• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

ادویات کی قیمتوں کا جھگڑا، غریب عوام متاثر

شائع February 16, 2015
۔ —. فائل فوٹو آن لائن
۔ —. فائل فوٹو آن لائن

اسلام آباد: حکومتِ پاکستان اور فارماسیوٹیکل کمپنیاں کے مابین کئی سالوں سے ملک میں تیار کی جانے والی دواؤں کی قیمتوں پر اختلافات چل رہے ہیں، اور اس لڑائی زیادہ تر مریض متاثر ہورہے ہیں۔

ایسا اس لیے ہے کہ کئی ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک چھوڑ کر چلی گئی ہیں، چنانچہ ایسی ادویات کی عدم دستیابی کا مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے، جو یہ کمپنیاں پاکستان میں اپنے لائسنس پر تیار کررہی تھیں۔

ادویات کی صنعت کا اصرار ہے کہ قیمتوں میں اضافہ کیا جانا چاہیےجبکہ مسلم لیگ ن کی حکومت کا دواؤں کی قیمت میں تیس فیصد تک کمی کا ارادہ ہے۔عوام دونوں فریقین کے تصادم کے درمیان پھنس کر رہ گئے ہیں، اور انہیں خوف ہے کہ یہ جھگڑا صرف ان کے مسائل میں ہی اضافہ کرے گا۔

نیشنل ہیلتھ سروسز کی وفاقی وزیر سائرہ افضل تارڑ نے ڈان کو تصدیق کی کہ اگلے تین سالوں کے دوران ادویات کی قیمتوں میں تیس فیصد تک کمی کی جائے گی۔ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ کمپنیوں کو مہنگائی کی شرح دینے کے بعد کیا جائے گا۔‘‘

انہوں نے کہا ’’ہم نے فارما کمپنیوں سے بات کی ہے، اور انہیں پاکستان سے برآمد کی جانے والی ادویات پر کوئی بھی قیمت وصول کرنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن پاکستان کے اندر ہماری مقررہ قیمتیں ہی لاگو ہوں گی۔‘‘

سائرہ افضل نے یاد دلایا کہ ہندوستان سمیت دنیا بھر میں ملٹی نیشنل کمپنیاں آتی جاتی رہتی ہیں۔

انہوں نے کہا ’’میری توجہ دواؤں کے معیار پر کنٹرول پر مرکوز ہے، اور میں نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ڈاکٹر محمد اسلم کو ہدایت کی ہے کہ دواؤں کے معیارے کے مسئلے کو حل کریں۔ اس کے علاوہ عالمی ادارۂ صحت کے سلطان غنی بھی ادویات کے معیار کو بہتر بنانے میں تعاون کررہے ہیں۔‘‘

بلاشبہ نیشنل ہیلتھ سروسز کی وزارت نے 28 نومبر 2013ء کو ادویات کی قیمتوں میں پندرہ فیصد تک اضافے کا نوٹس لیا تھا، جسے وزیراعظم کے حکم پر اگلے ہی دن واپس لے لیا گیا تھا۔

حکومت کی جانب سے اس طرح کے نشیب و فراز کی وجہ سے ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو معذرت کرتے ہوئے پاکستان چھوڑنے پر مجبور کردیا ہے۔ پچھلی دہائی میں 35 میں سے 11انٹرنیشنل فارما فرنچائزز ملک چھوڑ گئے ہیں۔

تحقیقی بنیادوں پر کام کرنے والی امریکی کمپنی مارک شارپ اینڈ ڈھوم (پاکستان) لمیٹڈ، جو 1960ء سے کام کررہی تھی، پاکستان میں رجسٹرڈ اپنی مصنوعات اور مینوفیکچرنگ یونٹ کے ساتھ اپنا کاروبار فروخت کردیا۔ ایک اور امریکی کمپنی برسٹل میئرز سکوئب نے مقامی طور پر رجسٹرڈ اپنی مصنوعات کے ساتھ اپنا کاروبار گلیکسو اسمتھ کلین پاکستان کو فروخت کردیا۔

ایک امریکی کمپنی آئی سی آئی نے پاکستان میں اپنے سرمائے کو اپنے نام اور پیداواری لائسنس کے ساتھ ایک مقامی کمپنی روچے پاکستان کو فروخت کردیا ہے۔

جانسن اینڈ جانسن جو اپنی مصنوعات کی اسٹریٹیجک اہمیت کی بناء پر پاکستان میں صدر ایوب خان کی دعوت پر 1966ء میں آئی تھی، حال ہی میں ادویات اور سرجیکل آلات کے پیداواری یونٹ کو ایک مقامی کمپنی کو فروخت کردیا ہے۔ نیشنل ہیلتھ سائنسز کی وزارت کے ایک اہلکار جسے ریکارڈ پر بات کرنے کی اجازت نہیں تھی، نے ان کمپنیوں کی روانگی کے منفی اثرات سے خبردار کیا۔

مذکورہ اہلکار نے کہا ’’پاکستان میں ان کی سرمایہ کاری رُک جانے کے بعد ان کی نئی مصنوعات کی تیاری اور تعارف پاکستان پہنچنا رُک گیا ہے، اور نئے آپریٹرز کے ہاتھوں میں آنے کے بعد ان کے لائسنس یافتہ مصنوعات کا معیار مشکوک ہوگیا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اس جنگ نے پاکستان کو ایک مشکل صورتحال سےدوچار کردیا ہے، جیسا کہ جانسن اینڈ جانسن کی جانب سے مقامی مٹیریل سے تیار کیے جانے والے سرجیکل مصنوعات زخمی سپاہیوں کے لیے دستیاب نہیں ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا ’’ہالوتھین انہیلیشن، تھائروکسن، نیومرکازول، کیٹگٹ سرجیکل مصنوعات، سلک سرجیکل مصنوعات، ڈگوکسن وغیرہ کی مصنوعات کی فراہمی پہلے ہی کم ہوگئی ہے۔‘‘

ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مصنوعات کا معیار شک سے بالا تر تھا اور مقامی مینوفیکچررز سے کہیں زیادہ بہتر بھی۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ کچھ دیگر ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی پاکستان چھوڑنے کا منصوبہ بنارہی ہیں۔

انہوں نے کہا ’’نئی مصنوعات کی ملک میں دستیابی کو یقینی بنانا ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔ تقریباً ہر پانچ سال میں ریسرچ سے دواؤں کے معیار میں اضافہ ہوجاتا ہے یا نئی دوائیں متعارف ہوجاتی ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا ’’صرف ملٹی نیشنل کمپنیاں ہی مارکیٹ میں زیادہ قوت بخش ادویات لاسکتی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان کے ساتھ مذاکرات کرے، اس لیے کہ اگر وہ ملک چھوڑ گئے تو پاکستان کے عوام متاثر ہوں گے۔‘‘

ان کے نکتہ نظر کے مطابق حکومت کو صرف زندگی بچانے والی ادویات کو ریگولیٹ کرنا چاہیے اور باقی دوسری ادویات کو ڈی ریگولیٹ۔ اس طرح مزید ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک میں آئیں گی اور ان کے درمیان مقابلے کا رجحان ادویات کی قیمتوں کو نیچے لائے گا۔

ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ایک ایسوسی ایشن فارما بیورو کے چیئرمین شہاب رضوی نے ڈان کو بتایا کہ درحقیقت حکومت دواؤں کی قیمتوں کو 45 فیصد تک کم کرے گی۔

انہوں نے کہا ’’یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ 2013ء میں دیے گئے پندرہ فیصد کے عبوری ریلیف واپس لے لیا جائے، اور اگلے تین برسوں میں 13سو دواؤں میں سے 348 کی قیمتوں میں تیس فیصد تک کمی کردی جائے۔‘‘

شہاب رضوی نے کہا ’’ان اقدامات سے بنیادی طور پر ملٹی نیشنلز متاثر ہوں گی، اس لیے کہ 348 ادویات میں سے زیادہ تر درآمد کی جاتی ہیں، جس سے ان کے پاس ملک چھوڑ جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔‘‘

انہوں نے یاد دلایا کہ آٹھ سال قبل نو کمپنیاں تپِ دق کی ادویات تیار کررہی تھیں۔ آج یہ ادویات صرف تین کمپنیاں تیار کرتی ہیں۔

شہاب رضوی نے کہا ’’دولت مند لوگ بیرون ملک علاج کی استطاعت رکھتے ہیں، لیکن غریب حقیقی معنوں میں پریشان ہوں گے۔‘‘

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024