بڑے بوٹ اور چھوٹے بوٹ
کیا ہوگا؟ کب ہوگا؟ کیسے ہوگا؟
یہ وہ سوال ہیں جو ہر صحافی کے دماغ میں ہیں، صحافی کیا پورے اُنیس کروڑ لوگ دردِ زہ کی سی کیفیت میں ہیں اور آذادی اور لونگ مارچ کے لیبر روم کے باہر بے چینی سے ٹہل رہے ہیں کہ دیکھئے کب ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا! میڈیا اور ڈرون کیمروں کی کوریج نے پورے عمل کو الگ براہ راست دکھانے کا بندوبست کیا ہوا ہے اب دیکھنا یہ ہے ڈاکٹرز کی ٹیم نارمل ڈیلوری کرواتی ہے یا پھر سی۔سیکشن آپریشن
جب 2013 کے الیکشن ہوئے تو بہت سارے پولنگ اسٹیشن میں ووٹ جس طریقے اور انداز سے ڈالے گئے اس کا میں خود بھی چشم دید گواہ ہوں اور پھر وقتاً فوقتاً الیکشن کمیشن نے جس طرح کچھ حلقے کھول کر دھاندلی سے جیتنے والوں کے خلاف فیصلے دیئے اس سے کم ازکم کہیں سے بھی یہ تو ثابت نہیں ہوسکتا کے الیکشن صاف اور شفاف ہوئے تھے۔
یہ ہی وہ یک نکاتی مسئلہ تھا جو آج مسائل کا پہاڑ بن کر نواز شریف کے سامنے آ کھڑا ہوا ہے۔ تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں نواز حکومت کے لئے اس وقت وہ سونامی بن کر سامنے آچکی ہے جو کسی بھی وقت حکومت کو بہا کر لے جاسکتی ہے مگر اس لہر کو سونامی بنانے میں خود سب سے بڑا کردار نواز حکومت نے ہی ادا کیا ہے۔ کیا تھا اگر جو چار حلقے شروع میں ہی کھول دیئے جاتے؟ کیا تھا اگر پہلے دن سے ہی حکومت عمران خان کے بیانات کو سنجیدگی سے لے کر اس کا حل نکالنے کے لئے سر جوڑ لیتی؟ اگر ایسا ہو جاتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
نواز حکومت پر کرپشن اور دیگر الزامات اپنی جگہ مگر انتخابات میں دھاندلی کا نعرہ پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی نے لگایا تھا اور یہ ہی وہ واحد نکتہ ہے جس پر عمران خان کو تقریباً ہر سیاسی پارٹی کی حمایت حاصل ہے اور اسی نکتے کو بنیاد بنا کر کپتان صاحب اپنی زندگی کا سب بڑا میچ کھیلنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔
لیکن بدقسمتی کہ ساتھ ساتھ کچھ ایسی طاقتیں بھی ہولیں جن کو مارچ وارچ سے کوئی لینا دینا نہیں، غرض ہے تو صرف یہ کہ اس مارچ کو حکومت کے لئے ایک ایسا پریشر ککر بنا دیا جائے جس سے ڈرا کر اپنے بہت سے مطالبات منوائے جاسکیں۔ آپ سب شاہد ہیں کہ بہت سے ایسے موڑ آئے جب لگا اب گئی حکومت یا اب گیا عمران!
پاکستانی عوام کا مزاج کہہ لیں اور ہماری سیاسی قوتوں کی کمزوری کے ہر مشکل گھڑی میں نظریں فوج کی جانب ہی اُٹھتی ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کے ہم ہر وقت ہر فیصلے میں بڑے اور چھوٹے بُوٹوں کی طرف ہی دیکھتے ہیں ہماری جمہوریت بڑے اور چھوٹے بُوٹوں کی ٹھوکر سے ہمیشہ لرزتی رہی ہے اور بُوٹ ہی ہماری جمہوریت کو سہارا بھی دیتے ہیں۔
اس انقلاب مارچ اور آزادی مارچ میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے بظاہر اگست کے اوائل میں ایک پرانے چھوٹے بوٹ کی آمد اور سپورٹ نے بے جان انقلاب اور آزادی مارچ کے اعلان میں تحریک بھر دی، اس کے بعد بڑے بھی میدان میں آ گئے، پرویز مشرف اور دیگر معاملات پر اپنے مطالبات پیش کر دئے جو گاہے بگاہے منظور ہوتے گئے اور سب کچھ اسکرپٹ کے مطابق چلتا رہا۔
اس اسکرپٹ کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ کرداروں کو اندازہ تک نہیں ہو پایا کے کب ان کے ہدایتکار ان کا ساتھ چھوڑ گئے اور جب تک اندازہ ہوا بہت دیر ہو چکی تھی۔ انقلاب اور آزادی مارچ اسلام آباد میں اپنی سیاسی بقا کی جنگ اب صرف چھوٹے بوٹ کی آس میں لڑ رہے ہیں جس گھڑی چھوٹے بوٹ نے اپنا قدم کہیں اور گھمایا اسی لمحے یہ سارا کھیل ایک بوسیدہ عمارت کی طرح زمیں بوس ہو جائے گا جس کے ملبے تلے کئی سیاسی لوگ دب جائیں گے۔
پوری قوم ایک کرب میں مُبتلا ہے کہ کیا ہو گا۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ مذاکرات کے نام پر عمران خان بیوقوف بن جائیں؟
کیا نواز شریف استعفیٰ دے دیں گے یا لمبی رخصت کا لولی پاپ دے کر عمران خان کو بہلائیں گے؟
کیا آصف زرداری کوئی اہم کردار ادا کریں گے مذاکرات میں؟
میرے مطابق اب اس کھیل کو وہ ہی لوگ ختم کریں گے جن کی ایما پر شروع کیا گیا تھا ہاں مگر بندوق کے لئے کندھا اس بار بھی کسی اور کا ہی ہوگا۔
تبصرے (2) بند ہیں