ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر میں تاخیر کی این ٹی ڈی سی ذمہ دار
لاہور: نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کو نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر میں غیرمعمولی تاخیر کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے، یہ لائن 2007ء سے 2013ء کے درمیان تعمیر کی جانی تھی۔ وزیراعظم نے اس سلسلے میں تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ اس کمپنی کے سات مینیجنگ ڈائریکٹر کے خلاف اس پروجیکٹ کی اسٹریٹیجک اہمیت کو نظرانداز کرنے اور جان بوجھ کر غفلت برتنے پر کارروائی کی جائے۔
اس پروجیکٹ میں تاخیر کی وجوہات تلاش کرنے، منصوبہ بندی کی خامیوں کی نشاندہی،ذمہ داری کا تعین کرنے اور اس منصوبے کی جلد ازجلد تکمیل کے لیے تجاویز دینے کے لیے وزیراعظم نواز شریف نے ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے کہا ہے کہ این ٹی ڈی سی نے اس منصوبے کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا ہےلہٰذااس کا محاسبہ کیا جانا چاہیٔے۔
قومی اقتصادی کونسل (ایکنک) کی ایگزیکٹیو کی واضح ہدایات کے باوجود اس ٹرانسمیشن لائن پر 2008ء اور 2011ء کے درمیان کام شروع نہیں کیا گیا تھا۔ این ٹی ڈی سی نے 2011ء میں 2005ء میں تیار کیے گئے پی سی ون پر نظرثانی کی اور کام اور لاگت کی گنجائش کو تبدیل کردیا۔
اس کے علاوہ انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈیبٹ ایکویٹی کو یکطرفہ طور پر تبدیلی کیا گیا، جو مجموعی غفلت اور بدانتظامی کے مترادف تھا۔اس نظرثانی شدہ پی سی ون میں کاروت اور آزاد پٹن ہائیڈرو پاور پروجیکٹ سے بجلی کی ترسیل بھی شامل تھی۔
رپورٹ کے مطابق ایسی کوئی دستاویزی ثبوت اس تاخیر کی ممکنہ وضاحت کے لیے نہیں پیش کیا جاسکتا۔
گزشتہ سال این ٹی ڈی سی کے بورڈ آف ڈائریکٹر نے اس تاخیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری کے تعین کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، جسے تین دن کے اندر اندر رپورٹ پیش کرنا تھی۔
لیکن اس کمیٹی نے 58 دن لے لیے اور کسی کی ذمہ داری کا تعین نہیں کیا، جس کی شرط پر ہی اس کو تشکیل دیا گیا تھا۔ نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ این ٹی ڈی سی کی اس پروجیکٹ کے لیے سنجیدگی کا ثبوت ہے۔‘‘
انکوائری کمیٹی کی رائے میں مینیجنگ ڈائریکٹر عامر الرحمان (19 اکتوبر 2007ء سے 18 نومبر 2008ء تک)، طارق قاضی (19 نومبر 2008ء سے 2 مارچ 2010ء تک) اور رسول خان محسود (5 مارچ 2010ء سے 27 جون 2012ء تک) کو اس تاخیر کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
رسول خان محسود کو اس کے علاوہ کسی مجاز اتھارٹی سے پیشگی منظوری لیے بغیر ڈیبٹ ایکویٹی کی شرح کو تبدیل کرنے کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا گیا ہے۔ این ٹی ڈی سی کی انتظامیہ نے ڈیڑھ سال (اکتوبر 2011ء سے جون 2013ء تک) کا وقت بغیر کسی جواز کے ضایع کیا۔
رپورٹ کے مطابق ایسے مینیجنگ ڈائریکٹرز جنہیں جنوری 2012ء سے غیر فعال پایا گیا، ان میں نوید اسماعیل، مصدق احمد خان، خالد حسین رائے اور زرغم اسحاق خان شامل ہیں۔
انکوائری کمیٹی کا کہنا ہے کہ این ٹی ڈی سی نے روٹ کی تبدیلی اور پروجیکٹ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دیتے ہوئے زبانی طور پر مطلع کیا تھا کہ اس کے پہلے مرحلے کی لاگت 13 ارب روپے ہوگی۔ یہ پہلا مرحلہ دو سالوں میں مکمل ہوسکے گا۔