• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

بلاول نشانے پر

شائع March 27, 2014
آج بلاول کو قاتل پکارا جا رہا ہے جبکہ 'اصل قاتلوں' کو 'ہمارے لوگ' قرار دیا جا رہا ہے -- فائل فوٹو
آج بلاول کو قاتل پکارا جا رہا ہے جبکہ 'اصل قاتلوں' کو 'ہمارے لوگ' قرار دیا جا رہا ہے -- فائل فوٹو

آجکل میڈیا کی توجہ کا مرکز تھر بنا ہوا ہے جہاں کے باشندوں کو ایک المیے کا سامنا کرنا پڑا ہے- بہت سے بچے غذائی قلت کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں اور جس وقت میں یہ جملے لکھ رہا ہوں اس حوالے سے مزید لرزہ خیز تفصیلات سامنے آ رہی ہیں-

ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ تھر کی صورتحال، کسی حد تک انتظامی ناکامی ہے لہٰذا قصوروار پارٹی پر کی جانے والی تنقید حق بجانب ہے- آپ کسی بھی طرح حکمران پارٹی کو مکمل طور پر بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے-

تاہم میں نے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر یہ محسوس کیا ہے کہ بہت سے لوگ اس تنقید میں حد سے آگے چلے گئے ہیں اور وہ اس سانحے کو سیاسی پوانٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کر رہے ہیں اور پی پی پی سے اپنی نفرت کا اظہار کر کے اچھا محسوس کر رہے ہیں-

ان کے اس نقطہ نگاہ کو خاص طور پر پنجاب سے تعلق رکھنے والی، اربن مڈل کلاس نے اپنا لیا ہے- مجھے سوشل میڈیا پر اب بھی ایسی پوسٹس نظر آتی ہیں جن میں پی پی پی کو قاتلوں اور فرعونوں کی ایسی پارٹی کی طرح پیش کیا جاتا ہے جو سندھ فیسٹیول میں ناچ رہے ہیں جبکہ تھر بھوک سے مر رہا ہے- بہت سے نوجوان جنھیں قحط کے بارے میں کوئی علم نہیں لیکن وہ غذائیت کے ماہر بن گئے ہیں اور وہ اس موقع کو اپنی نفرت کے اظہار کے لئے استعمال کر رہے ہیں-

اسی طرح جب موئنجو دڑو کے مشہور مقام پر سندھ فیسٹیول منعقد کیا گیا تھا تو ایسا لگنے لگا تھا کہ ہر کوئی آرکیالوجی کا ماہر بن گیا ہے اور ہر کوئی اس مقام پر موجود کھنڈرات کو پہنچنے والے 'ممکنہ نقصان اور ان کی سلامتی' کے بارے میں تشویش میں مبتلا معلوم ہو رہا تھا حالانکہ اس سے پہلے کسی نے بھی کبھی بھی اس حوالے سے کسی دلچسپی یا تشویش کا اظہار تک نہیں کیا تھا-

نفرت سے بھرپور اس مہم کا سب سے ظاہری نشانہ یقیناً نوجوان بلاول ہیں- میں نے ایسی کئی پوسٹس دیکھیں جن میں انہیں بہت سے افراد کا قاتل قرار دیا گیا اور چند ایک نے تو انہیں روم کے بادشاہ نیرو سے بھی ملا دیا- پی پی پی کے چیئرپرسن ہونے کے ناطے انہیں کو تنقید بھی سہنی پڑے گی لیکن انھیں ایک 'ماس مرڈرر' قرار دینا بھی ٹھیک نہیں-

میرے جاننے والوں میں سے بہت سے افراد ان سے محض اس بنا پر نفرت کرتے ہیں کہ وہ آصف علی زرداری اور بینظیر بھٹو کے بیٹے ہیں اور ان کا یہ 'اورری ایکشن' اس تناظر میں سمجھ میں بھی آتا ہے-

تھر کے سانحے سے پہلے بھی وہ مسلسل مذاق اور طنز کا نشانہ تھے اور بہت سے افراد ان کی نام نہاد مردانگی اور نسبتاً خراب اردو پر بھی فقرے کستے تھے- میراثی سیاست کے اس دور میں ہر سیاسی جماعت، جدی پشتی سیاستدانوں سے بھری پڑی ہے- اس کے باوجود، بلاول کو بطور خاص نشانہ بنایا گیا-

بالکل ابتدا سے بلاول نے انتہا پسندی کے خلاف ایک واضح اسٹینڈ لیا ہے اور اپنی نوجوانی کے باوجود انہوں نے پاکستان کو درپیش مسائل کو سمجھنے کے حوالے سے خاصی سمجھداری کا مظاہرہ کیا ہے- اس کے باوجودد، ان کی تقریروں کو، جن میں وہ طالبان کی مذمت کرتے ہیں، مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے-

یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بلاول کے مخالف افراد، طالبان جیسے عفریتوں کے حوالے سے ہمیشہ معذرت خوانہ دفاع میں سامنے آتے ہیں- بلاول کے علاوہ بھی وہ ان تمام آزاد خیال پارٹیوں سے نفرت کرتے ہیں جو انتہا پسندوں کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں-

آج بلاول کو قاتل پکارا جا رہا ہے جبکہ 'اصل قاتلوں' کو 'ہمارے لوگ' قرار دیا جا رہا ہے جو 9/11 کے بعد پاکستان کی جانب سے امریکہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے رستہ بھٹک گئے ہیں-

یہ سب کہنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ تھر میں جو کچھ ہوا وہ قابل معافی ہے یہ وہ کم قابل مذمت ہے- غفلت برتنے کے ذمہ داروں کا احتساب ہونا چاہئے اور انہیں سزا کا سامنا کرنا چاہئے لیکن ایک ہی وقت میں، ہمارے رد عمل میں نمایاں فرق، اپنے آپ میں قابل غور ہے-

تھر میں پڑنے والے قحط کی وجوہات خاصی پیچیدہ ہیں اور حکومتی غفلت اس کا اہم پہلو تو ہو سکتی ہے تاہم صرف اسے اس کی واحد وجہ قرار دینا بھی ٹھیک نہیں- اس طرح کے صحرائی علاقوں میں، دنیا بھر میں ایسے قحط دیکھنے میں آئے ہیں جن کی وجوہات بہت سی ہوتی ہیں مثال کے طور پر موسم، مارکیٹوں کا صحیح طریقے سے کام نہ کرنا، حد درجے کی غریبی، غریبوں کا قرضوں کے بوجھ تلے دب جانا اور زمینی ملکیت کے پیٹرن وغیرہ- اس تناظر میں، تھر میں جو کچھ ہوا، اس کا جائزہ لینا چاہئے اور اسی حوالے سے حکومت کی ذمہ داری کا بھی تعین کرنا چاہئے-

بلاول نے حال ہی میں پارٹی کی قیادت سنبھالی ہے اور وہ اس سانحے سے کس طرح نبٹتے ہیں، انہیں بنیادی طور پر اسی حوالے سے چانچنا چاہئے- ان پر تنقید اس بنا پر ہونی چاہئے کہ وہ کس طرح اپنی حکومت کے ان حکام کا احتساب کرتے ہیں جو اس کے ذمہ دار ہیں- ان کے بارے میں فیصلہ اس بنا پر ہونا چاہئے کہ ان کی حکومت اس قسم کی صورتحال سے نبٹنے کیلئے کیسی حکمت عملی وضع اور اختیار کرتی ہے- اور اگر وہ اس میں ناکام ہوتے ہیں تو پھر نہ صرف ان پر تنقید ہونی چاہئے بلکہ زیادہ سخت ہونی چاہئے-

انہیں 'ماس مرڈرر' قرار دینا بہرحال کوئی اچھی بات نہیں-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: شعیب بن جمیل

رضا حبیب راجہ
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024