موجودہ سیاسی تعطل میں الجھنے سے سپریم کورٹ کا گریز
اسلام آباد: حکومت اور وفاقی دارالحکومت میں دھرنا دینے والی جماعتوں کے درمیان موجودہ سیاسی تعطل سے پیر کے روز سپریم کورٹ نے خود کو دور کرلیا، لیکن یہ واضح کردیا کہ وہ ہر قیمت پر آئین کا تحفظ کرے گی اور آئین سے انحراف کی کبھی اجازت نہیں دے گی۔
’’ہم نے اس کی حفاظت اور تحفظ کے لیے آئین کے تحت حلف لیا ہے۔‘‘
یہ بات سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے ایک رکن جسٹس ثاقب نثار نے اس وقت کہی جبکہ یہ بینچ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضٰی کی ایک پٹیشن کی سماعت کررہا تھا۔ اس پٹیشن میں سپریم کورٹ سے ریاستی اداروں کو کسی بھی قسم کے ماورائے آئین اقدام سے روکنے کے لیے ایک حکم جاری کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
اس مقدمے کی پچھلی سماعت 15 اگست کو ہوئی تھی، جس میں عدالت نے ریاستی حکام کو ایسی کسی بھی کارروائی سے روکا تھا، جو آئین اور قانون کی جانب سے جس کا اختیار نہ دیا گیا ہو۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا ’’ہم آئین کے سرپرست ہیں اور آئین سے انحراف کی کبھی اجازت نہیں دے سکتے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس قانونی دستاویز کا تحفظ کرے۔
جب اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جانب توجہ دلائی تو چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں اس بینچ نے ترجیح دی کہ موجودہ سیاسی تعطل میں خود کونہ الجھایا جائے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہوں نے ’ریڈ زون‘ پر حملے کی دھمکی دی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریڈزون کے اندر بڑی تعداد میں سفارتی مشن قائم ہیں، اور ان کا تحفظ کرنا حکومت کی بین الاقوامی ذمہ داری ہے۔
چیف جسٹس نے کہا ’’اس سے حکومت کو نمٹنا چاہیٔے۔‘‘
جب اٹارنی جنرل نے آئین کے تیسرے شیڈیول کا حوالہ دیا جو کہ صدر، وزیراعظم، وزراء اور اراکین پارلیمنٹ کے حلف کے بارے میں بات کرتا ہے، تو جسٹس جواد خواجہ نے واضح کیا کہ اس عدالت کو تقسیم کرنے والے خطوط پرمحتاط ہونے کی ضرورت ہے اور کہا کہ اگر اراکین کے حلف کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو پارلیمنٹ کو اس کی دیکھ بھال کرنی چاہیٔے تھی۔
انہوں نے کہا ’’ہمیں ہر چیز میں مداخلت نہیں کرنی چاہیٔے۔‘‘
اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدالت ڈنڈا نہیں اُٹھا سکتی، بلکہ آئین کے تحت صرف اخلاقی اختیار استعمال کرسکتی ہے۔
جسٹس نثار نے درخواست گزار کامران مرتضیٰ سے کہا کہ آئین کے آرٹیکلز پانچ اور چھ کا مطالعہ کریں، آرٹیکل پانچ ریاست سے کے ساتھ ساتھ آئین ہر شہری سے مکمل اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے، جبکہ آرٹیکل چھ آئین کے خلاف سازش پر انتہائی غداری کی وضاحت کرتا ہے۔
جب کامران مرتضٰی نے ان آرٹیکلز کا مطالعہ کرلیا تو جسٹس نثار نے کہا کہ آیا آئین سے انحراف ممکن تھا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا ’’اگرچہ یہ ناممکن ہے، اب بھی غیر آئینی اقدامات کا امکان موجود ہے۔‘‘
اس دن کی ایک اور خاص بات لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شفقت محمود چوہان کی سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ایک پٹیشن تھی، جس کے ذریعے یہ ڈکلریشن حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی، کہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے آزادی مارچ، انقلاب مارچ، دھرنوں اور سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان سے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ ریاست کے آئینی اور انتظامی سربراہان کو حکم جاری کرے کہ وہ آئین مطابق کام کریں، اور موجودہ سیاسی صورتحال کی آڑ میں انہیں کسی بھی غیر آئینی اقدام اُٹھانے سے روکا جائے، جس سے شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق محروم کیا جاسکتا ہو، ان حقوق کو آئین میں تحفظ دیاگیا ہے۔
سپریم کورٹ کے بینچ نے قرار دیا کہ اس پٹیشن کی سماعت بدھ کے روز اہم پٹیشن کے ساتھ ساتھ ہوگی۔ عدالت کو مطلع کیا گیا کہ دیگر صوبوں کی ہائی کورٹ بارایسوسی ایشنز نے بھی اسی طرح کی پٹیشنز دائر کی ہیں۔
عدالت نے وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ وہ بدھ کے روز سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کی پٹیشن پر ایک جامع بیان جمع کرائے۔
سماعت کے بعد کامران مرتضٰی اور شفقت چوہان نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز وکلاء کا ایک کنونشن اکیس اگست کو لاہور میں منعقد کریں گی، جس کا عنوان ہوگا ’’آئین اور شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا ایجنڈا‘‘۔
انہوں نے کہا کہ بار ایسوسی ایشنز کے رہنماؤں، سیاسی جماعتوں، کاروباری برادری اور سول سوسائٹی کے اراکین کو اس کنونشن میں مدعو کیا جائے گا، جس میں موجودہ سیاسی صورتحال پر بحث کے بعد ایک قرارداد پاس کی جائے گی۔