سول-ملٹری کشمکش
اس وقت جب کہ سول-ملٹری تعلقات تیزی سے انحطاط پذیر ہیں، پی ایم ایل-ن کیلئے غیرجانبدار تماش بین کی طرح خاموشی سے تماشہ دیکھنا ممکن نہیں- اور نہ ہی اچانک ردعمل سے کوئی صحت مند تاثرملے گا- لیکن حالات کو خراب سے خراب تر ہونے دینا بھی اچھا نہیں ہے-
ہماری طرح کے ملک میں جہاں یا تو طاقتور عوامل اور رائے ساز اداروں کا ایک بڑا حصہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جمہوری نظام حکمرانی ہمارے لئے مناسب نہیں ہے اور یا ضمیر کے بوجھ کی پرواہ کئے بغیر اقتدار کا ساتھ دینے کے انتظار میں رہتے ہیں، سویلین حکومت کے غیر ضروری ہونے کا خیال اسی سوچ کا نتیجہ ہے-
فوج اور میڈیا کے درمیان یہ اختلاف اب فوج اور سویلین حکمرانوں کے درمیان اختلاف میں تبدیل ہوگیا ہے، اس کی وجہ کیا وہ لوگ ہیں جو دونوں جانب اعلیٰ عہدوں پر ہیں- اس مسئلے کے حل نہ ہونے کی وجہ فوج کی معذرت کو قبول نہ کرنے کی خاصیت نہیں ہے جب کہ معافی مانگنے والا واقعی نادم ہو- مسئلے کے حل نہ ہونے کی وجہ مستقبل کی سوچ ہے، ماضی کا تجربہ نہیں- عام فوجی کی خواہش یہ ہے کہ اگر کوئی فوج کی مقدس حدود میں داخل ہونے کی جرات بھی کرے تو اسےایسی سزا دی جائے کہ وہ دوسروں کیلئے مثال عبرت بن جائے-
لیکن انتہا پسند اس موقع سے فائدہ اٹھا کر کھویا ہوا موقع دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ انہوں نے موقع کو ہاتھوں سے پھسلتے ہوئے محسوس کیا ہے- انہوں نے افسردگی سے اس موقع کو اپنے ہاتھوں سے نکل کر شہری انتظامیہ، سپریم کورٹ اور میڈیا کے قبضے میں جاتے ہوئے دیکھا- اب انہیں اپنے' نیک نیت' آمروں کی جانب سے معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کی ضرورت نہیں ہے- ان کیلئے یہ موقع موجودہ طاقت کو آئندہ کیلئے بچاکر رکھنے کا نہیں ہے بلکہ مشرف کے زوال کے بعد کھوئی ہوئی عملداری کو دوبارہ حاصل کرنے کا ہے- ان کیلئے پاکستان کے اس موجودہ شہری ڈھانچہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے جب تک ان کی پردے کے پیچھے سے ویٹو کرنے کی صلاحیت باقی رہتی ہے- جیسی 90ء کی دہائی میں تھی-
سول-ملٹری اختلاف صرف ایک منحرف میڈیا چینل کی دو دنوں کی نشریات کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ بات کہ ایک چینل کی ایسی توہین آمیز حرکت کرنے کی ہمت کا رجحان مشرف کے ہٹائے جانے کے بعد عروج پر آیا ہے- پہلے افتخار چودھری کے تحت سپریم کورٹ نے اپنے ہاتھ پیر نکالے اور حاضر جنرلوں کو عدالتوں میں گھسیٹ کر شدید نکتہ چینیوں کانشانہ بنایا، ان کی دیکھا دیکھی، ہائی کورٹ نے بھی آئی ایس آئی کے اعلیٰ افسروں کو سمن جاری کرنا شروع کردیا اور میڈیا نے بھی بلوچستان کے گم شدہ لوگوں کے بارے میں الٹے سیدھے سوالات کرنا شروع کردئے-
یہ بات فوج کے لئے اور بھی قابل قبول نہیں ہے کہ مشرف کے دور کے بعد کے اہم کھلاڑیوں (جنرل کیانی اور چیف جسٹس چودھری) کے چلے جانے کے بعد بھی، خاکیوں کا احتساب کرنے کی شرارت میں کمی نہیں آئی ہے: پی ایم ایل-ن نے غداری کا مقدمہ شروع کیا ہوا ہے؛ ججوں نے مشرف پر فرد جرم عائد کرکے ای سی ایل سے ان کا نام نکالنے میں مشکلات کھڑی کر دی ہے، ایک فوجی کے خلاف گمشدہ لوگوں کے بارے میں ایک ایف آئی آر درج کروائی گئی ہے؛ سپریم کورٹ سوچ رہی ہے کہ فوجیوں پرشہری عدالتوں میں بھی مقدمہ چلایا جایا جائے؛ اور میڈیا کا خیال ہے کہ وہ جنرلوں کے ساتھ بھی عام وزرائے اعظم کی طرح کا سلوک کرسکتے ہیں-
اگر پی ایم ایل-ن سمجھتی ہے کہ یہ بحران جیو کو ایک ہلکی سی سرزنش(عوامی معافی اور جرمانہ/ اور یا تھوڑے عرصہ کی بندش) سے ختم ہوسکتا ہے اور حالات نارمل ہو جائینگے، تو یہ غلط ہے- جیو کی گستاخانہ نشریات نے تو صرف شہریوں اور فوجیوں کے اپنی اپنی حدوں کے بارے میں مقام کے تعین کو واضح کیا ہے جو2008ء سے جمہوریت کی واپسی اورمیڈیا اور عدلیہ کے ایک طاقتور کھلاڑی کے طور پر ابھرنے کے بعد آہستہ آہستہ واقع ہو رہی تھی- جیو کی نشریات نے تو صرف اس گفتگو کی ضرورت اور وقت کا تعین کیا ہے جو حکومت اور فوج کے درمیان بہر صورت ہونا چاہئے-
شریف حکومت کیلئے یہ وقت اتنا برا نہیں ہے- جبکہ ہنی مون کا عرصہ گذر چکا ہے، اور ملک میں تبدیلی کیلئےکوئی زوردار تحریک ابھی تک نہیں اٹھی ہے- ہمارے انقلابی خواب سے جاگ کر باہر آچکے ہیں لیکن ابھی کوئی خاطرخواہ سیاسی اتحاد حکومت کو گرانے کی خاطر نہیں بنے ہیں- اپنے عہدوں پر ان چند مہینوں میں، جنرل شریف اور وزیراعظم شریف کے ذاتی تعلقات میں شاید ابھی تک خرابی نہیں آئی ہے- لیکن کچھ نہ کرنے کی صورت میں تباہی کی پیش گوئیاں خودبخود صحیح ثابت ہونگی-
جیو کی قسمت کے فیصلے کے علاوہ تین اور ایسے مسائل ہیں جنہیں حل نہ کیا گیا تو وہ الجھن کا سبب بن سکتے ہیں: اندرونی سلامتی؛ بیرونی سلامتی اور فوج کی خودمختاری کی حد اوراس کا استثناء- فوجی اپنے کو ان تینوں پر حرف آخر سمجھتے ہیں- پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس مساوات کی صورت کو بدلنے کی کوشش کی ( آئی ایس آئی کی رپورٹنگ لائن اور کیری- لوگر بل میں سویلین برتری کا تذکرہ کرکے) لیکن پھر فوراً ہی فوج کے ردعمل پر پیچھے ہٹنا پڑا- لیکن اگر وزیراعظم نوازشریف کی خواہش ہے کہ اس مساوات کی صورت کو بدلنا چاہئے تو انہیں آہستہ آہستہ اس مسئلے پراتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے-
چاہے پالیسی یہ ہو کہ جنگ اور مذاکرات ساتھ چلیں یا آگے پیچھے اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہئے کہ پالیسی کیا ہے اور حکومت کیا حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے- بیرونی محاذ پر، پاکستان ایک تناؤ سے بھرے علاقے میں موجود ہے- مغرب میں عبداللہ عبداللہ ہے اور مشرق میں مودی، اور سویلین اور فوجی قیادت الگ الگ سیکیورٹی اور خارجہ پالیسی نہیں بنا سکتے - انہیں ایک اصولی موقف اپنانا پڑے گا یا اتفاق رائےسے موقف میں تبدیلی-
مشرف کا مقدمہ ایک ایسا امر مانع ہے جہاں یہ جتنا کھنچتا ہے، جیو کے بحران کی طرح اتنا ہی نقصان دہ ہوگا- یہاں بھی حکومت کا واضح ارادہ، بجائے اشاروں کے، جن کا غلط مطلب بھی لیا جاسکتا ہے، آگے بڑھنے کا صحیح طریقہ ہے- وزیراعظم نوازشریف کی قیادت کو چیلنج یہ نہیں ہے کہ ہم لڑتے ہوئے ختم ہوجائیں بلکہ طریقہ جنگ کو بھانپ لیں- فوج کی طاقت کو طاقت سے دبانے کی کوشش دونوں طرف کے انتہاپسندوں کو شہہ دیگی اور ان کوششوں کو پیچھے ڈھکیل دیگی جوفوج پر سویلین بالادستی کیلئے ضروری اور لازمی ہیں-
ترجمہ: علی مظفر جعفری
تبصرے (4) بند ہیں