• KHI: Asr 5:04pm Maghrib 6:52pm
  • LHR: Asr 4:38pm Maghrib 6:27pm
  • ISB: Asr 4:44pm Maghrib 6:34pm
  • KHI: Asr 5:04pm Maghrib 6:52pm
  • LHR: Asr 4:38pm Maghrib 6:27pm
  • ISB: Asr 4:44pm Maghrib 6:34pm

پختون کا معمّہ

شائع April 3, 2014 اپ ڈیٹ April 4, 2014
پختونوں کو انکے کردار کے بارے میں بنائی گئیں فرضی داستانوں سے زیادہ کسی چیز نے نقصان نہیں پہنچایا -- السٹریشن -- خدا بخش ابڑو
پختونوں کو انکے کردار کے بارے میں بنائی گئیں فرضی داستانوں سے زیادہ کسی چیز نے نقصان نہیں پہنچایا -- السٹریشن -- خدا بخش ابڑو

حال ہی میں یورپین یونیورسٹی سے انتھروپولوجی (علم بشریات) میں ڈاکٹریٹ کرنے والے میرے ایک پختون دوست کا ای میل آیا- اس میں لکھا تھا: "ہم پختونوں کو ہمارے کردار کے بارے میں بنائی گئی فرضی داستانوں سے زیادہ کسی چیز نے نقصان نہیں پہنچایا"-

ہم اس بارے میں تبادلہ خیال کر رہے تھے کہ کس طرح پاکستان میں پختون تاریخ اور کردار کے حوالے سے خودساختہ ماہرین، پاکستانی ریاست کو ملک کے پختون قبائلی علاقوں میں موجود مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف بھرپور فوجی کارروائی کو روکنے کے لئے اس کردار کے دقیانوسی پہلوؤں کا استعمال کر رہے ہیں-

میرے دوست (جس کا تعلق خیبرپختون خواہ کے ضلع اپر دیر سے ہے ) نے ایک اور دلچسپ مشاہدہ کیا: ' آپ جانتے ہیں، یہ فرضی داستانیں اس حد تک آج کے پختون کے دماغ میں جڑ پکڑ چکی ہیں کہ اگر کوئی انہیں ختم بھی کرنا چاہیے توسب سے پہلے یہی نوجوان پختون اسے لعنت ملامت کرنا شروع کر دیں گے- وہ ان فرضی داستانوں پر یقین قائم رکھنا چاہتے ہیں پر یہ نہیں جانتے کہ کئی بار انہی فرضی داستانوں نے انہیں ایک ایسی عقل سے پیدل قوم ظاہر کیا ہے جو ذرا سے اشارے پر عزت، ایمان اور رواج جیسی چیزوں کے دفاع میں بندوقیں تان لیتے ہیں'-

اپنی ای میل میں میرا دوست مخصوص غیر پختون سیاسی پارٹیوں، مذہبی رہنماؤں اور دانشوروں سے نالاں تھا جو اس کے خیال میں پختون کے حوالے سے ایسے دقیانوسی اور فرضی داستانیں تشکیل دے رہے تھے جن سے تحریک طالبان پاکستان جیسی انتہا پسند تنظیموں کا عقلی جواز پیش کیا جا سکے کیونکہ ان میں بڑی تعداد پختونوں کی ہے-

ساتھ ہی اس نے یہ بھی بتایا کہ یہی حال مغرب میں ہے، تعلیمی دنیا میں اس کے امریکی اور یورپین ہم عصر بھی ان خیالات اور افسانوں پر یقین رکھتے ہیں- اس نے لکھا :'جب وہ یہاں (یورپ میں) پختون طالبعلموں سے ملتے ہیں تو حیران ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ طالبعلم ذہین، معقول اور انسان دوست ہوتے ہیں، چنگیز خان نہیں!"

اس موضوع پر بیشمار کتابیں اور ریسرچ پیپر لکھے گۓ ہیں جو پختون کے کلچرل اور سماجی کردار سے وابستہ فرضی داستانوں کی قلعی کھول چکے ہیں-

ان میں سے تقریباً تمام ہی british colonialists پر پختونوں کی دقیانوسیت کا الزام عائد کرتے ہیں- Pakhtun Ethnic Nationalism: From Separation to Integration میں عادل خان لکھتے ہیں کہ سنہ اٹھارہ سو اننچاس میں جب برطانیہ نے افغانستان کے جنوبی حصّے پر قبضہ کیا تو وہاں کے پختون قبائل کی جانب سے انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا- برطانیہ کو اندازہ ہو گیا کہ پختون ان کی ترقیاتی اور مہذب سوچ سے بالکل مختلف ہیں-

یہی وقت تھا جب برٹش نے انہیں 'عالی ظرف وحشی ' کا نام دیا- حالانکہ آگے کی دہائیوں میں (خصوصاً اٹھارہ سو ستاون میں غدر کے دوران اور بعد میں بھی) ان نوآبادکاروں کو مختلف غیر پختون مسلمانوں اور غیر مسلموں سے مزید سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا-

تب سے برٹش لکھاریوں نے پختونوں کی ایسی ڈرامائی اور تجدیدی تصویر تیار کرنی شروع کر دی جو جنوبی ایشیا کے مختلف تاریخ دانوں کے بیچ بھی مقبول ہو گئی-

عادل خان کو یہ شکایت ہے کہ پختونوں کے بارے میں مخصوص نظریہ نے ایسے غیر واضح جغرافیائی اور اقتصادی حالات پیدا کیے جو پختونوں کی نفسیات پر اثر انداز ہوۓ- مزید یہ کہ ناقابل تسخیر، عالی ظرف وحشی کی تشہیر اس ڈھنگ سے کی گئی ہے کہ بہت سے پختون کے لئے اب اس تصور کو قائم رکھنا فرض ہوگیا ہے-

حال میں پختونوں کے کردار کی یہ فرضی داستانیں وہ لوگ استعمال کر رہے ہیں جو پختون اکثریتی علاقوں سے ابھرنے والی مذہبی عسکریت پسندی کو ریاست کی جانب سے ان معزز قبائل کی روایات کا احترام نہ کرنے کا نتیجہ سمجھتے ہیں (شاید یہی انتقامی کارروائیوں کے لئے ان قبائل کے 'تاریخی' رجحان کو متحرک کرنے کا سبب بنا)- دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی فرضی داستانیں کسی زمانے میں پختون سیکولر قوم پرستوں نے بھی استعمال کی تھیں-

پختون قوم پرستی کے مقبول ترین آرکٹیکٹ، خان عبدل غفار خان، بھی اپنی پختون نیشنلسٹ ارگنائزیشن کے نوآبادیاتی مخالف پہلو، خدائی خدمتگار، کے ناقابل تسخیر جنگجو تیار کرنے کے لئے، پختون کے اسی افسانوی کردار پر انحصار کرتے تھے-

Myths of Nation & Class in Mapping the Nation میں ارنسٹ گلنر کا خیال ہے، حالانکہ پختون آزاد ذہن رکھنے والے لوگ ہیں، اور اپنی صدیوں پرانی روایات پر فخر کرتے ہیں، وہ بڑے موقع پرست اور عملی لوگ ہیں-

جب پاکستان افغانستان میں داخل ہونے والی روسی فورسز کے خلاف امریکی پراکسی جنگ کا حصّہ بنا، تب ضیاء الحق کی آمرحکومت نے افغان مجاہدین کے لئے حمایت حاصل کرنے کے لئے ریاستی میڈیا اور روس مخالف دانشوروں کا استعمال کیا اور یہ تصور عام کیا کہ پختون تاریخی طور پر ناقابل تسخیر نسل ہے جس نے اپنے اوپر قابض ہونے والی تمام طاقتوں کو شکست دی-

آپ یہ خیالات آج بھی سن سکتے ہیں، خصوصاً ان لوگوں کے منہ سے جو ملک کے قبائلی علاقوں میں ریاست کے ملٹری آپریشن کے خلاف ہیں- لیکن کیا یہ دعوے تاریخی طور پر درست ہیں؟

جی نہیں، حقیقت یہ ہے کہ پختون کو کئی مواقعوں پر شکست دی گئی ہے- الیگزینڈر، تیمور، نادر شاہ، مہاراجہ رنجیت سنگھ، اور برٹش ان سب نے پختونوں کو شکست دی-

سنہ دو ہزار آٹھ کے پیپر، Losing the Psy-war in Afghanistan ، میں مصنف لکھتے ہیں: 'یہ سچ ہے کہ برٹش نے کئی مواقعوں پر شکست ضرور کھائی لیکن آخر میں وہ قبائلی پختونوں کو زیر کرنے میں کامیاب ہو گۓ- اگر برٹش چاہتے تو وہ افغانستان پر اپنی حکومت جاری رکھتے، لیکن ان کے نزدیک یہ ضروری نہیں تھا چناچہ انہوں نے اسے ہندوستان اور روس کے درمیان ایک بفر اسٹیٹ (Buffer State ) ہی رہنے دیا- سنہ انیس سو اسی میں بھی اگر روس کی معیشت نہ ڈوبتی تو اسکا شکست کھانا مشکل تھا، اور یہ زوال افغانستان میں جنگ کی وجہ سے نہیں آیا، بلکہ اگر امریکی نام نہاد 'مجاہدین' کو پیسہ اور اسلحہ نہ فراہم کرتے تو-'

پیپر میں یہ بھی کہا گیا،' پختون زبردست جنگجو ہیں، جنگ جن کا اوڑھنا بچھونا ہے، وہ ہمیشہ اعلیٰ طاقت اور برتر حکمت عملی کے آگے زیر ہوجاتے ہیں- پختون کبھی بھی ایک منظم، پوری طرح سے لیس، حوصلہ مند اور یکساں بے رحم قوّت کے مقابلے میں کھڑے ہونے کے لئے مشہور نہیں رہے-'


ترجمہ: ناہید اسرار

انگلش میں پڑھیں

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Apr 07, 2014 12:26am
مزید یہ کہ محمود غزنوی اور محمد غوری بھی نہ تو افغان تھے نہ پٹھان، یہ ترک لوگ تھےجو افغانستان پر حکومت کرتے رہے۔
jebran Apr 09, 2014 10:43pm
i would like to argue that the approach of the writer is extremely biased,narrow and illogical.

کارٹون

کارٹون : 9 اپریل 2025
کارٹون : 8 اپریل 2025