سوئیڈش اور پاکستانی اسکولوں میں کیا فرق ہے؟
پاکستان کے نظامِ تعلیم کے بارے میں میڈیا میں اکثر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ تعلیمی مسائل اور کارکردگی کے بارے میں ماہرین سے لے کر عام آدمی تک سب اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کرتے رہتے ہیں۔ کوئی کچھ حل پیش کرتا ہے، اور کوئی کچھ۔ کسی کے نزدیک تعلیم اردو میں دی جانی چاہیے، کسی کے نزدیک مادری زبان میں، تو کسی کے نزدیک انگریزی میں۔
لیکن اس بات پر کوئی بھی بحث نہیں کرتا کہ زبان کے علاوہ دیگر کیا چیزیں ہیں، جنہیں درست اور تبدیل کیے جانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے اسکول سسٹم میں اور دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے اسکول سسٹم میں کیا فرق ہے، یہ بہت کم لوگ ہی جانتے ہیں۔
پاکستان کے نظام تعلیم کا بنیادی مسئلہ تدریسی نظام کی بنیاد یعنی اسکول سسٹم کی خرابی ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ تعلیم اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معیار میں اوپر جا رہی ہے، اور پاکستانی یونیورسٹیز کے طلباء دنیا بھر میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ پاکستان کی صفِ اول کی یونیورسٹیز میں وہی کورسز ویسے ہی پڑھائے جاتے ہیں، جیسے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیز میں۔
اسی طرح سوئیڈن بھی اعلیٰ تعلیم میں دنیا میں نمایاں مقام رکھتا ہے اور اس کی تین جامعات دنیا کی سو بہترین یونیوسٹیوں میں شامل ہیں۔ طب، انجینیئرنگ اور دوسرے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے لیے دنیا بھر سے طالب علم یہاں کا رخ کرتے ہیں، لیکن یہ پھر بھی اپنے اسکولوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دے رہا ہے اور موجودہ حکومت نے اسکولوں کے لیے ایک خطیر اضافی رقم مختص کی ہے، جبکہ پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔
پڑھیے: اسلام آباد کا ایک ' ماڈل' اسکول
سوئیڈش وزیراعظم نے اس مقصد کے لیے ایک قومی پلان بنایا ہے کیونکہ ان کے مطابق ملک کا مستقبل اسکول سے شروع ہوتا ہے۔ مجھے پاکستان اور سوئیڈن دونوں کے تعلیمی اداروں سے تحصیل علم کا موقع ملا ہے، اور میرے خیال میں پاکستان میں اسکول کے نظامِ تعلیم کو بہت بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہاں میری مراد بند اسکولوں کو کھلوانے، یا ان میں سہولیات کی عدم موجودگی سے نہیں، بلکہ مجموعی طور پر اس طریقہ تعلیم سے ہے، جو اسکولوں میں رائج ہے کیونکہ جن بچوں کی بنیاد اسکول سے ہی مضبوط ہوگی، انہیں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں مشکلات پیش نہیں آئیں گی۔
اس وقت سوئیڈن کے ہمسایہ ملک فن لینڈ کا اسکول سسٹم دنیا بھر میں بہترین قرار دیا گیا ہے۔ سویڈن اور فن لینڈ کے اسکولوں کا نظامِ تعلیم تقریباََ ایک جیسا ہے۔ یہاں بچے سات سال کی عمر میں اسکول شروع کرتے ہیں۔ نظام تعلیم کی 100 فیصد ذمہ داری حکومت پر ہے۔ نجی اسکول بہت ہی کم ہیں، اور جو ہیں وہ بھی حکومتی سرپرستی اور مالی امداد پر ہیں اس لیے سرکاری اور نجی اسکولوں میں کوئی خاص فرق نہیں، بلکہ عوام کی غالب اکثریت سرکاری اسکولوں کو ترجیح دیتی ہے۔
بچوں کو کتابیں، کاپیاں، پینسلیں، اور دوسری تمام چیزیں مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسکولوں میں بچوں کو دوپہر کا کھانا مفت ملتا ہے۔ نہ بچوں پر غیر ضروری مضامین کا بوجھ لادا جاتا ہے، اور نہ ہی انہیں چھٹیوں میں لکھنے کے لیے کام دیا جاتا ہے بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خوب مزے کریں البتہ مطالعہ ضرور کریں۔
امتحان کی بات آئے تو ہر بچے کی انفرادی جانچ پڑتال ہوتی ہے، اور ہر سال نہ سالانہ امتحانات ہوتے ہیں، اور نہ ہی اول دوم سوم آنے والوں کا اعلان ہوتا ہے۔ تعلیمی میدان میں کمزور بچوں کو اسکول کی جانب سے مفت ٹیوشن پڑھائی جاتی ہے۔
ہر جماعت اور مضمون کے لیے محکمہ تعلیم نے ایک نصاب بنایا ہوا ہے، جس پر اسکول عمل کرتے ہیں۔ پورے ملک میں ایک ہی طرح کے اسکول ہیں اور محمود و ایاز کے بچے ایک ہی صف میں بیٹھے علم حاصل کرتے ہیں۔ اساتذہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور معاشرے میں بلند مقام کے حامل ہیں۔ اساتذہ کی تعلیم و ترقی کے لیے بھی ایک منصوبہ ہوتا ہے تاکہ وہ مزید مؤثر انداز میں بچوں کو پڑھا سکیں۔
مزید پڑھیے: ’تمام مشکلات کے باوجود، میں روز اسکول جاتی ہوں‘
پاکستان اور سوئیڈن کے اسکول کے نظام تعلیم میں جو سب سے بڑا فرق مجھے نظر آیا ہے وہ یہ کہ سوئیڈن میں بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں اجاگر کی جاتی ہیں اور کسی بچے کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا، اُس کی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا ہے، اور اس کی شخصیت کو مزید نشونما دی جاتی ہے۔ انہیں سوچنے، سمجھنے، اور معلومات حاصل کر کے اپنے الفاظ میں بیان کرنا سکھایا جاتا ہے۔
اس کے مقابلے میں اگر پاکستان کے کسی بچے کو کہا جائے کہ کسی موضوع پر دو صفحات لکھو تو اکثریت کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا سارا زور رٹا لگانے پر ہے، اور جو رٹا لگا لیتا ہے، وہ اچھے نمبروں سے پاس ہو جاتا ہے۔
سوئیڈن سے ہمارے ایک دوست نے اپنے بچوں کو پاکستان منتقل کر کے ایک بڑے نجی اسکول میں داخل کروایا، جو پاکستان میں بہترین تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن بچوں نے چند ہی ماہ بعد وہاں کے نظامِ تعلیم سے بیزاری کا اظہار کردیا اور واپس سوئیڈن چلے آئے۔ میرے پوچھنے پر بچوں نے بتایا کہ وہاں رٹا لگا کر جواب نہ دیا جائے تو استاد فیل کر دیتے ہیں اور اگر اپنے الفاظ میں کوئی جواب دیا جائے، تو کہتے ہیں کہ تم زیادہ دانشور بننے کی کوشش نہ کرو۔
دوسرا فرق یہ کہ سویڈن میں ذریعہ تعلیم مقامی زبان ہے، لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے، جس کی وجہ سے بچے ساری عمر مشکل میں پھنسے رہتے ہیں۔ یہاں سوئیڈن میں تارکین وطن کے بچوں کو حکومت کی طرف سے ان کی مادری زبان اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے، اور تاکید کی جاتی ہے کہ بچوں کے ساتھ گھروں میں مادری زبان میں ہی بات کریں تاکہ ان کی صلاحتیں بہتر نشونما پاسکیں، اور اس طرح وہ دوسری زبانیں اور علوم بہتر سیکھ سکیں گے۔
سوئیڈن میں انگریزی دوسری جماعت سے، اور پانچویں جماعت سے کوئی ایک یورپی زبان پڑھائی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پانچ سال بعد بچہ متعلقہ یورپی زبان میں لکھنے پڑھنے کے علاوہ بات چیت کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ انگریزی اب پاکستانی اسکولوں کا ذریعہ تعلیم بن چکا ہے اور دس سال تک بچوں کو اسی میں تعلیم دی جاتی ہے، مگر میٹرک کے بعد بھی طالب علم کیوں انگریزی میں اس اعتماد کے ساتھ بات نہیں کرسکتے جیسے یہاں کے طالب علم کرسکتے ہیں؟
وہاں بڑی فیس لینے والے نجی اسکولوں میں بھی انگریزی اردو میڈیم میں پڑھائی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ اردو میڈیم رہتا ہے اور نہ انگریزی، بلکہ یہ دونوں زبانوں کا ملغوبہ بن گیا ہے۔
جانیے: ڈھائی کروڑ پاکستانی بچے اسکول نہیں جاتے
پاکستان نے اگر ترقی کرنی ہے تو اسکول کے سسٹم کو بہتر کرنا ہوگا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ استاد رکھنے ہوں گے، جنہیں اچھی تنخواہ دی جائیں، اور بچوں کو تعلیمی سہولتیں دینا ہوں گی۔ رٹا لگانے کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی اور اس کا بہترین حل یہ ہے کہ بچوں کو اپنے الفاظ میں جواب دینے کی نہ صرف تربیت دی جائے، بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے۔
ذریعہ تعلیم مقامی زبان ہونا چاہیے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پورے ملک میں ایک طرح کا نظامِ تعلیم اور ایک جیسے اسکول ہونے چاہیئں جن میں ہر طبقے کے بچے ایک ساتھ علم حاصل کریں، تاکہ طبقاتی تفریق ختم ہو سکے۔
تعلیمی پالیسیاں بناتے وقت ان لوگوں سے رہنمائی اور تجاویز لینی ضروری ہیں، جو پاکستان اور دیگر ممالک کے تعلیمی نظام کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اگر دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہے، تو یہ دیکھنا ہوگا کہ دنیا کے قدم کہاں ہیں، اور ہمارے کہاں۔ جب تک اس طرف نہیں سوچا جائے گا، ملک ترقی نہیں کرسکے گا۔
تبصرے (15) بند ہیں