• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:09pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:09pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:27pm
شائع June 1, 2015

'امن و شانتی' کا تباہ حال قلعہ

ابوبکر شیخ

اگر مکلی سے ور غلام اللہ والے راستے پر شمال کی طرف چلے جائیں تو 10 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد مغرب کی طرف ایک اینٹوں کا ڈھیر سا نظر آئے گا۔ پھر روڈ سے مشرق کی طرف ایک پتھریلا ٹیڑھا میڑھا راستہ نکلتا ہے۔ زقوم کی خاردار جھاڑیاں حد نگاہ تک اگی ہوئی ہیں۔ اس دن زقوم کی کچھ جھاڑیوں پر تیز سرخ پھول اگ آئے تھے۔

آپ جیسے دو کلومیٹر کا یہ راستہ طے کر کے پہنچتے ہیں، اور جیسے گاڑی کی آواز بند ہوتی ہے، تو خاموشی کی ایک چادر سی بچھ جاتی ہے۔ آپ سامنے دیکھتے ہیں۔ ایک شاندار قلعہ اور غنیم کے حملے سے بچنے کے لیے ایک مضبوط فصیل کے آثار بکھرے ہوئے ہیں اور ایک وسیع اراضی میں پھیلے ہوئے ہیں۔

اس قلعے نے اپنے پر شاید کبھی قرض نہیں رکھا، اس لیے اس قلعے کی جس نے بھی تھوڑی بہت دیکھ بھال کی، قلعے نے اپنا نام اس ہی کے نام پر تراش دیا۔

'کلیان کوٹ'، 'کلاں کوٹ'، 'تغلق آباد'، 'طغرل آباد'، یہ چاروں نام اسی قلعے کے ہیں۔ آخری بار مرزا طغرل بیگ نے اس قلعے کی مرمت کروائی تھی، تو آج تک زیادہ تر لوگ اس کو 'طغرل آباد' کے نام سے پہچانتے ہیں۔

1860 میں 'رچرڈ برٹن' نے یہ آثار دیکھے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ، 'کلاں کوٹ' سنسکرت کے لفظ 'کلیان کوٹ' سے نکلہ ہے، جس کا مطلب ہے: 'امن اور شانتی والا قلعہ'۔

میں نے جب تاریخ کی ورق گردانی کی، تب مجھے معلوم ہوا کہ امن اور شانتی کی فاختائیں کبھی اس قلعہ کی فصیل پر نہیں بیٹھیں۔ ایم ایچ پنوہر اپنی کتاب "پیرائتی سندھ کتھا" میں لکھتے ہیں: "جام تغلق جس کی حکومت کا زمانہ (1453-1428) تھا، اس نے اس پرانے قلعے کی نئے سرے سے تعمیر 1427 میں شروع کی، مگر اس کو یہ اپنے دورِ حکومت میں مکمل نہ کروا سکا۔ ایسا لگتا ہے کہ دوسرے آنے والے 'جاموں' نے اس کو مکمل کروایا۔

پندرہویں صدی کے بعد شاہوکار اور خوبصورت ترین شہر 'ٹھٹہ' کا یہ ہی دارالحکومت رہا۔ میر علی شیر قانع کی مشہور تصنیف 'مکلی نامہ' کی اگر ورق گردانی کی جائے تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ ٹھٹہ اور مکلی کتنے خوبصورت تھے۔ مکلی پر کئی درویشوں کے مزار تھے، جن پر میلے لگتے اور عرس منائے جاتے۔ ان تقریبات کے لیے دن مخصوص تھے۔ مرد و خواتین کس طرح نئے کپڑے پہن کر، بن ٹھن کر ان میلوں اور اجتماعات میں آتے، بلکہ کئی کئی دنوں تک یہیں رہتے۔ چاندنی راتوں میں جنوب سے ٹھنڈی ہواؤں کا ذکر بھی ہے، اور ساتھ میں بارش کی موسم میں سر اور ساز کے رنگ بکھیرتے ہوئے موسیقی کی محفلوں کا بھی ذکر بڑے رنگین اور شیرین انداز میں ملے گا۔ اور بھی بہت ساری خوبصورتیوں کا ذکر ہے، لیکن ان کا ذکر پھر کبھی سہی۔

کلاں کوٹ کے نصیب میں یہ 'کلیان' شاید تحریر نہیں تھا، اور جہاں ریشہ دوانیوں کی چالیں چلی جائیں، وہاں شاموں کے ٹھنڈے سایوں میں سر اور سکھ کے مور اپنے رنگوں سے بھرے پروں کو کھول کر کبھی نہیں ناچتے۔

"شاہ بیگ ارغون نے پیٹ میں درد کی وجہ سے 'اگھم کوٹ' میں، 26 جون 1524 میں وفات پائی۔ اسی رات اس کے بیٹے شاہ حسن کو بادشاہ مقرر کردیا گیا۔ شاہ بیگ کی موت کا سن کر ٹھٹہ کے لوگوں نے ڈھول تاشے بجائے۔ یہ خبر جب 'شاہ حسن' کو ملی تو وہ 'جام فیروز' کو کھدیڑنے کے لیے 'نصرپور' سے 'ٹھٹہ' کی طرف چل پڑا، "تاریخ طاہری" کے مصنف خواجہ طاہر محمد سبزواری لکھتے ہیں: ''جب شاہ حسن ستمبر 1524 میں ٹھٹہ میں داخل ہوا، تو اس نے قتال کا بازار گرم کر رکھا۔ 'جام فیروز' مدد لینے کے لیے 'کچھ' Kutch (موجودہ ہندوستان) چلا گیا، اور شاہ حسن نے چھ ماہ اس قلعہ میں گذارے۔"

ترخانوں کے 38 برس کے اقتدار کے خاتمے کے آخر میں جب اکبر بادشاہ نے 'خان خاناں' کو سندھ پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا تو 'مرزا جانی بیگ' نے اپنی ہار دیکھ کر کلاں کوٹ میں آکر پناہ لی۔

یہ یقیناً ایک مضبوط قلعہ تھا۔ مغرب کی طرف ایک پانی کی وسیع جھیل ہے، اور اوپر پتلی سرخ اینٹوں کے بنے ہوئے پانی کے دو وسیع تالاب ہیں۔ اب ان تالابوں میں پانی کا نام و نشان تک نہیں ہے، البتہ ایک معصوم قسم کی بغیر کانٹوں والی جھاڑیاں اب ان تالابوں کے کناروں پر اگتی ہیں، جن پر تیز سرخ رنگ کے بڑے عجیب اور خوبصورت پھول سے اگتے ہیں، جن کے اندر شیریں پانی بھرا ہوتا ہے۔

وہ میٹھا لعاب حاصل کرنے کے لیے اس خاموشی میں شہد کی مکھیوں کے پروں کی تیز آواز صاف سنائی دیتی تھی۔ میں نے ایک لکڑہارے سے، جو ایک تالاب میں سے سوکھی جھاڑیاں کاٹ رہا تھا تاکہ ان لکڑیوں کی تپش پر ایک دو وقت کا کھانا پک سکے، اس جھاڑی کا نام پوچھا۔ اس نے کہا: "ہم سندھی میں اس کو 'کرڑ' کہتے ہیں، اس کی لکڑی سے ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کی دوائی بنتی ہے۔ اس کا جو سرخ رنگ کا میوہ ہوتا ہے، وہ کھانے میں میٹھا ہوتا ہے، پر اگر اس کو کچہ توڑ لیا جائے، تو اس کا اچار بھی بناتے ہیں، اور وہ بہت لذیذ ہوتا ہے۔"

کتنی عجیب بات ہے کہ نیچے میٹھے پانی کی جھیل ہے، اور اوپر پانی کے تالاب۔ یہ محض اس لیے بنائے گئے تھے کہ اگر حملے کی صورت میں قلعہ بندی کرنی پڑی تو پانی وافر مقدار میں موجود رہے اور کوئی پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔ اس قلعے کو تسخیر کرنے کی کوششیں ضرور کی گئی ہوں گی مگر جس جگہ پر یہ قلعہ تعمیر کیا گیا ہے، وہاں اسے فتح کرنا یقیناً مشکل رہا ہوگا۔

یہاں ایک پروقار مسجد کے آثار ہیں۔ چھت کب کی گر چکی ہے، اس لیے نیلا آسمان اب ہر وقت نظر آتا ہے۔ 1837 تک یہ یقیناً ایک شاندار مسجد رہی ہوگی۔ اس خوبصورت مسجد کی تزئین کو سینکڑوں برسوں کی دھوپ اور بارشوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اس کی جگہ خطابت، جو اب انتہائی خستہ حالت میں جا پہنچی ہے، اٹھارہویں صدی میں یہ انتہائی نازک و نفیس سنگ تراشی کا نمونہ رہی ہوگی۔ اور وہ کاشی کی اینٹیں جن پر گہرے نیلے رنگ کی خوبصورت پھول پتیاں سی بنی ہوئی ہیں، اب تک ماضی کے خوبصورت دنوں کی یادوں کے سحر میں گم آنکھیں موندے دیوار سے لپٹی ہوئی ہیں۔

رہائشی علاقے کے شاندار محل کے اب فقط نشانات ہیں۔ اینٹیں ہیں جو ہر طرف بکھری پڑی ہیں۔ اگر ان اینٹوں کی زبان ہوتی، تو وہ ضرور ہمیں بتاتیں، کہ یہاں کے شب و روز کیسے گذرے، ان محلوں میں کیا کیا سازشیں بنی گئیں، جیت میں یہاں کیسے جشن منائے جاتے، اور ہار کی صورت میں یہاں غم و اندوہ کے کیسے بادل چھائے رہتے۔

1555 جب پرتگالیوں نے ٹھٹہ کو لوٹ کر 8 ہزار لوگوں کا خون بہا کر جب اس شہر کو آگ لگادی، تو مجھے یقین ہے، کہ 'کلاں کوٹ' کے اس محل سے ٹھٹہ کے آسمان پر جلتے ہوئے شہر کا دھواں ضرور نظر آیا ہوگا۔ مگر جو بادشاہ اپنی عوام اور اپنے شہروں کو اپنا نہیں سمجھتے، تاریخ کی عدالت کا فیصلہ ان کے حق میں کبھی نہیں ہوتا۔ ٹھٹہ آج بھی ہے، پر قلعوں اور محلوں کے نصیبوں میں کبھی نہ ختم ہونے والی ویرانی تحریر کردی گئی ہے۔

میں قلعے کے مغربی حصہ کی طرف گیا، جہاں جھیل کے کنارے ایک قدیم مندر کے نشانات ہیں۔ Limestone کے تراشیدہ پتھر یہ بتاتے ہیں کہ اپنے وقت میں اس جھیل کے کنارے یہ ایک شاندار مندر رہا ہوگا۔ مندر کے جنوب میں کچھ قبروں پر ایک مخصوص قسم کی اینٹوں کی عمارت بنی ہوئی ہے جسے 'تجر' کہتے ہیں۔ اس کی چھت گرچکی ہے۔ فقط دیواریں ہیں، جن کی خستگی دیکھ کر ویرانی اور خاموشی کا احساس اور گہرا ہوجاتا ہے۔ یہ عمارت یقیناً مندر سے بہت بعد کی تعمیر ہے۔

1837 میں مغلوں کے آخری نواب صادق علی خان نے ملک ٹھٹہ دہلی کے مغل شہنشاہ محمد شاہ رنگیلے سے ٹھیکے (تجارتی اجارہ) پر لیا تھا۔ پہلے برس تو رقم یہاں وہاں سے لے کر پوری کی، لیکن دوسرے برس خسارے میں رہا۔ اس کے بعد سندھ کلہوڑا سردار میاں نور محمد کے حوالے ہوا، تو حکومت کا مرکز 'حیدرآباد' منتقل ہوگیا۔ ٹھٹہ کے بازاروں سے وہ گہماگہمی روٹھ سی گئی، اور 'طغرل آباد' کے قلعے پر وقت نے ویرانی اور خاموشی کی چادر تان دی۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (24) بند ہیں

abdul latif Jun 01, 2015 04:32pm
nice article and amazing pictures.. well done
Mustafa Gurgaze Jun 01, 2015 04:39pm
Very informative write up integrated with history, politics, power and romance. The language Mr. Shaikh used is very touchy. For instance, امن اور شانتی کی فاختائیں کبھی اس قلعہ کی فصیل پر نہیں بیٹھیں....... اگر ان اینٹوں کی زبان ہوتی، تو وہ ضرور ہمیں بتاتیں، کہ یہاں کے شب و روز کیسے گذرے، ان محلوں میں کیا کیا سازشیں بنی گئیں، جیت میں یہاں کیسے جشن منائے جاتے، اور ہار کی صورت میں یہاں غم و اندوہ کے کیسے بادل چھائے رہتے 1555 جب پرتگالیوں نے ٹھٹہ کو لوٹ کر 8 ہزار لوگوں کا خون بہا کر جب اس شہر کو آگ لگادی، تو مجھے یقین ہے، کہ 'کلاں کوٹ' کے اس محل سے ٹھٹہ کے آسمان پر جلتے ہوئے شہر کا دھواں ضرور نظر آیا ہوگا۔ مگر جو بادشاہ اپنی عوام اور اپنے شہروں کو اپنا نہیں سمجھتے، تاریخ کی عدالت کا فیصلہ ان کے حق میں کبھی نہیں ہوتا۔ ٹھٹہ آج بھی ہے، پر قلعوں اور محلوں کے نصیبوں میں کبھی نہ ختم ہونے والی ویرانی تحریر کردی گئی ہے۔
rafiq pariyar Jun 01, 2015 04:57pm
bhot piara aur malomati artical hay 1
Mir Hassan Mari Jun 01, 2015 05:09pm
ابوبکر شیخ آپ کھنڈروں سے زندگی ڈھونڈ لاتے ھو ، ویرانوں سے سرگوشیاں ۔ کمال ھے آپ کا بھی
SARFRAZ RAZA HAIDER Jun 01, 2015 05:24pm
Brilliant job done.
sardar bhayo Jun 01, 2015 05:27pm
Your diction is attractive and words let us visited past history where as damaged fort is being re-build itself. It is way to promote history of of ancient Sindh. Abu Bakar Shaikh has written impressive and informative article, please keep up it.
Anwar ul Haq Jun 01, 2015 05:36pm
الفاظ ساتھ نہیں دے رہے ، تحقیق و تحریر کرنے والے کو خراج پیش کرنے کے لیے،بہت عمدہ انداز میں تمام اور مختصر احوال بیان کئیے ہیں۔
Niaz Abbasi Jun 01, 2015 06:38pm
Dear. Abubakar. I liked your article and very nice photos
jamal jalalani Jun 01, 2015 08:35pm
nice ada
jamal jalalani Jun 01, 2015 08:36pm
nice shaik shaib
Saeeda Sager Jun 01, 2015 09:41pm
بہت ہی خوبصورت تحریر شیخ صاحب ہمیشہ کی طرح، مجھے پہلی بار پتہ چلا کہ، کیکٹس پر سرخ پھول کھلتے ہیں آپ کی پوری تحریر خوبصورت ہے، پر یہ جملے لاجواب لگے @ ایک یہ اور جہاں ریشہ دوانیوں کی چالیں چلی جائیں، وہاں شاموں کے ٹھنڈے سایوں میں سر اور سکھ کے مور اپنے رنگوں سے بھرے پروں کو کھول کر کبھی نہیں ناچتے۔ @ دوسرا یہ اور وہ کاشی کی اینٹیں جن پر گہرے نیلے رنگ کی خوبصورت پھول پتیاں سی بنی ہوئی ہیں، اب تک ماضی کے خوبصورت دنوں کی یادوں کے سحر میں گم آنکھیں موندے دیوار سے لپٹی ہوئی ہیں۔ ،،،،،آپ کی تحریر ایک منظر پینٹ کرتی ہے اور وہ منظر زندہ ہوجاتے ہیں۔۔۔۔سر اور سکھ کے مور،،،،،،،،،،،،،یادوں کے سحر میں گم آنکھیں موندے دیوار سے لپٹی ہوئی ہیں،،،،،،،،،اللہ تعالی آپ کو تحریر میں اور رنگ بھرنے کی طاقت عطا فرمائے،،،،آمین،،،،،،،لکھتے رہئے گا،،،،،،
محمد ارشد قریشی (ارشی) Jun 01, 2015 11:38pm
شاندار لاجواب بہت عمدہ اور معلومات سے بھرپور شاہکار ۔ نہ جانے کتنے عظیم ورثے اس طرح تباہی کی طرف گامزن ہیں
Hijab Khan Jun 01, 2015 11:49pm
very nice
shabbir hussain shah Jun 01, 2015 11:55pm
sheik sab aap ki mahnat ka jawab nai photo bahoot achi lagi tarekh k hawaly 5-6 soo saal ki warak gardani masha ALLAH bahoot khoob jety rahoo
rajaabdulhayee Jun 02, 2015 04:16am
i want to see this picture and like to know about that history so where i can found this
Farhaj Ali Khan Jun 02, 2015 06:02am
u must share hypothetical 3D design of this castle ....
Muhammad Safdar Jun 02, 2015 08:16am
dear am very happy after reading this . am also historian & like as that history . am so thank full to you for kind information thanks
Ishtiaq from Calgary Jun 02, 2015 08:59am
Aap ki lekhne ka andaaz aur akas bandi qabel e tareef hai.
imtiaz haque Jun 02, 2015 09:55am
i like ur writing
Munwer Jun 02, 2015 10:24am
Excellent information in attractive words. Thanks
Fida Soomro Jun 02, 2015 02:31pm
This article is nicely linking history with current situation of the fort which is a simple mound except some structural reminiscence of forgotten glory. Out of this article I felt somehow compelled what our institutes are doing particularly those mandated to take care of such sites. There is a bigger span of time between 1837 and 2015 apparently yet the Thatta depicts a bleak picture as if just days ago Kalhoras shifted their regime from here to Hyderabad and the entire Thatta looks like deserted. No doubt, Thatta has always been remained the victim of intruders is there any sigh of being well-off for region and the communities or still they are intent on to demolish the glorious history. Why the world community particularly UNESCO has forgotten such sites why the government of Pakistan (especially Sindh) approached them for the, at least, fortification of such sites from perspective protection. The district Thatta is good for ecotourism along with all administrative units.
Raj Kumar Jun 02, 2015 11:08pm
Abu Bakar, no doubt is a great writer, photographer, archaeologist and composer. i like his hobby to write about history and natural beauty.. well done, Mr. Sheikh carry on
Shah Ali Jun 03, 2015 02:12pm
Zabardast Shaikh Sahib
Abdullah Turk Jun 04, 2015 07:54am
an other Very informative articale whose conect with our rich history with history. its show that Sindh was I again write was,,, a very Rich and Cultured country , its also proved that Abu Baker have power , he can write , justice to subject.