’میری اسامہ سے پچاس مرتبہ ملاقات ہوئی تھی‘
نیویارک: دہشت گردی کے ایک برطانوی مجرم نے نیویارک میں ہونے والے مقدمے کی سماعت کے دوران بتایا کہ اس نے پچاس مرتبہ اسامہ بن لادن سے ملاقات کی تھی، اور القاعدہ کی جانب سے اُس کو ایک مسافر طیارے کو تباہ کرنے کے لیے بھرتی کیا گیا تھا۔
ساجد بادت کو 2005ء میں بدنام زمانہ جوتا بم حملے کی سازش میں شریک ہونے کے جرم میں 13 برس قید کی سزا دی گئی تھی، امریکا میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد اس وقت دنیا بھر میں فضائی سفر کے حوالے سے تشویش پائی جاتی تھی۔
برطانوی میڈیا کے مطابق چونتیس برس کے ساجد کو اپنے سابقہ ساتھیوں کے خلاف گواہی کے لیے رضامند ہونے پر انہیں وعدہ معاف گواہ نامزد کیا گیا تھا۔
انہیں برطانیہ میں جلد ہی جیل سے رہا کردیا گیا تھا، جہاں حکام نے رہائش اور مالی امداد فراہم کی تھی، اور اب انہوں نے ایک نامعلوم مقام سے پیر کے روز گواہی دی ہے، اس لیے کہ انہیں امریکا میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔
ساجد بادت امریکی حکومت کے دوسرے گواہ کے طور پر سلیمان ابو غیاث کے مقدمے میں پیش ہوئے، جو اسامہ بن لادن کے داماد اور القاعدہ کے سابق ترجمان تھے، ان کے خلاف مین ہیٹن میں امریکیوں کو قتل کرنے کی سازش، دہشت گردوں کے ساتھ تعاون اور ضروری حمایت فراہم کرنےپر مقدمہ چلایا جارہا ہے۔
استغاثہ نے جیوری کو دو وڈیوز دکھائیں، جن میں ہوائی جہاز کو دھماکے سے اُڑانے کی امریکیوں کو دھمکی دی تھی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے اپنے جوتے میں بم لگا رکھا ہے۔
وڈیو کے ایک منظر میں ابو غیاث چلّایا کے ’’ہوائی جہاز کا یہ طوفان کسی طوفان سے کم نہیں ہوگا۔‘‘
لیکن وکیل صفائی نے کہا کہ ابوغیاث کو اس سازش کا مجرم ثابت کرنے کے لیے یہ ثبوت کافی نہیں ہے، اور ساجد بادت جو گواہی دینے کے دو گھنٹے سے زیادہ وقت کے دوران پریشان اور ناخوش دکھائی دے رہا تھا، حقیقی دہشت گرد ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے افغانستان میں اسامہ بن لادن سے کتنی مرتبہ ملاقات کی تھی، تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے تربیت اور القاعدہ کے اعلٰ سطح کے رہنماؤں کے ساتھ رشتہ اخوت قائم کرنے کے لیےتین سال صرف کیے۔ ساجد بادت نے جواب دیا ’’لگ بھگ بیس مرتبہ، شاید پچاس سے زیادہ مرتبہ۔‘‘
انگلش، عربی، گجراتی اور اردو پر عبور رکھنے والے ساجد بادت نے بتایا کہ مسافر طیارے کو اپنے جوتے میں چھپےہوئے بم سے اُڑانے کے لیے القاعدہ کی طرف سے بھرتی ہونے کے بعد انہوں نے 2001ء کے آخر میں دھماکہ خیز مواد افغانستان سے برطانیہ اسمگل کیا تھا۔
برطانیہ سے بھرتی ہونے والے ان کے ساتھ رچرڈ ریڈ، جنہیں جوتا بمبار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، وہ دسمبر 2011ء کے دوران پیرس سے میامی جانے والی پرواز کو تباہ کرنے کی کوشش پر امریکا میں عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔
ساجد بادت نے کہا کہ اُس سال اکتوبر سے دسمبر تک جب وہ اکیس برس کے تھے تو انہوں نے براہ راست رچرڈ ریڈ کے ساتھ افغانستان میں کام کیا تھا۔اور انہوں نے مختلف جہازوں کو تباہ کرنے کی جانچ پر پورے اُترے تھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ خالد شیخ محمد، جنہیں نائن الیون کا سازشی قرار دیا گیا تھا، کے سامنے اپنے خیالات رکھے، اور پھر خالد شیخ کے بھتیجے کے ساتھ کراچی میں اٹلانٹک یا یورپی ممالک کو جانے والی امریکی فلائٹ کو بم سے اُڑانے کا منصوبہ بنایا۔
ساجد بادت کی پرورش گلوسٹر کے انگلش قصبے میں مقیم ایک مذہبی مسلم گھرانے میں ہوئی تھی، ان کے مطابق انہیں پُرتشدد جہادی نظریے سے لندن میں 1997ء کے دوران متعارف کرایا گیا تھا۔
1998ء کے دوران وہ بوسنیا گئے، جہاں انہوں نے بلقان جنگ کے سابقہ فوجیوں سے ملاقات کی، اور انہوں نے ان سے ہتھیاروں کا استعمال سیکھا۔ 1999ء میں جبکہ وہ محض انیس سال کے تھے، انہوں نے جہاد کی تربیت حاصل کرنے کے لیے دبئی اور پاکستان کے راستے افغانستان کا سفر کیا۔
انہوں نے بتایا کہ افغانستان کے شہر قندھار میں ان کی ملاقات القاعدہ کے سینئر لیفٹیننٹ سیف العدل سے ہوئی اور انہوں نے رضاکارانہ طور پر خود کو تربیت کے لیے پیش کیا۔
ساجد بادت نے سیف العدل کے الفاظ دہرائے ’’اگر تم امریکا اور یہودیوں کے خلاف حملوں میں حصہ لینا چاہتے ہو تو میں اس کا انتظام کرسکتا ہوں۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ 1999ء کے دوران انہوں نے پہلی تربیت حاصل کی، جس میں انہیں سکھایا گیا کہ ہتھیار کس طرح چلائے جاتے ہیں، بلند پہاڑوں سے نیچے کیسے اُترا جاتا ہے، فوجی گریڈ کے دھماکہ خیز مواد کی تیاری اور اس کا استعمال انہیں سکھایا گیا۔
اس کے علاوہ انہوں نے افغان شہر جلال آباد کے نزدیک دیرنتا کیمپ میں دھماکہ خیز مواد کے ایک ہفتے کی مختصر تربیت بھی حاصل کی، اور اس وقت کے حکمران طالبان اور ان کے حریف شمالی اتحاد کی فرنٹ لائن کے درمیان چھ ہفتے بھی گزارے۔
ساجد بادت نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے چھ سے نو مہینے کا عرصہ افغانستان میں القاعدہ کے گیسٹ ہاؤس میں گزارا تھا، ایک مرتبہ انہوں نے مشروبات اور اسنیکس کی دکان پر بھی کام کیا اور طالبان کے ایک میگزین کے لیے بطور انگریزی مترجم بھی کام کیا۔
2001ء کی ابتداء میں انہوں نے قندھار کے جنوب میں واقع ایک کیمپ میں القاعدہ کی پہلی باقاعدہ فوجی تربیت حاصل کی اور سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کے تین امدادی کورس بھی مکمل کیے،جس میں مغربی معاشرے میں گھل مل کر رہنے کی ترکیبیں بھی شامل تھیں۔
لیکن ان کی گواہی میں ابوغیاث کے خلاف کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔ ساجد بادت نے کہا کہ وہ کبھی بھی ان سے نہیں ملے، یا مدعا علیہ سےدہشت گردی کی کسی سازش کے بارے میں بات نہیں کی، اور نہ ہی کسی کو ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنا، نہ ہی اس سازش کے بارے میں وہ جانتے ہیں۔