'امن و شانتی' کا تباہ حال قلعہ
اگر مکلی سے ور غلام اللہ والے راستے پر شمال کی طرف چلے جائیں تو 10 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد مغرب کی طرف ایک اینٹوں کا ڈھیر سا نظر آئے گا۔ پھر روڈ سے مشرق کی طرف ایک پتھریلا ٹیڑھا میڑھا راستہ نکلتا ہے۔ زقوم کی خاردار جھاڑیاں حد نگاہ تک اگی ہوئی ہیں۔ اس دن زقوم کی کچھ جھاڑیوں پر تیز سرخ پھول اگ آئے تھے۔
آپ جیسے دو کلومیٹر کا یہ راستہ طے کر کے پہنچتے ہیں، اور جیسے گاڑی کی آواز بند ہوتی ہے، تو خاموشی کی ایک چادر سی بچھ جاتی ہے۔ آپ سامنے دیکھتے ہیں۔ ایک شاندار قلعہ اور غنیم کے حملے سے بچنے کے لیے ایک مضبوط فصیل کے آثار بکھرے ہوئے ہیں اور ایک وسیع اراضی میں پھیلے ہوئے ہیں۔
اس قلعے نے اپنے پر شاید کبھی قرض نہیں رکھا، اس لیے اس قلعے کی جس نے بھی تھوڑی بہت دیکھ بھال کی، قلعے نے اپنا نام اس ہی کے نام پر تراش دیا۔
'کلیان کوٹ'، 'کلاں کوٹ'، 'تغلق آباد'، 'طغرل آباد'، یہ چاروں نام اسی قلعے کے ہیں۔ آخری بار مرزا طغرل بیگ نے اس قلعے کی مرمت کروائی تھی، تو آج تک زیادہ تر لوگ اس کو 'طغرل آباد' کے نام سے پہچانتے ہیں۔
1860 میں 'رچرڈ برٹن' نے یہ آثار دیکھے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ، 'کلاں کوٹ' سنسکرت کے لفظ 'کلیان کوٹ' سے نکلہ ہے، جس کا مطلب ہے: 'امن اور شانتی والا قلعہ'۔
میں نے جب تاریخ کی ورق گردانی کی، تب مجھے معلوم ہوا کہ امن اور شانتی کی فاختائیں کبھی اس قلعہ کی فصیل پر نہیں بیٹھیں۔ ایم ایچ پنوہر اپنی کتاب "پیرائتی سندھ کتھا" میں لکھتے ہیں: "جام تغلق جس کی حکومت کا زمانہ (1453-1428) تھا، اس نے اس پرانے قلعے کی نئے سرے سے تعمیر 1427 میں شروع کی، مگر اس کو یہ اپنے دورِ حکومت میں مکمل نہ کروا سکا۔ ایسا لگتا ہے کہ دوسرے آنے والے 'جاموں' نے اس کو مکمل کروایا۔
پندرہویں صدی کے بعد شاہوکار اور خوبصورت ترین شہر 'ٹھٹہ' کا یہ ہی دارالحکومت رہا۔ میر علی شیر قانع کی مشہور تصنیف 'مکلی نامہ' کی اگر ورق گردانی کی جائے تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ ٹھٹہ اور مکلی کتنے خوبصورت تھے۔ مکلی پر کئی درویشوں کے مزار تھے، جن پر میلے لگتے اور عرس منائے جاتے۔ ان تقریبات کے لیے دن مخصوص تھے۔ مرد و خواتین کس طرح نئے کپڑے پہن کر، بن ٹھن کر ان میلوں اور اجتماعات میں آتے، بلکہ کئی کئی دنوں تک یہیں رہتے۔ چاندنی راتوں میں جنوب سے ٹھنڈی ہواؤں کا ذکر بھی ہے، اور ساتھ میں بارش کی موسم میں سر اور ساز کے رنگ بکھیرتے ہوئے موسیقی کی محفلوں کا بھی ذکر بڑے رنگین اور شیرین انداز میں ملے گا۔ اور بھی بہت ساری خوبصورتیوں کا ذکر ہے، لیکن ان کا ذکر پھر کبھی سہی۔
کلاں کوٹ کے نصیب میں یہ 'کلیان' شاید تحریر نہیں تھا، اور جہاں ریشہ دوانیوں کی چالیں چلی جائیں، وہاں شاموں کے ٹھنڈے سایوں میں سر اور سکھ کے مور اپنے رنگوں سے بھرے پروں کو کھول کر کبھی نہیں ناچتے۔
"شاہ بیگ ارغون نے پیٹ میں درد کی وجہ سے 'اگھم کوٹ' میں، 26 جون 1524 میں وفات پائی۔ اسی رات اس کے بیٹے شاہ حسن کو بادشاہ مقرر کردیا گیا۔ شاہ بیگ کی موت کا سن کر ٹھٹہ کے لوگوں نے ڈھول تاشے بجائے۔ یہ خبر جب 'شاہ حسن' کو ملی تو وہ 'جام فیروز' کو کھدیڑنے کے لیے 'نصرپور' سے 'ٹھٹہ' کی طرف چل پڑا، "تاریخ طاہری" کے مصنف خواجہ طاہر محمد سبزواری لکھتے ہیں: ''جب شاہ حسن ستمبر 1524 میں ٹھٹہ میں داخل ہوا، تو اس نے قتال کا بازار گرم کر رکھا۔ 'جام فیروز' مدد لینے کے لیے 'کچھ' Kutch (موجودہ ہندوستان) چلا گیا، اور شاہ حسن نے چھ ماہ اس قلعہ میں گذارے۔"
ترخانوں کے 38 برس کے اقتدار کے خاتمے کے آخر میں جب اکبر بادشاہ نے 'خان خاناں' کو سندھ پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا تو 'مرزا جانی بیگ' نے اپنی ہار دیکھ کر کلاں کوٹ میں آکر پناہ لی۔
یہ یقیناً ایک مضبوط قلعہ تھا۔ مغرب کی طرف ایک پانی کی وسیع جھیل ہے، اور اوپر پتلی سرخ اینٹوں کے بنے ہوئے پانی کے دو وسیع تالاب ہیں۔ اب ان تالابوں میں پانی کا نام و نشان تک نہیں ہے، البتہ ایک معصوم قسم کی بغیر کانٹوں والی جھاڑیاں اب ان تالابوں کے کناروں پر اگتی ہیں، جن پر تیز سرخ رنگ کے بڑے عجیب اور خوبصورت پھول سے اگتے ہیں، جن کے اندر شیریں پانی بھرا ہوتا ہے۔
وہ میٹھا لعاب حاصل کرنے کے لیے اس خاموشی میں شہد کی مکھیوں کے پروں کی تیز آواز صاف سنائی دیتی تھی۔ میں نے ایک لکڑہارے سے، جو ایک تالاب میں سے سوکھی جھاڑیاں کاٹ رہا تھا تاکہ ان لکڑیوں کی تپش پر ایک دو وقت کا کھانا پک سکے، اس جھاڑی کا نام پوچھا۔ اس نے کہا: "ہم سندھی میں اس کو 'کرڑ' کہتے ہیں، اس کی لکڑی سے ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کی دوائی بنتی ہے۔ اس کا جو سرخ رنگ کا میوہ ہوتا ہے، وہ کھانے میں میٹھا ہوتا ہے، پر اگر اس کو کچہ توڑ لیا جائے، تو اس کا اچار بھی بناتے ہیں، اور وہ بہت لذیذ ہوتا ہے۔"
کتنی عجیب بات ہے کہ نیچے میٹھے پانی کی جھیل ہے، اور اوپر پانی کے تالاب۔ یہ محض اس لیے بنائے گئے تھے کہ اگر حملے کی صورت میں قلعہ بندی کرنی پڑی تو پانی وافر مقدار میں موجود رہے اور کوئی پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔ اس قلعے کو تسخیر کرنے کی کوششیں ضرور کی گئی ہوں گی مگر جس جگہ پر یہ قلعہ تعمیر کیا گیا ہے، وہاں اسے فتح کرنا یقیناً مشکل رہا ہوگا۔
یہاں ایک پروقار مسجد کے آثار ہیں۔ چھت کب کی گر چکی ہے، اس لیے نیلا آسمان اب ہر وقت نظر آتا ہے۔ 1837 تک یہ یقیناً ایک شاندار مسجد رہی ہوگی۔ اس خوبصورت مسجد کی تزئین کو سینکڑوں برسوں کی دھوپ اور بارشوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اس کی جگہ خطابت، جو اب انتہائی خستہ حالت میں جا پہنچی ہے، اٹھارہویں صدی میں یہ انتہائی نازک و نفیس سنگ تراشی کا نمونہ رہی ہوگی۔ اور وہ کاشی کی اینٹیں جن پر گہرے نیلے رنگ کی خوبصورت پھول پتیاں سی بنی ہوئی ہیں، اب تک ماضی کے خوبصورت دنوں کی یادوں کے سحر میں گم آنکھیں موندے دیوار سے لپٹی ہوئی ہیں۔
رہائشی علاقے کے شاندار محل کے اب فقط نشانات ہیں۔ اینٹیں ہیں جو ہر طرف بکھری پڑی ہیں۔ اگر ان اینٹوں کی زبان ہوتی، تو وہ ضرور ہمیں بتاتیں، کہ یہاں کے شب و روز کیسے گذرے، ان محلوں میں کیا کیا سازشیں بنی گئیں، جیت میں یہاں کیسے جشن منائے جاتے، اور ہار کی صورت میں یہاں غم و اندوہ کے کیسے بادل چھائے رہتے۔
1555 جب پرتگالیوں نے ٹھٹہ کو لوٹ کر 8 ہزار لوگوں کا خون بہا کر جب اس شہر کو آگ لگادی، تو مجھے یقین ہے، کہ 'کلاں کوٹ' کے اس محل سے ٹھٹہ کے آسمان پر جلتے ہوئے شہر کا دھواں ضرور نظر آیا ہوگا۔ مگر جو بادشاہ اپنی عوام اور اپنے شہروں کو اپنا نہیں سمجھتے، تاریخ کی عدالت کا فیصلہ ان کے حق میں کبھی نہیں ہوتا۔ ٹھٹہ آج بھی ہے، پر قلعوں اور محلوں کے نصیبوں میں کبھی نہ ختم ہونے والی ویرانی تحریر کردی گئی ہے۔
میں قلعے کے مغربی حصہ کی طرف گیا، جہاں جھیل کے کنارے ایک قدیم مندر کے نشانات ہیں۔ Limestone کے تراشیدہ پتھر یہ بتاتے ہیں کہ اپنے وقت میں اس جھیل کے کنارے یہ ایک شاندار مندر رہا ہوگا۔ مندر کے جنوب میں کچھ قبروں پر ایک مخصوص قسم کی اینٹوں کی عمارت بنی ہوئی ہے جسے 'تجر' کہتے ہیں۔ اس کی چھت گرچکی ہے۔ فقط دیواریں ہیں، جن کی خستگی دیکھ کر ویرانی اور خاموشی کا احساس اور گہرا ہوجاتا ہے۔ یہ عمارت یقیناً مندر سے بہت بعد کی تعمیر ہے۔
1837 میں مغلوں کے آخری نواب صادق علی خان نے ملک ٹھٹہ دہلی کے مغل شہنشاہ محمد شاہ رنگیلے سے ٹھیکے (تجارتی اجارہ) پر لیا تھا۔ پہلے برس تو رقم یہاں وہاں سے لے کر پوری کی، لیکن دوسرے برس خسارے میں رہا۔ اس کے بعد سندھ کلہوڑا سردار میاں نور محمد کے حوالے ہوا، تو حکومت کا مرکز 'حیدرآباد' منتقل ہوگیا۔ ٹھٹہ کے بازاروں سے وہ گہماگہمی روٹھ سی گئی، اور 'طغرل آباد' کے قلعے پر وقت نے ویرانی اور خاموشی کی چادر تان دی۔
— تصاویر بشکریہ لکھاری
تبصرے (24) بند ہیں