• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

سبین محمود سے چند ملاقاتیں

شائع April 24, 2016 اپ ڈیٹ April 24, 2017
کب تک اس ملک میں اچھے اور سچ بولنے والے لوگوں کو مارا جاتا رہے گا؟ — فوٹو بشکریہ Inc
کب تک اس ملک میں اچھے اور سچ بولنے والے لوگوں کو مارا جاتا رہے گا؟ — فوٹو بشکریہ Inc

"میری پینٹنگ اور سامان آرٹس کونسل کے گل رنگ میں لگوانا ہے، کچھ چیزیں تو بہت نازک ہیں اور ان کے بنانے والے ان سے بھی زیادہ نازک، ذرا دھیان رکھیے گا۔" ایسے ماحول میں جہاں سب انگریزی زبان میں گفتگو کر رہے تھے، ایک خاتون نے یکدم مجھے مخاطب کر کے کہا۔ میں نے سوالیہ نظروں سے خاتون کی طرف دیکھا۔ بوب کٹ بال، آنکھوں پر چشمہ، صوفیانہ سا حلیہ، چہرے پر پھیلی سچ کی بے باکی، اور چشمے کے پیچھے چھپی آنکھوں میں ذہانت، "یہ سبین ہیں"، شرمین عبید چنائے نے تعارف کرواتے ہوئے کہا، "شناخت میں آرٹ کی نمائش کو یہ ہی دیکھ رہی ہیں۔"

یہ میری سبین سے2007 میں پہلی ملاقات تھی۔ پھر اگلے چھ روز کے لیے ہم سب ایک فیملی کی طرح شناخت کو کامیاب کروانے اور اپنی شناخت بنانے میں جت گئے۔ سبین کے ساتھ چھ روز کام کر کے اندازہ ہوا کہ سبین کس قدر نفیس اور بردبار خاتون ہیں۔ ایک کارپینٹر سے لے کر خاکروب تک سب ہی کے ساتھ عزت سے بات کرتیں اور پیش آتیں، پھر شناخت ختم ہو گیا، اور ہم سب پھر اپنے اپنے مرکز کی طرف لوٹ گئے۔

منصور، ایک کام ہے اور اس کے سلسلے میں ٹی ٹو ایف جانا ہے۔ پتہ ہے نا کدھر ہے؟ عالیہ چغتائی نے کام کرتے کرتے اچانک مجھ سے سوال کیا!

"ہاں مجھے پتہ ہے، میں چلا جاؤں گا"، یہ کہہ کر میں نے ایڈریس بتایا۔ "نہیں اب وہاں سے شفٹ ہو گیا ہے، یہ نیا پتہ ہے اب T2F کا، سبین سے ملنا ہے" عالیہ نے پھر مجھے کہا، "ٹھیک سات بجے تک وہاں پہنچ جانا" اور میں ٹھیک سات بجے سبین سے ملنے پہنچ گیا۔ یہ سبین سے 2007 کے بعد دوسری ملاقات تھی۔

پڑھیے: سبین، جنہوں نے کبھی ہار نہ مانی

2015 میں ہونے والی یہ ملاقات اور سبین بہت مختلف تھے! میں نے سبین کو یاد دلایا کہ کس طرح ہم نے مل کر شناخت میں کام کیا تھا تو وہ فوراً سے پہچان گئیں۔ پھر کام کے سلسلے میں ہماری ایک اور ملاقات ہوئی۔ سبین کراچی میں ٹی ٹو ایف کے نام سے محبت امن اور برادشت کو فروغ دینے میں مصروف عمل تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ چاہتی ہیں شدت پسندی کا جواب امن، برداشت، اور محبت سے دیا جائے، اور اس چیز کا انہوں نے عملی ثبوت بھی دیا۔ کراچی کی عوام کراچی کے لیے کیے جانے والے ان کے تمام کاموں کے گواہ ہیں۔

سبین سے میری تیسری ملاقات ڈان نیوز ٹی وی کے دفتر میں ہوئی، جہاں وہ ہمارے شو 'ذرا ہٹ کے' میں شرکت کرنے کے لیے آئی تھیں۔ یہ ایک سرسری سی ملاقات تھی جس میں میں نے ان سے کہا، کہ اگر کچھ غریب لوگ آپ کے T2Fمیں کوئی سیمنار کرنا چاہیں، اور ان کے پاس دینے کو سوائے دعا کے کچھ نہ ہو، تو کیا آپ اجازت دیں گی؟" ہاں اگر سیمینار کسی ایسے موضوع پر ہے جس سے معاشرے پر کوئی مثبت اثر پڑھ سکتا ہے تو ضرور۔" ہمارے شو کا ٹائم ہو چلا تھا، اور اس بات کو آگے بڑھانے کے لیے وہ مجھے ٹی ٹو ایف آنے کی دعوت دے کر چلی گئیں۔

24 اپریل بروز جمعہ شام کو جب کام کا دباؤ ذرا کم ہوا تو میں نے سوشل میڈیا پر آنے والے پیغامات دیکھنا شروع کیے، اور میری نظر ٹی ٹو ایف کے ایک ایونٹ پر پڑی جہاں بتایا گیا تھا کہ بلوچستان لاپتہ افراد کے سلسلے میں ایک سیمینار ماما قدیر اور دیگر احباب کے ساتھ منعقد کیا جا رہا ہے۔ میں اسے دیکھ کر آگے بڑھ گیا۔ رات گئے جب گھر لوٹا اور اپنے کاموں سے فارغ ہو کر دوبارہ فیس بک آن کی تو سب سے پہلے جس چیز پر نظر پڑی وہ یہ خبر تھی، "سبین محمود کو نامعلوم افراد نے کراچی میں قتل کر دیا۔"

یا اللہ! کیوں؟ آخر کیوں؟ سبین ہی کیوں؟ یہ وہ دوسری سوچ تھی جو میرے دماغ میں گونج رہی تھی۔ بلاشبہ نامعلوم افراد نے کراچی میں معلوم امن اور محبت کی علامت کو قتل کر دیا۔

جانیے: بدتمیز دل سبین

سبین محمود، ہم شرمندہ ہیں، اور ساری عمر شرمندہ رہیں گے، کیونکہ سوائے شرمندہ ہونے کے ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ تمہارے قاتل نامعلوم تھے اور معلوم ہونے کے باوجود بھی نامعلوم ہی رہیں گے۔

مجھے نہیں پتہ کہ اب ٹی ٹو ایف کا کیا ہو گا۔ سبین کی سوچ کو لوگ آگے لے کر چل پائیں گے، یا پھر پانچ گولیوں کے انجام سے ڈر کر اپنی زبان بند کر لیں گے؟ میں نہیں جانتا کہ کب تک اس ملک میں اچھے اور سچ بولنے والے لوگوں کو مارا جاتا رہے گا۔ میں کچھ نہیں جانتا، اور سبین کے انجام کے بعد کچھ جاننا بھی نہیں چاہتا!

منصور مانی

منصور احمد خان صحافت کے شعبے سےتعلق رکھتے ہیں اور ڈان نیوز ٹی وی سے وابستہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

aftab ahmed Apr 28, 2015 10:44am
hadsay say bhar kar saneha ye hua Log hadsa daikh k thehray b nahi. No comments so far . . . . . . . very sad.
mustafa kamal Apr 28, 2015 12:18pm
Main kis k hathon pr apna lahuu talash karun.. Tamam shehar ny pehan rakhay hain dastany..

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024