غیر متوقع نتائج کا قانون فطرت
فتنہ پردازوں کی ہماری غیرفعال ریاست اور پی ایم ایل ن کی برخود غلط حکومت پر تنقید سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا - لیکن ان مسائل کو حل کرنے کے جو غیرقانونی اور بے تکے طریقے وہ اختیار کرنا چاہتے ہیں وہ مزید مسائل پیدا کرسکتے ہیں- ویسے بھی طاہرالقادریوں اور چودھریوں سے کسی بہتر چیز کی توقع رکھنا بیکار ہے- آج کے دور سے بہت پیچھے رہ جانے والی ان ہستیوں نے اسٹیٹس کو کی کوکھ سے جنم لیا ہے- ویسے بھی انتخابی مرحلے سے گذر کر اقتدارحاصل کرنا ان کے لئے ناممکن ہے- ان کی تباہ کن سیاست ہی ان کے لئے سب کچھ ہے-
لیکں ان فتنہ پردازوں سے پاکستان تحریک انصاف کی اٹھکھیلیاں تشویش کا سبب ہیں- یہ وہ پارٹی ہے جو پندرہ سال کی تگ و دو اور دن رات کی محنت کے بعد انتخابی ووٹوں کے ذریعے سے دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے - اس پر یہ اعتراض کیا گیا تھا کہ یہ آزمائے ہوئے لوگوں کو اپنی جماعت میں شامل کررہی ہے- پی ایم ایل ن نے اس پر الزام لگایا تھا کہ جنرل شجاع پاشا نے اس پارٹی میں نئی روح پھونکی تھی- لیکن اس قسم کی تنقید اور ریاستی اداروں پر اثرانداز ہونے والے مکینزم ( تھانہ، کچہری اور پٹواری) کی مدد کے بغیر، پارٹی نے بہت بہتر کارکردگی دکھائی اور 2013ء میں ہونے والے پہلے قومی سطح کے انتخابات میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بن گئی-
یہ سچ ہے کہ، سیاست کے میدان میں داخلے کی ٹکٹ کافی مہنگی ہے- لیکن پی ٹی آئی نے ثابت قدمی کا دامن نہیں چھوڑا باوجودیکہ اسے نامساعد حالات ملے- اس کے دلائل کے مطابق پی ایم ایل-ن کے مقابلے میں کھڑا ہونا بہت مشکل ہے کیونکہ اس کی گرفت ریاستی مشینری پر ایسی ہے جو شدید غصے اور بے صبری کو جنم دیتی ہے- اور جہاں تک غصہ کا سوال ہے وہ تو جائز ہے لیکن بےصبری نہیں- کیونکہ سیاست کا کھیل ایک لمبی ریس کی مانند ہے، چھوٹی اور فوراً ختم ہونے والی دوڑ کی طرح نہیں اور یہ کہنا کہ فلاں فلاں کام ایک مقررہ مدت میں پورا نہیں ہوا ہے اس لئے میں اس نظام کے حق میں نہیں ہوں یہ نہ پی ٹی آئی کے حق میں اچھا ہے اور نہ ہی ملک کیلئے-
نظام اس قابل نہیں ہے کہ اسے رہنے دیا جائے لیکن اس نظام کو بچاکر اس میں اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے- تاریخ بار بار ایک ہی سبق دہرارہی ہے اور وہ سبق یہ ہے کہ جو ہوتا ہے بھلے کیلئے نہیں ہوتا ہے- پاکستان کو بچانا ہے تو طریقہ بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا منزل کا تعین- ایک ناجائز طریقہ سے آپ صحیح نتائج نہیں حاصل کرسکتے- صبر اور تسلسل سے پرہیز کا رویہ کوئی نئی بات نہیں ہے- جتنی بار پاکستان میں فوجی بغاوت ہوئی ہے یہی سوچ ہوتی تھی کہ آسمان گرنے والا ہے، حالات کا تسلسل مزید خرابیوں کو جنم دے رہا ہے اس لئے سب کچھ ختم کردینا ہی سچی جمہوریت کی تعمیر کا بہترین ذریعہ ہے-
وہ سیاسی مہرے جن کی حرکتوں کی وجہ سے ان کی حکومتیں اور آئین دونوں معطل ہوتے تھے انہیں کبھی اس کا فائدہ نہیں ہوا- اسکندر مرزا اکتوبر 1958ء میں مارشل لاء لگانے کے بعد صرف بیس دن اقتدار میں رہے تاآنکہ ایوب خان نے حکومت پر قبضہ کرکے ان کو لندن جلاوطن کردیا- اسی طرح نو پارٹیوں پر مشتمل پاکستان نیشنل الائینس کی وجہ سے بھٹو کی حکومت ختم ہوئی لیکن کیک ضیاءالحق نے کھایا- ان سیاسی جماعتوں کو کچھ حاصل نہیں ہوا جو اپنے خیال میں اصولوں کی جنگ اور آزاد اور شفاف انتخابات کےلئے جدوجہد کررہے تھے-
طاہرالقادری کے پیچھے ایک لاکھ لوگ ہیں جنہیں وہ سڑکوں پر لاکر اپنی مرضی سے حکومت کے کاروبار کو درہم برہم کرسکتے ہیں- 19 کڑوڑ لوگوں کے ملک میں پچاس ہزار لوگوں کا ہجوم سڑکوں پر نکل کر حکومت کے کاروبار کو بند کرنے کیلئے کافی ہوسکتا ہے لیکن یہ حکومتوں کی جگہ نہیں لے سکتا - لہٰذا، طاہرالقادری صاحب میں صرف نعرے بازی اور مجمع اکٹھا کرسکنے کی صلاحیت ہے جس کا مقصد بدنظمی اور سیاسی افراتفری پیدا کرنا ہے- حکمرانی کا ایک فعال نظام دینا ان کے بس کی بات نہیں ہے-
لہٰذا جب بھی سڑکوں پر افراتفری یا بدنظمی پھیلتی ہے سیاستدانوں کے ہاتھوں سے مواقع نکل کر خاکیوں کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں- تاریخ بتاتی ہے کہ اس صورت حال میں وہ عناصر جو ایسے حالات پیدا کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کی حیثیت خاکیوں کی نظر میں ایک فاضل بوجھ کی ہوتی ہے- طاہرالقادری خاکیوں کو متوجہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تاکہ سڑکوں پر ماحول گرم کرکے اور حکومت کے خلاف عوامی غم و غصہ، حکومت اور فوج کے خراب ہوتے ہوئے تعلقات کا فائدہ اٹھاکر ان کے ساتھ اقتدار کی راہداریوں میں داخل ہوجائیں-
ان کی حکمت عملی سمجھ میں آتی ہے کیونکہ 63 سالہ اقتدار کے آرزومند اس بےدرد مبلغ کیلئے اور کیا باقی رہ گیا ہے- اگر فوج آجاتی ہے تو، وہ لوگوں کو تارے لاکر دینے کا وعدہ کرینگے- عوامی حمایت کی غیرموجودگی میں، ان کے پاس پنجاب میں مجمع اکٹھا کرنے کی صلاحیت اور صرف اپنے سرپرستوں پر انحصارکرنے کے علاوہ دوسرا راستہ نہیں ہے- اوراگر فوج نہیں آتی ہے تو، وہ اپنے بارہ سوٹ کیس اٹھاکر کینیڈا کی راہ لینگے جیسا دسمبر 2012ء کی ناکام کوشش کے بعد ہوا تھا- عمران خان اور پی ٹی آئی کے لئے جو کچھ داؤں پر لگا ہوا ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہے-
اصل میں سیاسی نقطہ نظر سے سڑکوں پر ہنگامے کرکے تبدیلی لانے کا طریقہ پی ٹی آئی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتا - کیونکہ ہمارے آئین میں مڈٹرم انتخابات کی کوئی گنجائش نہیں ہے، تاآنکہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا فیصلہ نہ کریں- قانونی جواز نہ ہونے کی صورت میں، اسلام آباد اور پنجاب میں مڈ ٹرم تبدیلی غیرقانونی ہوگی اور صرف فوج کی سیاست میں مداخلت کی بنا پر ہوسکتی ہے جوکسی جنرل کی ذاتی جاہ طلبی کا نتیجہ ہو، جس میں پھر وہ کسی اور کو طاقت دینے کا کام نہیں کرتے ہیں-
مصر کی مثال ہمارے سامنے ہے- ایک انقلاب نے مبارک کا تختہ الٹا جب کہ فوج ایک تماشائی بنی رہی- لیکن جب مرسی کی منتخب حکومت نے اپنے ہاتھ پیر نکالنے شروع کئے تو فوج نے اس کو بھی نکال باہر کیا- اب جنرل سی سی ایک" منتخب" صدر ہیں- عراق کی مثال اور بھی زیادہ ڈرانے والی ہے- صدام اور اس کے بنائے ہوئے اداروں سے چھٹکارہ حاصل کرنا آسان تھا لیکن اس خلا کو پر کرنے کیلئے نئے اداروں کی تعمیر اتنی آسان نہیں- خاص طور پرآئی ایس آئی ایس کے نمودار ہونے پراوراس کے پوری ریاست پر قبضہ کرنے کے عزم کی بنا پر، دونوں جانب فرقہ وارانہ طاقتوں کے ہاتھوں میں ملک کی قسمت چلی گئی ہے-
ہم نے تو فاٹا کے پسماندہ علاقے میں اس کا مشاہدہ کیا ہے، نادانستہ نتائج کے قانون کا- ایک موجودہ اقتدار کے ڈھانچے کو گرا دینا آسان ہوتا ہے، ان کی جگہ پر نئے ادارے کھڑا کرنے کے مقابلے میں- پی ٹی آئی کی سیکیورٹی پالیسی سے مخالفت کے باوجود، یہ پارٹی میری نظر میں پاکستان میں ایک مثبت تبدیلی کی ضامن ہے- اسے اقتدار حاصل کرنے کیلئے کسی خاکی کے ساتھ یا کسی جاہ طلب جنرل کے ساتھ مل کر کوشش کرنے کی ضرورت نہیں ہے-
پی ایم ایل ن نہ بدلے گی، نہ انتخابی اصلاحات اپنائے گی اور نہ ہی ایسے ادارے بنائے گی جو غیر جماعتی احتسابی عمل کرنے میں یقین رکھتے ہوں- جب تک کہ وہ اس کیلئے مجبور نہ کردئے جائیں، اور پی ٹی آئی کو اب یہ دباؤِ ڈالنے کی ذمہ داری لینی چا ہئے- کیونکہ اب اسے نظام کے اندر رہ کراس کو درست طریقے سے چلانے کی ضرورت ہے نہ کہ نظام سے باہررہنے والوں کی طرح افراتفری کو ایک متبادل لائحہ عمل کے طور پر اختیار کرنے کی ضرورت ہے-
ترجمہ: علی مظفر جعفری
تبصرے (3) بند ہیں