خواتین پر تشدد، تین ماہ کے دوران سندھ میں 421 واقعات
کراچی: خیرپور سندھ کے وزیراعلٰی سید قائم علی شاہ کاآبائی ضلع ہے، یہ صوبے ان اضلاع کی فہرست میں اول درجے پر جہاں اس سال کی تیسری سہہ ماہی کے دوران خواتین کے خلاف تشدد کی سب سے زیادہ واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔
سندھ میں خواتین کے خلاف تشدد کی صورتحال پر سہ ماہی رپورٹ (جولائی تا ستمبر 2014ء) کے مطابق صوبے میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے تمام 421 واقعات میں سے 72 واقعات کا تعلق صرف خیرپور سے تھا۔
ایک غیرسرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن، جو خواتین سے متعلق مسائل پر کام کررہی ہے، کی جانب سے تیار کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 421 واقعات میں 534 خواتین اور لڑکیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، لیکن ان میں سے صرف 66 کیسز کی ایف آئی آر درج کی گئی۔
ان تین ماہ کی مدت کے دوران اخبارات میں شایع ہونے والے اعدادوشمار کی بنیاد پر تیار کی گئی اس رپورٹ کا کہناہے کہ خواتین کے خلاف تشدد کا مسئلے کی جڑ سماجی روایات اور معاشی انحصار میں پوشیدہ ہیں، جبکہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک مردوں کی اجارہ داری کے نظام کا نتیجہ ہیں۔
صنفی بنیاد پر تشدد سے خواتین کے کمتر کردار ، ان کے سیاست میں کم سے کم سطح پر شراکت، ان کی کمتر تعلیمی سطح و مہارت اور کام کے محدود مواقع کو برقرار رکھنےمیں مدد دی ہے۔
رپورٹ کا کہنا ہے کہ غلط الفاظ کے ساتھ درج کی جانے والی ایف آئی آر سے بھی مؤثر حل کے لیے مقدمات تک خواتین کے لیے رسائی کے حق کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔
اکثر اوقات اس طرح کے واقعات سے پولیس کو مطلع نہیں کیا جاتا، جبکہ پولیس کو رپورٹ کیے گئے کچھ واقعات کو پولیس اپنے روزنامچے میں درج نہیں کرتی۔ یہاں تک کہ اگر چند کیسز درج بھی ہوجائیں تو مناسب انکوائری نہیں کی جاتی اور یہ معاملہ بالآخر التواء کا شکار ہوجاتا ہے۔
یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات شہری علاقوں میں بھی بڑھتے جارہے ہیں، جو باعثِ تشویش ہے۔ جیسا کہ 421 کیسز میں سے 197 شہری علاقوں سے رپورٹ کیےگئے تھے۔
متاثرہ خواتین کی ازدواجی حیثیت کے بارے میں اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 534 خواتین میں سے 249 (59 فیصد) شادی شدہ تھیں، جبکہ 67 غیر شادی شدہ۔ نامکمل رپورٹوں کی وجہ سے 218 خواتین کی ازدواجی حیثیت معلوم نہیں ہوسکی۔
خواتین کے خلاف تشدد کے جرائم نوعیت کچھ یوں تھی، قتل (76 خواتین)، غیرت کے نام پر قتل (57 خواتین)، خودکشی (49 خواتین) جرگہ (41)، اغوا (41) زخمی (39)، ریپ اور گینگ ریپ (21/5)، جنسی حملہ (17) تشدد (17) اور اقدام خودکشی (19)۔
91 متاثرہ خواتین کی عمر 19 سے 36 برس کے درمیان تھیں، 66 چھوٹی بچیاں تھیں، اور 13 کی عمر 37 سال سے زیادہ تھی۔ جبکہ دیگر 364 تشدد سے متاثرہ خواتین کی عمروں کا تعین نہیں کیا جاسکا۔
ان تین ماہ کے دوران اضلاع کے حساب سے کیسز کی تعداد کچھ یوں تھی، خیرپور 72، جیکب آباد 46، لاڑکانہ 45، شکارپور 28، سانگھڑ 27، سکھر 23، بے نظیرآباد 21، گھوٹکی 21، نوشہروفیروز 16، میرپورخاص 15، کشمور 15، تھرپارکر 14، کراچی 12، جامشورو 12، دادو 11، حیدرآباد 9، بدین 8، قمبر شہداد کوٹ 8، ٹھٹھہ 7، مٹیاری 4، عمر کوٹ 4، ٹنڈو محمد خان 2 اور ٹنڈو الہ یار ایک۔
رپورٹ میں عورت فاؤنڈیشن کی سربراہ مہناز رحمان نے حکومت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ گھریلو تشدد، ریپ، جنسی طور پر ہراساں کرنا اور صنفی بنیاد پر دیگر تشدد کے خلاف تمام خواتین کے قانونی تحفظ کو یقینی بنائے، اور متاثرہ خواتین کو امدادی خدمات فراہم کرکے ان کی سالمیت، احترام کا مناسب تحفظ کرے۔