• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

ڈپریشن سے متعلق 10 غلط فہمیاں

شائع September 9, 2014 اپ ڈیٹ October 21, 2015
۔—رائٹرز فوٹو۔
۔—رائٹرز فوٹو۔

حالیہ عرصے میں خودکشی کے باعث اموات کی وجوہات زیر غور ہیں جن میں ڈپریشن ایک اہم وجہ ہے۔ خود کشی کرنے والے تین افراد میں سے دو ابتدائی طور پر سنگین ڈپریشن سے دوچار ہوتے ہیں۔ ماضی میں خودکشی پر ہی توجہ دی جاتی تھی تاہم اب چیزیں تبدیل ہورہی ہیں اور خودکشی کی ڈپریشن جیسی وجوہات پر بھی غور کیا جارہا ہے۔

ڈپریشن کے حوالے سے دس غلط فہمیاں اور افسانے درج ذیل ہیں جن سے ہمیں اس بیماری کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

ڈپریشن اور اداسی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں

یہ بات حقیقیت ہے کہ اداسی کا شدید احساس ڈپریشن کا علامات میں شامل ہوسکتی ہیں تاہم یہ دونوں چیزیں ایک نہیں۔ اداسی وقتی طور پر ہوتی ہے تاہم ڈپریشن دائمی حالت ہے اور اسکی سنگین کنڈیشن خود بہ خود ختم نہیں ہوتی

یہ دماغی کمزوری کی نشانی ہے

یہ اس بیماری کے بارے میں بات نہ کرنے کی بہت بڑی وجہ ہے۔ ڈپریشن کوئی چوائس نہیں ہے، یہ ایک پیچیدہ دماغی بیماری ہے جو انسان کو حیاتیاتی، نفسیاتی اور سماجی طور پر متاثر کرتی ہے۔

یہ ہمیشہ تکلیف دہ واقعات کی وجہ سے ہوتا ہے

یہ حقیقت ہے کہ کچھ واقعات کے بعد اکثر انسان ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے تاہم یہ ضروری نہیں ہے۔ زندگی پر اثر انداز ہوجانے والے کسی بھی واقعے کے باعث انسان وقتی طور پر ڈپریس ہوسکتا ہے تاہم اگر یہ علامات دو ہفتے سے زائد جاری رہیں تو یہ کسی بڑے مسئلے کا اشارہ ہوسکتا ہے۔

یہ کوئی حقیقی بیماری نہیں

ڈپریشن واقعی ایک بیماری ہے اور اسکو اسی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مایو کلینک کے مطابق ڈپریشن میں مبتلا شخص میں دماغی تبدیلیاں رونما ہوجاتی ہیں اور ہورمونز کے عدم توازن کا بھی شکار ہوجاتی ہیں۔ ان علامات کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر اسکی شدت کا اندازہ لگاتے ہیں۔

ڈپریشن صرف دماغ کو متاثر کرتا ہے

ڈپریشن کے باعث تھکاوٹ، نیند کی کمی، بھوک میں کمی، پٹھوں میں درد، اور سینے میں بھی درد ہوسکتا ہے۔ ڈپریشن کو صرف دماغی بیماری سمجھنے سے ہم کبھی کبھار اسکی سنجیدگی کو نظر انداز کرجاتے ہیں۔

’اصلی مردوں‘ کو ڈپریشن نہیں ہوتا

خواتین میں ڈپریشن ہونے کے امکانات مردوں کے مقابلے میں دوگنا ہوتے ہیں تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ مرد اس بیماری میں مبتلا ہو ہی نہیں سکتے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مرد اس بیماری کا کسی سے ذکر نہیں کرسکتے اور چپ چاپ اسے سہتے رہیں۔ مرد اکثر اپنے خیالات کا اظہار خواتین کے مقابلے میں مختلف انداز میں کرتے ہیں اور ڈپریشن بھی اسی کڑی کا حصہ ہے۔ اسی وجہ سے معاشرہ اکثر مردوں میں ڈپریشن کی علامات کو نظر انداز کرسکتا ہے جو کہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ مرد اکثر اس کے علاج میں خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہچکچاتے ہیں اور اس وجہ سے ان کی بیماری مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے۔

اگر آپ کے والدین ڈپریشن میں مبتلا رہے ہیں تو آپ کو بھی یہ بیماری ہوگی

جنیاتی طور پر کچھ انسانوں میں ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں تاہم جنیات اس حوالے سے صرف 10 سے 15 فیصد ہی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جدید ترین مطالعات میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ کوئی بھی شخص، چاہے اس کے خاندان میں ڈپریشن کی ہسٹری رہی ہو یا نہیں، کو اس کی علامات محسوس ہوں تو اسے فوری طور پر طبی ماہرین سے رجوع کرنا چاہیے۔

صرف اینٹی ڈپریسنٹس سے مسئلہ حل ہوجائے گا

اینٹی ڈپریسنٹس ایسی صورت حال میں عام طور پر دی جانے والی ادویات ہوتی ہیں تاہم یہ واحد آپشن نہیں ہے۔ زیادہ تر لوگ ڈپریشن سے نمٹنے کے لیے سائیکو تھراپی اور مختلف قسم کے طریقے آزماتے ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق سب سے بہتر طریقہ تھراپی اور دواؤں کا مجموعہ ہے۔ ادویات لینے والے افراد صبر کا مظاہرہ کریں کیوں کہ اکثر چھ ہفتوں تک اس کے فوائد سامنے نہیں آتے۔ بعض اوقات مختلف طریقہ علاج آزما کر دیکھا جا سکتا ہے کہ آپ کے لیے کون سا طریقہ سب سے موزوں ہے۔

آپ کو زندگی بھر ادویات کی ضرورت پڑے گی

یہ ضروری نہیں اور اس کا انحصار مریض کی حالت پر ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کو تھوڑے سے عرصے میں بھی فائدہ ہوجاتا ہے اور نہیں مزید دوا کی ضرورت نہیں پڑتی جبکہ دیگر کو لمبے عرصے تک ادویات لینا پڑتی ہیں۔ تقریباً چالیس فیصد افراد میں تھراپی ادویات سے زیادہ بہتر نتائج برآمد کرتی ہیں۔

بات کرنے سے مسئلہ مزید سنگین ہوگا

ابتدائی طور پر اس بات کرنا شاید مشکل ہوسکتا ہے تاہم یہ امید کرنا کہ یہ خود بہ خود ہی ختم ہوجائے گا درست نہیں۔ اس پر بات کرنے سے بہتر تجاویز سامنے آسکتی ہیں اور آپ کو جلد مدد مل سکتی ہے۔ زیادہ افراد کو اس کا علم ہونے سے اس بیماری کے خطرناک حد تک پہنچنے سے پہلے ہی آپ کو مدد مل سکتی ہے۔

بشکریہ ہفنگٹن پوسٹ

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024