• KHI: Zuhr 12:34pm Asr 5:04pm
  • LHR: Zuhr 12:04pm Asr 4:38pm
  • ISB: Zuhr 12:09pm Asr 4:44pm
  • KHI: Zuhr 12:34pm Asr 5:04pm
  • LHR: Zuhr 12:04pm Asr 4:38pm
  • ISB: Zuhr 12:09pm Asr 4:44pm

ٹی وی کی روتی عورت

شائع December 24, 2014
روتی ہوئی عورت اب تک لگ بھگ سو ٹی وی ڈراموں اور سیریلز میں ایک ہی کردار مختلف ناموں اور میک اپ میں ادا کرچکی ہے۔
روتی ہوئی عورت اب تک لگ بھگ سو ٹی وی ڈراموں اور سیریلز میں ایک ہی کردار مختلف ناموں اور میک اپ میں ادا کرچکی ہے۔

روتی ہوئی عورت پاکستان کی ایک معروف ٹی وی اداکارہ ہے جو سو سے زائد ڈراموں میں ہر بار مختلف ناموں اور حلیے کے ساتھ تقریباً ایک ہی جیسا کردار نبھا چکی ہے۔

کوئی بھی شخص اس کے اصل نام سے واقف نہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی عرفیت 'روتی ہوئی عورت'، جو اس کے متعدد پرستاروں نے ایک دہائی قبل رکھی تھی، سے خوش ہے۔

اس روتی ہوئی عورت سے متعلق دلچسپ حقائق میں سے ایک یہ ہے کہ اپنی حقیقی زندگی میں بھی اس کا کردار ویسا ہی ہے، جیسا وہ ٹی وی ڈراموں میں ادا کرتی ہے، یعنی ایک اطاعت شعار، نیک اور پرہیزگار، رومانٹک، اچھی فطرت اور ہمیشہ دکھی رہنے والی عورت جو بہت زیادہ بلکہ ہر وقت ہی روتی رہتی ہے۔

اس روتی ہوئی عورت کی پیدائش 1985 میں لاہور میں ایک اطاعت شعار، نیک اور پرہیزگار، رومانٹک، اچھی فطرت اور ہمیشہ دکھی رہنے والی عورت کے گھر ہوئی، جو بہت زیادہ بلکہ ہر وقت ہی روتی رہتی تھی۔ اس کا باپ اپنے آپ میں مگن رہنے والا ایسا فرد تھا جو اچانک ہی غصے میں آجاتا تھا، اور اس کے غصے کا نشانہ اکثر و بیشتر وہ خواتین بنتی تھیں جو گاڑی چلا سکتی تھیں۔

روتی ہوئی عورت کا باپ۔ وہ اکثر جذباتی موقع پر بے جان لکڑی میں تبدیل ہوجاتا تھا، اور ایسا بار بار ہوتا تھا۔
روتی ہوئی عورت کا باپ۔ وہ اکثر جذباتی موقع پر بے جان لکڑی میں تبدیل ہوجاتا تھا، اور ایسا بار بار ہوتا تھا۔

اس روتی ہوئی عورت کی ماں ایک ٹی وی اداکارہ بننا چاہتی تھی مگر اس کی ساس نے اسے گھر سے نکال دیا تھا۔ اس موقع پر روتی ہوئی عورت کے باپ نے بھی ساس کی حمایت کی کیونکہ وہ انہیں اپنے باپ کی جگہ دیکھتا تھا، کیونکہ ساس نے اس سے پہلے گھر سے اپنے شوہر کو بھی اس وجہ سے نکال باہر کیا تھا کہ اس نے ساس کی ساس، جو روتی ہوئی عورت کی ماں کی ساس کو باہر نکالنے کی سازش کر رہی تھی، کو نکال باہر کرنے کی سازش میں حصہ لینے سے انکار کردیا تھا۔ مگر پھر بھی روتی ہوئی عورت کی ماں پہلے اپنی ساس اور بعد میں اپنے شوہر اور پھر بہو کو گھر سے باہر پھینکنے میں کامیاب رہی۔

روتی ہوئی عورت کی ماں نے اپنے شوہر کو چھوڑ دیا اور بیٹی کو اپنے ساتھ لے گئی۔

وہ گوجرانوالہ میں اپنے والدین کے گھر میں رہنے لگی جہاں پہلے ہی اس کے اپنے آپ میں مگن رہنے والے بھائی (جسے غصے کے اکثر اچانک دورے پڑتے تھے) اور اس کی بیوی کی ماں باپ سے کشیدگی عروج پر تھی۔

تو روتی ہوئی عورت ایسے ہی جذباتی ماحول میں پلی بڑھی اور اسکول اور کالج میں روتے ہوئے اس وقت تک پڑھتی رہی جب تک وہ اپنے گھر کو چھوڑ کر واپس باپ کے پاس لاہور نہیں پہنچ گئی۔

اس کا باپ دوبارہ شادی کرچکا تھا، مگر ایک بار پھر وہ دوسری بیوی کو گھر سے باہر نکالنے کے لیے اپنی ماں کے ساتھ مل کر سازش کر رہا تھا)۔ وہ مذہب اور خدا ترسی کے دکھاوے میں سکون ڈھونڈ رہا تھا۔ اس نے خواتین کے لیے ڈرائیونگ اسکولوں کی ایک چین بھی قائم کی تھی جہاں انہیں ڈرائیونگ بھولنے کی تعلیم دی جاتی تھی۔

ڈرائیونگ اسکولوں کی اس معروف چین کو چنگیز ڈاٹ کا نام دیا گیا تھا جہاں اونچے اور متوسط طبقے کی مشکلات میں شکار خواتین جو پہلے ڈرائیونگ سیکھ چکی تھیں، انہیں فیس کے بدلے اسے فراموش کرنے کی تربیت دے کر ایک اطاعت شعار، نیک اور پرہیزگار، رومانٹک، اچھی فطرت والی، اور باورچی خانے میں مصروف رہنے والی بنایا جارہا تھا جو بہت زیادہ روتی ہوں، یعنی نان اسٹاپ۔

 باپ اس حقیقت پر دکھ کا اظہار کررہا ہے کہ آج پاکستان میں خواتین ڈرائیورز کی تعداد ماضی سے کہیں زیادہ ہے۔
باپ اس حقیقت پر دکھ کا اظہار کررہا ہے کہ آج پاکستان میں خواتین ڈرائیورز کی تعداد ماضی سے کہیں زیادہ ہے۔

روتی ہوئی عورت بھی اپنے والد کے un-driving اسکول کی un-instructor بن گئی اور یہی وجہ جگہ تھی جہاں اسے پہلی بار ایک خاتون ٹی وی ڈرامہ پروڈیوسر نے دیکھا۔

یہ پروڈیوسر خانم باجی تھیں جو 1970 کی دہائی میں ٹی وی اور فلم کی معروف اداکارہ تھیں اور ماضی میں غلط پارٹیوں، رومانٹک اسکینڈلز، نائٹ کلبوں اور وزن کم کرنے کے متنازع طریقوں والے اپنے رنگین طرزِ زندگی کے حوالے سے جانی جاتی تھیں۔

 ستر کی دہائی کی خانم
ستر کی دہائی کی خانم

تاہم جیسے ہی خانم باجی 1980 کی دہائی کے آخر میں درمیانی عمر میں پہنچیں، تو نرم پڑنے لگیں اور ایک نیک اور امیر شخص سے شادی کی جس نے باجی کو ان کے طرز زندگی میں موجود خامیاں دیکھنے میں مدد کی اور پھر ڈرائیونگ چھوڑنے کا مشورہ دیا۔

خانم باجی نے ان ہی دنوں اپنا پروڈکشن ہاﺅس شروع کیا تھا، اور چونکہ ان کے لیے ڈرائیونگ چھوڑنا مشکل ثابت ہورہا تھا اس لیے وہ 1999 میں چنگیز ڈاٹ کا حصہ بنیں۔ یہاں وہ اسکول کے مالک (روتی ہوئی عورت کے باپ) کی محبت میں گرفتار ہوئیں اور اپنے شوہر کو چھوڑ دیا اور اسکول کے مالک کو دوسری بیوی کو طلاق دینے پر مجبور کرکے شادی کرلی مگر اسے بھی نئی ساس نے گھر سے نکال باہر کیا۔

اتفاقی طور پر جب وہ ڈرائیونگ بھولنے کی کوشش کررہی تھیں تو اس دوران وہ ایک نئے چہرے کی تلاش میں بھی مصروف تھیں جسے وہ اپنے نئے ٹی وی ڈراموں میں استعمال کرنا چاہتی تھیں۔

حال ہی میں ایک پارسا مارننگ شو میزبان، عالم، دانا شخص اور انسانی حقوق کے علمبردار ڈاکٹر عامر لیاقت سے بات کرتے ہوئے خانم باجی نے انکشاف کیا "جب میں نوجوان تھی تو میں ہمیشہ ہی زندگی کا مزہ لینے کی کوشش کرتی تھی مگر ایک دن میں نے اپنے گال پر جھریوں کو دیکھا اور میری چھوٹی سی توند نکلنے لگی، جب میں نے توند کو دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ ایک عورت کی زندگی مزے لینے کے لیے نہیں بلکہ رونے کے لیے ہوتی ہے، پھر میں نے اپنے پہلے شوہر سے شادی کی جو بہت زیادہ دانائی، خداترسی اور دولت سے مالامال تھے اور انہوں نے مجھ سے کہا ' خانم گاڑی چلانا چھوڑ کر میرے باورچی خانے کو چلاﺅ' تو میں چنگیز ڈاٹ پہنچ گئی اور ڈرائیونگ بھولنے کے ساتھ ساتھ رونا سیکھنا شروع کردیا وہ بھی ہر وقت۔"

خانم باجی نے ڈاکٹر عامر لیاقت کو بتایا کہ اَن ڈرائیونگ اسکول میں گزارے جانے والے وقت کے دوران انہوں نے متعدد روتی ہوئی خواتین کے ساتھ ڈرامے بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ خواتین کو گھر میں ان کے حقیقی مقام، درست طور طریقوں، اور زندگی میں مزے کے خطرات سے آگاہ کیا جاسکے۔

آج کی خانم باجی
آج کی خانم باجی

خانم کے پہلے دو ڈرامے خوشی کے آنسو (2004) اور کمبختی (2005) نسرین آپا نے تحریر کیے جو ایک ایسی خاتون تھیں جن کے اندر ایک دانا، مذہب کے پیروکار، زن بیزار مرد کی طرح سوچنے کی پراسرار صلاحیت تھی۔ انہیں ان کے ساتھ اکثر ناصر بھائی کہہ کر بھی مخاطب کرتے تھے۔

روتی ہوئی عورت نے ان دونوں ڈراموں میں مرکزی کردار ادا کیا جو بہت ہٹ ثابت ہوئے۔

خوشی کے آنسو میں اس روتی ہوئی عورت نے حمیدہ کا کردار ادا کیا جو اپنی زندگی کا بڑا حصہ اس کوشش میں گزار دیتی ہے کہ اس کا شوہر اسے واپس گھر لے جائے (کیونکہ اسے انڈے ابالنے نہ آنے پر شوہر نے گھر سے باہر پھینک دیا تھا)۔

ڈرامہ کمبختی میں اس نے انتہائی جذباتی عورت جسے کمبختی کا نام دیا گیا تھا، کا کردار ادا کیا جس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اس کوشش میں گزار دیا کہ اس کا شوہر اسے واپس لے جائے (پنیر کا آملیٹ بنانا نہ آنے پر اسے گھر سے باہر پھینک دیا گیا تھا)۔

روتی ہوئی عورت اب تک لگ بھگ سو ٹی وی ڈراموں اور سیریلز میں ایک ہی کردار مختلف ناموں اور میک اپ میں ادا کرچکی ہے اور اسے اس کی فطری اداکاری پر سراہا جاتا ہے۔

 کہا جاتا ہے کہ حقیقی زندگی میں بھی روتی ہوئی عورت ٹی وی والا ہی انداز اختیار کرتی ہے، یہاں آپ اسے گھر سے پیزا آرڈر کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ حقیقی زندگی میں بھی روتی ہوئی عورت ٹی وی والا ہی انداز اختیار کرتی ہے، یہاں آپ اسے گھر سے پیزا آرڈر کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔
 باورچی خانے میں ناشتے کی تیاری کا منظر۔
باورچی خانے میں ناشتے کی تیاری کا منظر۔
 کسی سے کیچپ مانگتے ہوئے
کسی سے کیچپ مانگتے ہوئے

اگرچہ وہ لاکھوں روتے ہوئے پرستاروں کے دل جیت چکی ہے اور متعدد ایوارڈز اپنے نام کرچکی ہے، مگر اسے دبئی میں منعقد ہونے والے 2013 کے لکس اسٹائل ایوارڈ میں ایک اور اداکارہ کے ہاتھوں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور ایوارڈ کی تقریب کے فوری بعد اس نے رمیز راجا کو بتایا

"جب نامزد کرسکتے ہو تو ایوارڈ کیوں نہیں دے سکتے۔"

اس بات نے رمیز کو بھی آنسو بہانے پر مجبور کردیا۔

لیکن بالآخر 2014 میں وہ نسرین باجی کے نئے ڈرامہ سیریل ساون کی سسکیاں میں اپنے کردار پر لکس ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ہو ہی گئی۔ روتی ہوئی عورت ایوارڈ لینے کے بعد اپنی پوری تقریر میں آنسو بہاتی رہی اور اپنے مستقبل کے شوہر اور مستقبل میں اس کے تعاون کا شکریہ ادا کرتی رہی۔

اس نے کہا کہ وہ اپنے مستقبل کے شوہر کے مستقبل کے گھر میں مستقبل کی ساس کے ہاتھوں باہر نکالے جانے کی شدید منتظر ہے۔

ساون کی سسکیاں میں روتی ہوئی عورت کے ساتھی اداکار فواد خان نے ایوارڈ اسے سونپتے ہوئے ناظرین کو بتایا کہ وہ اپنی ناک کی حالیہ سرجری روتی ہوئی عورت جیسی خواتین کے نام کرتے ہیں جنہوں نے انہیں لڑکیوں کی طرح نظر آنے پر مجبور کیا اور ان جیسے اداکاروں کے لیے ایک اطاعت شعار، نیک اور پرہیزگار، رومانٹک، اچھی فطرت والی، اور ہمیشہ دکھی رہنے والی خواتین جیسے کرداروں کے نئے مواقع کھولے، جو ہر وقت روتی رہتی ہیں۔

 فواد خان اپنی اگلی ڈرامہ سیریل میں مظلوم بیوی کا کردار ادا کرنے والے ہیں۔
فواد خان اپنی اگلی ڈرامہ سیریل میں مظلوم بیوی کا کردار ادا کرنے والے ہیں۔

ساون کی سسکیاں انڈیا کے زی ٹی وی پر بھی نشر کیا گیا اور کہا جاتا ہے کہ اس سے متاثر ہوکر ہندوستانی وزیراعظم نریندرا مودی کی اہلیہ نے نسرین باجی کے اگلے ڈرامے میں ایک کردار کے لیے آڈیشن دیا۔

مسز مودی نے ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا " اگر آپ میری زندگی کو دیکھیں تو یہ اس سے ملتی جلتی ہے جس کی ترجمانی روتی ہوئی عورت نے ڈرامے میں کی۔ مجھے لگتا ہے کہ میں بھی فطری اداکارہ ہوں اور مودی جی نے ایسے برتاؤ جیسے کہ میرا وجود ہی نہیں، کر کے میری قدرتی صلاحیتوں کو نکھارنے میں بھت تعاون کیا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ آخر کوئی مشرقی بیوی اس سے زیادہ اپنے شوہر سے کیا مانگ سکتی ہے؟

انہوں نے مزید کہا کہ تاج محل درحقیقت ایک ہندو راجا نے 19 ملین سال پہلے تعمیر کرایا تھا۔

 مسز مودی ان کے وجود کو نظرانداز کرنے پر اپنے شوہر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے۔
مسز مودی ان کے وجود کو نظرانداز کرنے پر اپنے شوہر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے۔

اگرچہ روتی ہوئی عورت شاید پاکستان کی سب سے مقبول اور سب سے زیادہ ریٹنگ حاصل کرنے والی اداکارہ بن گئی ہو مگر اس کا کہنا ہے کہ شہرت اور خوش قسمتی سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

حال ہی میں ہم ٹی وی، اردو ون، جیو، اے آر وائی اور ای ایس پی این کے ساتھ 87 ڈراموں کے ایک معاہدے کے بعد اس نے اعلان کیا " میں ابھی بھی زبردست حد تک دکھی ہوں۔"

وہ اسٹار ٹی وی پر ایک انٹرویو کے دوران معروف ہندوستانی تاریخ دان اور مستقبل کی ممکنہ وزیراعظم شوبھا دی سے بات کررہی تھی۔

جب شوبھا نے اس سے پوچھا کہ کیا شہرت اور خوش قسمتی کے حصول کے بعد وہ اتنا زیادہ رونے کی عادت کو روکنا چاہتی ہے تو روتی ہوئی عورت نے جواب میں کہا " مگر شوبھا جی رونا تو ایک نفیس عورت کے لیے خوشی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔"

مگر جب شوبھا نے تسلیم کیا کہ وہ کوشش کے باوجود اس جتنا رو نہیں پاتی، تو روتی ہوئی عورت نے کہا " سازشی عورت! اس کی وجہ یہ ہے کہ تم زیادہ نفیس نہیں۔"

پھر اس نے شوبھا کو کہا کہ وہ اپنے بازﺅں اور گردن کے ارگرد موجود چربی کو دیکھے تاکہ اصل حقیقت سامنے آسکے اور یہ کہتے ہی وہ اسٹوڈیو سے روتے ہوئے باہر نکل گئی۔

پھر شوبھا نے اپنے بازﺅں اور گردن کی پیمائش کرائی، اور رونے لگی۔

انگلش میں پڑھیں۔

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

Imran Dec 24, 2014 08:22pm
This time is it a quite stupid satire
Mubashir Iqbal Dec 25, 2014 09:08am
اس سے گھٹیا تحریر کبھی نہیں پڑھی ۔۔۔!!
kashaf Dec 25, 2014 08:44pm
totally time waste yar

کارٹون

کارٹون : 9 اپریل 2025
کارٹون : 8 اپریل 2025