اس سیاسی کھیل کا کوئی فاتح نہیں
ہاتھی کمرے میں پہلے ہی داخل ہوچکا ہے اور یقیناً اس بار اسے مدعو کیا گیا ہے، بدحواسی کی شکار سویلین انتظامیہ نے وفاقی دارالحکومت کی سیکیورٹی فوج کو حوالے کرکے خود اپنے لیے خطرہ پیدا کرلیا ہے۔
ٹرپل ون بریگیڈ جس کا ذکر اکثر فوجی بغاوتوں کے دوران سننے میں آتا ہے، اب اہم حکومتی تنصیبات کے گرد تعینات کی جاچکی ہے، اور یہ سب اس وقت ہورہا ہے جب عمران خان اور طاہر القادری دھمکیاں دیتے نظر آرہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ' انقلابی مارچ' کے ذریعے حکومت کو ردعمل پر مجبور کررہے ہیں، جو کہ افواہوں کی فیکٹری کو حد سے زیادہ متحرک کرنے کے لیے کافی ایندھن ہے، یہ پیشرفت بدشگونی کے سوا کچھ نہیں۔
ہوسکتا ہے کہ کسی کو چودہ اگست کو کسی طرح کے طوفان برپا ہونے کی توقع ہو یعنی عمران خان کی نوجوان بریگیڈ یا طاہر القادری کے چند ہزار کٹر حامیوں سمیت جو انقلاب کے لیے بے تاب ہیں، مگر حکومت کی اپنی نااہلیت اور مفلوج ہوجانے نے اس کی کمزوری ثابت کردی ہے۔
وزیراعظم کی عدم موجودگی، روٹھے ہوئے وزیر داخلہ اور کچھ کابینہ کے دیگر غیر متعلقہ اراکین طاقت کے لرزتے اسٹرکچر پر عوامی اعتماد کو زیادہ مضبوط نہیں کرسکتے۔
نواز شریف نے پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے لانگ مارچ سے ایک انوکھے انداز میں شان و شوکت سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں اور یوم آزادی کا آغاز ایک فوجی پریڈ اور ممکنہ طور پر اب تک کے سب سے بڑے قومی پرچم کو لہرانے کی تقریب سے کریں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ فوجی پریڈ یوم آزادی کی تقریبات کا معمول کا حصہ نہیں، بلکہ یہ ان حالات میں ہورہی ہے جب سول انتظامیہ نے دارالحکومت کی سیکیورٹی کے ساتھ دہشتگردی کے خطرات سے نمٹنے کی ذمہ داری بھی فوج کے کندھوں پر ڈال رکھی ہے۔
اس اقدام نے اپوزیشن کے اس الزام پر کچھ حلقوں کا یقین پختہ کردیا ہے کہ یہ حکومت کی جانب سے جان بوجھ کر اٹھایا گیا قدم ہے تاکہ فوج کو سیاسی تنازعے میں شامل کیا جاسکے جس کے خطرات نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ آئین کی شق 245 کو خانہ جنگی سے متاثرہ علاقوں میں اکثر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ سیکیورٹی فورسز کو عسکریت پسندوں کے خلاف لڑائی کے لیے قانونی جواز دیا جاسکے، مگر زمانہ امن میں شہری علاقوں میں اس کے اطلاق کی مثالیں شاذ و نادر ہی ملتی ہیں۔
ایسا 1977ءمیں اس وقت ہوا تھا جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان قومی اتحاد کی تحریک عروج پر پہنچنے کے بعد لاہور اور کراچی میں آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو طلب کرلیا تھا، اور یہ منی مارشل لاء بھٹو حکومت کے خاتمے کا سبب بن گیا، جبکہ اس شق کا استعمال نواز شریف نے 1998ءمیں کراچی کے لیے بھی کیا۔
ٹھیک ہے کوئی موجودہ دور اور اس وقت کی صورتحال کے درمیان متوازی لکیر نہیں کھینچ سکتا، مگر اس کا نتیجہ ممکنہ طور پر زیادہ مختلف نہیں ہوگا، اس بار زیادہ بدترین امن یہ ہے کہ فوج کو اس وقت طلب کیا گیا ہے جب تشدد کا کوئی سنگین واقعہ بھی پیش نہیں آیا یا امن و امان کی صورتحال سول قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ سے باہر ہوئی ہے۔
کوئی وزیراعظم کی سادہ لوحی پر حیران ہوسکتا ہے یا اس بات پر کہ میاں نواز شریف کو یقین ہے کہ فوج بحران کے وقت ان کی مدد کے لیے آئے گی، انہیں اپنے ماضی سے ہی سبق سیکھنا چاہئے، تصادم کی سیاست میں ڈبکی لگانے کی بجائے بقاءکی سیاست پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔
ایک دلیل مسلسل حکومت کی جانب سے سامنے آرہی ہے کہ آرٹیکل 245 کے اطلاق کا تعلق شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن سے ہے اور اسی لیے فوجیوں کو کسی بھی عسکریت پسندانہ کارروائی سے نمٹنے کے لیے قانونی کور فراہم کیا گیا ہے، مگر کیا یہ مشق صرف اسلام آباد کے لیے ہے؟ آخر پشاور، لاہور یا کراچی میں کیوں نہیں؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شق کا نفاذ آپریشن شروع ہونے کے چھ ہفتے بعد کیا گیا، کیا اس کی کوئی وضاحت کی جاسکتی ہے کہ اب ہی کیوں؟ خاص طور پر شہر میں ایسا کوئی بڑا دہشتگردانہ واقعہ بھی نہیں ہوا جس کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت پڑتی؟
عمران خان اور طاہر القادری نے اپنے عزائم کا کھل کر اظہار کردیا ہے اور وہ نواز حکومت کے خاتمے کا عزم ظاہر کررہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ وہ کسی کے تیار کردہ اسکرپٹ کا حصہ نہ ہو مگر نظر یہی آتا ہے کہ وہ آئینی طریقے سے اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکتے۔
پارلیمنٹ میں اقلیت میں ہونے کے باعث عمران خان کے پاس قبل از وقت انتخابات کوئی راستہ نہیں، جبکہ انہیں اپنے مطالبے پر کسی اور سیاسی جماعت کی حمایت بھی حاصل نہیں، جلد انتخابات صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب نواز شریف قومی اسمبلی کی تحلیل کے لیے آمادہ ہوجائیں، مگر وہ ایسا کیوں کریں جب انہیں پارلیمان کے اندر کسی سنجیدہ چیلنج کا سامنا نہیں؟
عمران خان کے پاس واحد آپشن یہی بچتا ہے کہ وہ پرتشدد مظاہروں کے ذریعے عوامی دباﺅ بڑھائیں، یہ ایک بہت بڑا جوا ثابت ہوگا جو کسی کرکٹ میچ میں تو کام آسکتا ہے مگر سیاست کے پیچیدہ کھیل میں یقیناً نہیں۔
فرض کرلیتے ہیں کہ پی ٹی آئی کسی نہ کسی طرح سینکڑوں ہزاروں کو طویل دھرنے کے لیے تیار کر لیتی ہے اور دارالحکومت کو مکمل طور پر مفلوج کردیتی ہے، ایک طویل وقفہ جس میں حکومت ریاستی طاقت کا استعمال کرنے سے قاصر ہو، ممکنہ طور پر مکمل انتشار کی شکل میں سامنے آئے گا، یہ منظرنامہ طاقت کی اس جنگ میں فوج کی پوزیشن کو مضبوط ترین کردے گا۔
اس صورتحال سے پہلے ہی فوج نے اپنی ناراضگی کا اظہار نواز شریف حکومت پر مشرف غداری کیس اور دیگر متعدد پالیسی مسائل پر کردیا ہے، فوجی قیادت کی عوامی مقبولیت میں بھی شمالی وزیرستان آپریشن سے اضافہ ہوا ہے۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی شمالی وزیرستان کے محاذ پر فوجیوں کے ساتھ عید منانے اور بنوں میں آئی ڈی پیز کے ساتھ ملاقات کی تصویر کو انتہائی موثر طریقے سے عوام تک پہنچایا گیا ہے جبکہ وزیراعظم منظر سے غائب ہوکر اپنے دو پسندیدہ مقامات سعودی عرب اور مری میں وقت گزارت رہے، ان کا یہ بے جوش رویہ قیادت کی اہلیت پر سوالات اٹھانے کا سبب بن رہا ہے۔
اور یقیناً عمران خان نے یہ حساب کتاب کیا ہوگا کہ کب انہیں حکومت کے خلاف اٹھ کر اعلان جنگ کرنا ہے، تاہم یہ اتنا سادہ بھی نہیں، پی ٹی آئی رہنماءاقتدار کے حصول میں بہت جلدی کا مظاہرہ کررہے ہیں مگر ہوسکتا ہے کہ وہ اس کھیل کے اختتام پر فاتح ثابت نہ ہوں۔
فوجی مداخلت، جس سے ہوسکتا ہے کہ عمران خان بخوبی آگاہ ہو،انہیں تخت اقتدار پر بیٹھنے سے دور رکھے، اس وقت قبل از وقت انتخابات کے کوئی امکانات نہیں چاہے عمران خان نواز شریف کی روانگی کے حالات ہی پیدا کرنے کے قابل کیوں نہ ہوجائے، یہ فیصلہ سیاستدان نہیں بلکہ فوجی جنرلز کریں گے۔ یہ پاکستانی سیاسی سوپ ڈرامے کی ایک اور قسط ہوگی جو المیہ کامیڈی سے بھرپور ہوگی۔