• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

تبدیلی کی موت

شائع September 4, 2014
لکھاری وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔
لکھاری وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔

اگر افراد کی بات کی جائے، تو ہمارے پاس انتخاب کرنے کے لیے یہ یہ لوگ موجود ہیں: انقلابی لیڈر، جو اپنے لوگوں کو تشدد پر اکساتے ہیں تاکہ وہ ریاست کے سولین اداروں پر حملہ کریں، اور پھر رات کے اندھیرے میں آرمی چیف کی سرپرستی حاصل کرنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں؛ ایک وزیر اعظم، جو اپنے آرمی چیف سے حفاظت چاہتا ہے، لیکن اتنی ہمت نہیں رکھتا کہ سب کے سامنے اس کا اقرار کر سکے، اور جس کی نااہلی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اسلام آباد کو کچھ ہزار مظاہرین نے یرغمال بنا رکھا ہے؛ اور ایک ہچکچاتا ہوا ثالث، سب سے بڑا مسیحا، اور ایک ذمہ دار سیاست دان، ہمارا آرمی چیف۔

کون جیتا کون ہارا؟ اندرونی اختلافات کی نذر ہو کر سیاست دان بدنام ہو چکے، جبکہ خاکی وردی والوں کے اختیار بڑھے ہیں۔ عمران خان اور طاہر القادری نے اہم سویلین اداروں، انتظامیہ، عدلیہ، پارلیمنٹ، اور الیکشن کمیشن، کی قانونی حیثیت ختم کرنے کے لیے ہاتھ ملا لیے ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے، کہ یہ ادارے پاکستان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بالکل بھی کارآمد نہیں ہیں۔ تو اس کا حل؟ وزیر اعظم کو باہر نکالو، اور پھر فوج کی زیر نگرانی ان اداروں کو اصلاحات اور بہتر کارکردگی دکھانے دو۔

جمہوریت ایک بار پھر وینٹی لیٹر پر کیوں پہنچ گئی ہے؟ کیونکہ طاقت حاصل کرنے کے خواہشمند ہر سیاست دان کا دوسرا انتخاب اب بھی فوج ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کا سوال ہے کہ آخر انقلابی اچانک کیوں اسلام آباد میں در آ کر وزیر اعظم کا استعفیٰ طلب کرنے لگے ہیں۔ اس کا ایک جواب یہ ہو سکتا ہے، کہ ڈور کہیں اور سے ہلائی جا رہی ہے۔ اگر مارچوں کو ترتیب خاکی وردی والوں نے دیا تھا تاکہ نواز شریف کو پرویز مشرف کے ٹرائل، اور غدار جیو کی جانب سے آئی ایس آئی کو بدنام کرنے پر سبق سکھایا جا سکے، تو ہو سکتا ہے کہ وہ تین چیزیں حاصل کرنا چاہیں۔ پہلا، نواز شریف کو مکمل طور پر کمزور کر کے اپنے رحم و کرم پر کر لیا جائے، دوسرا یہ کہ ایک ایسا سیٹ اپ لایا جائے جو وردی والوں کے کنٹرول میں ہو، تیسرا یہ کہ حالات مزید خراب کرکے براہ راست مداخلت کر لی جائے۔

اگر فوج خود ہی انقلاب کو بڑھاوا دے رہی ہے، تو کیا آپ اس انقلاب کو ٹھنڈا کرنے کے لیے انہی کے چیف کی مدد حاصل کرنا چاہیں گے؟ ہاں، پر صرف تب جب فوج آپ کو کمزور کر کے اپنے اشاروں پر چلائے، پر آپ کی کرسی برقرار رکھنے کے لیے آمادہ ہو جائے۔ یا پھر تب، جب آپ نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا، اور اس بات پر یقین رکھا کہ آپ سیاسی مخالفین کو فوج کی مدد سے دبا سکتے ہیں۔

1990 میں مسلم لیگ ن نے واپڈا کی بحالی سے لے کر نہروں کی صفائی تک، ہر کام کے لیے فوج پر اعتماد کیا۔ اور اب اس نے ایک بار پھر عمران خان اور طاہر القادری کو سبق سکھانے کے لیے فوج سے مدد حاصل کی ہے۔ اگر فوج نے ہی اس پورے تلاطم کو ترتیب دیا ہے، تو کیا کوئی عقلمند حکومت مصیبت کے وقت اسی کے پاس جائے گی؟ اس پارلیمنٹ کو چھوڑ کر، جس کی حمایت کی وجہ سے اب تک وہ قائم ہے۔

اس کے بعد عمران خان صاحب ہیں، جو کنٹینر پر کھڑے ہو کر بتاتے ہیں کہ کیسے انہوں نے آرمی چیف کو کہا کہ وہ نواز شریف پر بھروسہ نہیں کر سکتے، جنہوں نے 1990 کے شروع میں آئی ایس آئی سے پیسے لے کر الیکشن جیتا۔

حیرت انگیز طور پر عمران خان یہ نہیں سمجھ پائے، کہ کیسے ایک سابق آرمی چیف نے اسلامی جمہوری اتحاد کو تشکیل دیا تھا، جس پر سپریم کورٹ نے انہیں بعد میں مورد الزام ٹھرایا، اور کیسے ایک سابق آئی ایس آئی چیف نے پیسے تقسیم کیے تھے تاکہ اسلامی جمہوری اتحاد کو فتح دلوائی جا سکے۔

اگر عمران خان ایک ایسے انقلابی ہیں جو "اسٹیٹس کو" کو توڑ کر تبدیلی لے آئیں گے، تو ان کے "خالص جمہوریت" کے ماڈل میں آرمی چیف کا کیا کردار ہو گا؟ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ فوج کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے، تو کیا انہیں چیف سیکورٹی آفیسر کے پاس اپنے سیاسی مطالبات لے کر جانا چاہیے تھا؟ یا پھر وہ بھی اس بات کو سمجھ چکے ہیں، کہ فوجی مداخلت کے بغیر ان کا انقلاب صرف کنٹینر تک ہی محدود رہ جائے گا۔

انقلاب کے بعد پاکستان کا سیاسی کلچر کتنا مختلف ہو گا؟ نواز شریف پارلیمنٹ میں چودھویں ترمیم لائے تھے، جس کے مطابق پارٹی سربراہ سے اختلاف کرنے والا ممبر نااہل قرار پائے گا۔ عمران خان، جو کہ اپنی پارٹی کی اندرونی جمہوریت پر فخر کرتے ہیں، نے دھمکی دی ہے کہ جن ممبران پارلیمنٹ نے استعفیٰ نہیں دیا، انہیں پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔ نواز شریف پر الزام ہے کہ ان کے سامنے جو بھی آئے، وہ اسے خرید لیتے ہیں۔ جبکہ عمران خان سے جو بھی اختلاف کرے، وہ اس کے کردار اور آبرو پر بیانات جاری کردیتے ہیں۔

اب تک عمران خان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے، کہ وہ سیاست میں کبھی دلچسپی نا لینے والے طبقے کو انکے گھروں سے باہر نکال کر مین اسٹریم سیاست میں لانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ لیکن اب وہ اس سب کو خود خراب کر رہے ہیں۔ پچھلے کچھ مہینوں میں وہ اپنے وفاداروں کو ایسی جنونی سیاست میں لے آئے ہیں، جہاں تمام سویلین ریاستی اداروں کی کوئی حیثیت نہیں، جہاں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے، جہاں قانونی مرحلے کے لیے صبر نہیں کیا جاتا، جہاں الزامات لگانے کے لیے ثبوتوں کی ضرورت نہیں ہے، اور نا ہی دوسروں کی عزت و آبرو کی پرواہ کی جاتی ہے۔

عمران خان کی حالیہ سیاست نے اس مایوس قوم کو انتہائی حد تک تقسیم کردیا ہے۔ انقلاب کا جنون اتنا زیادہ ہو گیا ہے، کہ پی ٹی آئی کے اسد عمر جیسے انتہائی ذہین رہنما بھی یہ کہتے ہیں، کہ افضل خان کے ٹی وی پر الزامات کے بعد اور کسی ثبوت کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔

نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ ہر شام دہرایا جاتا ہے، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا، کہ انقلاب کے بعد پاکستان کی تشکیل نو کس طرح کی جائے گی۔

انقلابیوں کے پاس اتنی عددی قوت نہیں تھی، کہ وہ اسلام آباد پر قابض ہو سکیں، اور نا ہی دھرنا ہمیشہ جاری رہ سکتا تھا۔ ان کا پورا بھروسہ صرف اس بات پر تھا، کہ وزیر اعظم پریشر میں آ کر کچھ غلطی ضرور کریں گے، اور وہ تب ہوا، جب نواز شریف نے مسئلے کے حل کے لیے آرمی چیف کو پکارا۔

انقلابیوں کو معلوم تھا، کہ ان پر طاقت کا استعمال سے انہیں عوام کی وہ ہمدردی حاصل ہو سکے گی، جو انہیں ویسے حاصل نہیں تھی۔ ہجوم حکومتوں کو ہٹا سکتے ہیں، لیکن وہ اپنی مرضی کی حکومتیں نہیں لا سکتے۔ اگر نواز شریف بچ جاتے ہیں، تو یہ ایک معجزہ ہوگا۔ لیکن اس سے بھی بڑا معجزہ ہو گا کہ اگر فوج عمران خان کو حکومت کرنے کی اجازت دے دے۔

Praetorianism ایسا ہی دکھتا ہے۔ اس وقت جنرل راحیل شریف انچارج ہیں، جبکہ فوج ایک بار پھر آخری حل اور مسیحا کے طور پر سامنے آچکی ہے۔ ایک قانونی سسٹم کو ڈی-فیکٹو سسٹم کے تابع لایا جا چکا ہے۔ جب عمران خان اور طاہر القادری آرمی چیف کے پاس حاضری پر خوش تھے، تو کسی نے ٹوئٹر پر ٹھیک ہی لکھا تھا کہ، "نیا پاکستان پرانے پاکستان سے کس قدر ملتا جلتا ہے"۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں، اور ٹوئٹر پر babar_sattar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 1 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

بابر ستار
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Sardar Sajid Ur Rehman Khan Sep 04, 2014 03:59pm
٭٭٭رویاتی سیاست اور نوجوان٭٭٭ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق خود کو نہ ڈھالنے والی سیاسی پارٹیوں کو آج کل اپنے لیڈران کے موقف کے ساتھ عام لوگوں میں حمائت حاصل کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ چونکہ پاکستان میں سیاست کا محور نوجوان ہیں اور سب سے زیادہ ووٹ بھی انہی کے پاس اس لئے وہ سیاسی میدان میں موجود نسل درنسل سیاست کو اپنے خلاف سازش سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ جو با صلاحیت ہے وہ سیاسی میدان میں کام کر سکتا ہے پھر بھی آج کے نوجوان میں چند چیزیں سما چکی ہیں اور وہ ان کے خاتمے کے لئے کسی حدتک جانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں ۔عمران خان کے ساتھ بھی وہی لوگ ہیں جو اس خواہش کے ساتھ خوار ہو رہے ہیں حالانکہ عمران خان بھی اسی سیاست کا حصہ ہے جو روایاتی چلی آرہی ۔۔ جہاں تک نوجوانوں مطالبے کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں جب کسی کو اپنا سیاسی مستقبل برائٹ نہ دکھائی دے تو وہ کسی حدتک بھی جانے کو تیار ہوتا ہے اب اگر ایک ہی خاندان کے ہاتھوں تمام عہدے داریاں ہوں،وزارتیں ہوں،اختیارات ہوں تو لوگ کیا غلامی کے دور میں رہ رہے ہیں؟ جو صرف ووٹ ڈالنے کا فریضہ سرانجام دینے لے کے لئے پانچ سال بعد بادشاہ سلامت کے چہرہ شریف دیکھتے ہیں۔ کچھ دن قبل ایک سیاسی خاندان کے ایک نئے معصوم کا بیان پڑھا تو مجھے انتہائی دکھ ہوا کہ یہ کیا ہورہاہے کیا اس پورے علاقے میں کوئی اس قابل نہیں کے کہ وہ کسی پارٹی خواہ کوئی بھی ہو اس کی کوئی چھوٹی موٹی عہد ے داری سنبھال سکے ؟ کیا انہیں لوگوں کا اختیار ہے ؟ یہی ہمارے واسرائے بنے رہیں گے اور ان بچے ہمارے اور ہماری آنے والے نسلوں کے فیصلے کریں گے ۔ سب سے اہم بات سیاست خدمت کا نام ہے تو کیا
tufail ghaloo Sep 05, 2014 06:35am
آج کل ہر پالیمانی میمبر اور ان کے حواری جن کا تعلق حکومت سے ہو خواہ اپوزیشن سے اس ملک میں رائج نام نہاد سسٹم کے گن گاتے نظز آتے ہیں۔۔اور اس کو بچانے کی فکر میں گھلتے جا رہے ہیں اور یے لوگ ایسے سسٹم کی باتیں کر رہے ہیں جس نے فقط اس ملک کے عوام کو تباہی کے سوا کچھ بہی نہیں دیا اور جو سسٹم فرسودہ مدہ خارج اور بدبودار ہو چکا ہے اور جو ایشیا کے ماڈل ڈکٹیٹر ضیا کا اس قوم کو دی ہوئی اذیتوں میں سے ایک اذیت کا تسلسل ہے جو پچہلے 37 برسوں سے ایک خون آشام چڑیل کی طرح اس قوم پے مسلط ہے۔یے ایک ایسا سسٹم ہے جس میں ایک ماں بھوک کی وجہ سے اپنے بچوں سمیت خودکشی کرنے سے دریغ نہیں کرتی۔نوجوان بے روزگاری کی وجہ سے اپنی جان اپنے ہاتھوں لے لیتا ہے یا جرائم اور نشے کی دنیا میں جا بستا ہے.. ایک عام آدمی کو اپنے جائز کام کے لیے دفتروں کے دھکے کھانے پڑتے ہیں اور اگر اس کے پاس تھوڑے بہت پیسے ہوں تو وہ چپراسی سے لے کر افسر تک اگر ان کی جیب گرم کرتا ہے تو اس کا وہی کام منٹوں میں ہو جاتا ہےعدلیہ کے انصافوں کی تو باتیں ہی الگ ہیں۔بس مختصرا یے کہ تاریخ پے تاریخ اور پیسوں کی ریل پیل اور رشوتوں پے رشوتیں... یہی وہ سسٹم ہے نا جس کو بچانے کی خاطر آج حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر صدقے واری جا رہے ہیں۔فقط اس وجہ سے کہ عوام سے لوٹے ہوئے مال کو تحفظ دیا جا سکے اور معذرت کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر اس نام نھاد سسٹم کی وجہ سے ہماری برائے نام جمھوریت کو کوئی خطرہ محسوس ہوتا ہے تو میرے خیال میں یے اس ملک کے عوام کے لیے منھگا سودا نہیں جس میں ایک عام آدمی کی عزت نفس مجروح ہوتی ہو۔ طفیل 3 SharesLike

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024