انتقامی حکمت عملی
وزیرستان میں ایک مرتبہ پھر جنگ کا موسم شروع ہوگیا ہے، ائرفورس کے جیٹ طیاروں اور ہیلی کاپٹروں نے مشتبہہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اور فوجی میدان جنگ میں مارے جارہے ہیں- لیکن کیا ہمارے پاس کوئی واضح حکمت عملی ہے؟ اس طرح کے کبھی کبھی کے فوجی حملے الجھنوں میں اضافہ کے ساتھ ہماری دہشت گردی سے لڑنے کی پالیسی میں موجود خامی کی طرف اشارہ کرتے ہیں-
دہشت گردوں کے خلاف اس علاقے میں سال بھر میں یہ تیسری فوجی کارروائی ہے- لیکن پہلے ہی کی طرح چند دنوں کی شدید فضائی بمباری کے بعد خاموشی ہے اور زمینی فوج کی توپوں سے چند درجن دہشت گردوں کے مرنے کے بعد مقامی لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کرمحفوظ علاقوں کی طرف بھاگ رہے ہیں-
لیکن اس کے بعد کیا ہوگا؟
اس کا واضح جواب کسی کے پاس نہیں ہے- حکومت کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک جوابی کارروائی تھی اور یہ کہ اس علاقے میں ایک بڑے فوجی آپریشن کا کوئی پروگرام نہیں ہے-
وزیرداخلہ نے کہا کہ، " یہ حملے پہلے سے طے شدہ فیصلے کا تسلسل تھے شہریوں یا فوجی اہداف کے خلاف تشدد یا دہشت گردی کے کسی بھی عمل کا بالکل اسی طرح جواب دیا جائے گا". ان کے اس مردہ مذاکراتی عمل کو ازسرنو زندگی دینے کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی ہے- مذاکراتی عمل کو ختم کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے، اور نہ دوسری طرف سے اس قسم کا کوئی مطالبہ کیا گیا ہے، انہوں نے کہا-
ایسا غیرجذباتی ردعمل یہی تاثر دیتا ہے کہ شاید حکومت ان حالیہ فوجی حملوں کی پوری طرح سے حامی نہیں تھی، اگرچہ کہ وزیراعظم کی جانب سے اس کی منظوری ضرور رہی ہوگی-
یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی ہے کہ یہ دانستہ ابہام سیاسی قائدین کی جانب سے ہے یا اس فیصلے کے پیچھے فوج کا دباؤ تھا- یہ چیز صورت حال کو بہت زیادہ پیچیدہ بنا دیتی ہے- ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شریف حکومت اس فوجی حملے سے لاتعلقی ظاہر کرنا چاہتی ہے، اسی لئے مسلسل مذاکرات کی رٹ لگائے ہوئے ہے- یہ رویہ بہت زیادہ خطرناک ہے اور اس تشدد پسند دہشت گردی کے خلاف جنگ کی نفی کرتا ہے-
جو چیزاس بڑھتے ہوئے سول- ملٹری تناؤ کو سب سے زیادہ واضح کرتی ہے وہ ان کی طالبان کی بغاوت سے نمٹنے کی پالیسی میں اختلافات ہیں اور مذاکرات کے طویل اور لاحاصل ہونے کی وجہ سے اور زیادہ وسیع ہو گئی ہے جو کسی سمت جاتے ہوئے دکھائی بھی نہیں دے رہے ہیں-
رائٹرز کی ایک رپورٹ کے حوالے سے ایک سینئر حکومتی اہلکارنے بتایا کہ مذاکرات سے تنگ آکر فوج نے معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لینے کا فیصلہ کیا-
ممکن ہے یہ درست ہو یا نہ ہو، لیکن نہ جنگ اور نہ امن کی صورت حال نے سیکیورٹی افواج کی صفوں کے اندر مایوسی کے جذبات پیدا کردیئے ہیں- ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات شروع ہونے کے بعد دہشت گردوں کے حملوں میں کافی فوجی مارے گئے ہیں ان میں 20 سے زیادہ تو صرف پچھلے ہفتے کے حملے کی رپورٹ کے مطابق ختم ہوئے ہیں- لیکن حکومت نے ان بڑھتی ہوئی اموات کا ذکر تک نہیں کیا
فوج کا آخری حملہ شمالی وزیرستان میں 9 فوجیوں کا بم کے حملے میں ماردینے کے جواب میں تھا- جب بھی فوج پر حملہ ہوتا ہے- زبردست فضائی بمباری کے ساتھ توپوں کی بھاری فائرنگ تقریباً ایک مخصوص انداز کا جواب سا بن گیا ہے- عسکریت پسندوں کے بھاری نقصانات کا دعویٰ کیا جاتا ہے اس کے علاوہ، ان بمباریوں سے جو دوسرے اضافی نقصانات ہوتے ہیں ان کی لپیٹ میں قبائلی بھی آ جاتے ہیں جس سے بچنا مشکل ہے- انتقامی حملوں میں سب سے بڑاخطرہ یہ ہے کہ یہ ایک باقاعدہ بغاوت کی حکمت عملی کے جواب میں کیا جاتا ہے- جہاں اس سے تشدد پسندوں کے نیٹ ورک کو اپنی صف بندی کرنے کا وقت مل جاتا ہے، وہیں قبائلیوں کی زندگیوں میں اس سے خلل پیدا ہوتا ہے-
ہزاروں خاندان یہاں سے بھاگ کر خیبرپختونخوا کے ملحقہ علاقوں میں چلے گئے ہیں، کچھ تو سرحد کے پار افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں- ان بےگھر خاندانوں کی بحالی یا مدد کے لئے کوئی متبادل منصوبہ نظر نہیں آرہا ہے- یہ انتہائی مشکل صورت حال ہے کیونکہ سویلین انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں سے عاری نظر آتی ہے-
یہ صرف شمالی وزیرستان کا علاقہ نہیں، جو اس صورت حال سے متاثر ہوا ہے- سیکیورٹی افواج پردوسرے قبائلی علاقوں میں بھی زیادہ حملے ہورہے ہیں- پچھلے ہفتے باجوڑ اور مہمند ایجنسی میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں کافی فوجی مارے گئے حالانکہ ان علاقوں کے بارے یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ باغیوں سے خالی کرالئے گئے ہیں-
ایک بھرپور حکمت عملی کی عدم موجودگی میں، صورت حال کا خراب ہونا لازمی ہے چاہے آپ اس جگہ پرکتنی ہی فوجیں رکھ لیں- ہوسکتا ہے یہ بات درست ہو کہ اس موجودہ طریق جنگ نے ٹی ٹی پی کو کمزور کیا ہے اور وہ انتشار کا شکار ہوئی ہے، لیکن دہشت گردی کے نیٹ ورک میں ابھی بھی سیکورٹی افواج کو نشانہ بنانے کی صلاحیت باقی ہے- اکا دکا انتقامی کارروائی اور فضائی بمباری قومی سلامتی کو لاحق اتنے شدید چیلنجوں سے نمٹنے کا طریقہ نہیں ہے- شریف حکومت کی ایک بھرپوراورموثر قومی سلامتی کی حکمت عملی وضع کرنے کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں واپسی کو تقریباً ایک سال کا عرصہ گذرچکا ہے لیکن اب تک اس پالیسی کو ایک ٹھوس شکل دینے کے کوئی آثارنظر نہیں آتے ہیں- قومی سطح پردہشت گردی کے خلاف عوامی رائے عامہ کو ہموار کرنے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا-
کوئی بھی فوج سیاسی قیادت اور عوام کی مضبوط حمایت کے بغیر جنگ نہیں لڑسکتی ہے- عوام اور سیاسی قیادت اگر اسے اپنی جنگ نہیں سمجھتی ہے تو فوجی کارروائی اپنا اثر کھودیتی ہے- فوج کیلئے سب سے زیادہ حوصلہ شکن بات یہ ہوتی ہے کہ باغیوں سے لڑائی میں مرنے والے فوجیوں اور افسروں کو وہ مقام نہیں ملتا ہے جس کے وہ حقدار ہیں-
پچھلے ہفتے، صدر اوباما امریکی فوجیوں سے ملنے دنیا کے دوسرے کنارے امریکہ سے افغانستان گئے- لیکن ہمارے وزیراعظم صاحب نے، جو اتفاق سے فوج کے سربراہ بھی ہیں، زخمیوں تک سے ملنے کی زحمت گوارا نہیں کی، نہ کبھی محاذ کا دورہ کیا جہاں ہمارے سپاہی مشکل ترین علاقے میں دشمن کے ساتھ نبرد آزما ہیں-
یہی وقت ہے جب سویلین قیادت اس جنگ کو اپنی جنگ سمجھے اور ہمت، یک جہتی اور قیادت کی صلاحیت کا مظاہرہ کرے- لیکن، بدقسمتی سے، ایسا ہونے کے آثار نظر نہیں آتے-
zhussain100@yahoo.com
ترجمہ: علی مظفر جعفری