ ‏آگر‏ ‏شامل‏ ‏کرنا‏ ‏ھے‏ ‏تو‏ ‏صوبہ‏ ‏حیبر‏ ‏پحتون‏ ‏حوا‏ ‏کے‏ ‏حکومت‏ اور‏ ‏گورنر‏سے‏ ‏نمائندے‏ ‏شامل‏ ‏کئے‏ ‏جائیں‏ ‏اور‏ ‏حکومت‏ ‏حود‏ ‏اپنے‏ ‏نمائندۓ‏ ‏شامل‏ ‏کریں‏ ‏

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024