مسئلہ کشمیر حل کرنے کا نادر موقع؟
روسی وفاق میں شامل ریاست باشکورتورستان کے دارالحکومت اوفا میں رواں سال جولائی کے مہینے میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سالانہ اجلاس کی تیاریوں کو حتمی شکل دی جا رہی ہے، اور اس امر کا قوی امکان ہے کہ اس اجلاس میں سارک کے دو اہم رکن ممالک پاکستان اور ہندوستان کو تنظیم کی مکمل رکنیت دے دی جائے گی اور سارک کے ہی رکن ملک سری لنکا کو مبصر کی حثیت سے تنظیم میں شامل کر لیا جائے گا۔
یورایشیئن ممالک کی اس تنظیم کو بعض عالمی امور کے ماہرین روس اور چین کا نیٹو کہتے ہیں اور چونکہ اس تنظیم کے بنیادی مقاصد میں معیشت سے زیادہ دفاعی امور، مثلاََ دہشت گردی کے خلاف جنگ، علیحدگی پسند سرگرمیوں کا خاتمہ، اور منشیات کا تدارک شامل ہے، لہٰذا اس میں شامل ہونے والے نئے ممالک یعنی ہندوستان اور پاکستان کو جنوبی ایشیاء کے تاریخی تنازع مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا ایک مؤثر پلیٹ فارم مہیا ہو سکے گا۔
اس مرحلے پر پاکستان کے لیے ایک اہم موقع میسر ہوگا کہ وہ ہندوستان کو اپنے اس نقطے پر قائل کرنے کے لیے دباؤ بڑھائے تاکہ تنازع کشمیر کے حل کے لیے تیسری طاقت کو بطورثالث (علاوہ از کشمیری قیادت) لے لیا جائے۔
پڑھیے: تیسرا فریق اور ہندوستان
ہرچند کہ تنظیم میں شامل دو بڑے ممالک یعنی چین اور روس کے لیے یہ ثالثی کڑوے گھونٹ سے کم نہیں ہوگی کیونکہ روس ہندوستان سے اور چین پاکستان کے ساتھ دفاعی امور پر تاریخی اور ثابت شدہ تعلقات کے مضبوط رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔
مگر یہ نقطہ قابلِ غور ہے کہ اس تنظیم میں شمولیت ہندوستان سے زیادہ پاکستان کے لیے مفید ہو سکتی ہے۔ اس خیال کو اس دلیل کے ساتھ تقویت دی جا سکتی ہے کہ بلاشبہ ہندوستان روس کا تاریخی دفاعی شراکت دار ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ نائن الیون کے بعد کی عالمی دنیا میں امریکا کے ساتھ نہ صرف اسٹریٹیجک معاہدے میں شامل ہوا ہے، بلکہ ایشیائی بحرالکاہل میں بڑھتے ہوئے چین امریکا تنازع میں امریکا کا فطری اتحادی ثابت ہورہا ہے، اور ایشیاء پیسیفک میں ابھرتے ہوئے اس تنازع میں روس کا کردار چین کے حلیف کا ہے، نہ کہ حریف کا۔
لہٰذا چین اور پاکستان کے مضبوط اور تاریخی تعلقات کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہے کہ روس مسئلہ کشمیر کے معاملے پر بجائے ہندوستان کی زبان بولنے کے، جیسا کہ وہ سوویت یونین کے زمانے میں کر چکا ہے، اب چین کی زبان استعمال کرے، اور یہ امر عالمی معاملات پر نگاہ رکھنے والوں سے مخفی نہیں ہے کہ مسئلہ کشمیر پر چین کی زبان کیا ہوا کرتی ہے۔
یہ ذکر ضروری ہے کہ چین ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے باشندوں کو نہ صرف ہندوستانی پاسپورٹ کے بجائے عام کاغذ پر ویزا جاری کرنے کا اعلان کر چکا ہے، بلکہ ہندوستانی وزیرِ اعظم مودی کے حالیہ دورہ چین میں یہ سفارتی تنازع بھی عالمی پریس کی سرخیوں کا حصہ تھا کہ چین کے سرکاری ٹیلی ویژن پر دکھائے گئے ہندوستانی نقشے میں کشمیر اور اروناچل پردیش کی ریاستیں شامل نہیں تھیں۔
پڑھیے: 'مذاکرات کے لیے تیار ہیں'
ہندوستانی میڈیا اور دفتر خارجہ کی جانب سے اٹھائے گئے شدید اعتراض کے باوجود بھی چین نے نہ تو اس معاملے پر کوئی معذرت کی اور نہ ہی اسے سفارتی سطح پر کوئی اہمیت دی۔
اب جبکہ معاملہ دفاع اور معیشت جیسے اہم اور باہمی جڑے ہوئے امور کے تنازع کا ہے، تو ہندوستانی قیادت کی جانب سے معیشت کے پلڑے میں زیادہ توجہ نے پاکستان کے لیے ایک کھڑکی کھولی ہے کہ وہ ہندوستان کی جانب سے اس پیچیدہ پہیلی کو حل کرنے سے پہلے شنگھائی تعاون تنظیم میں روس کو امر پر قائل کرے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کی اس تنظیم میں شمولیت اسی صورت میں مؤثر ہو سکتی ہے کہ پہلے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں پاس کی گئی قراردادوں کی روشنی میں حل کیا جائے۔
روس اگر اس معاملے پر ہندوستان کی پارٹی بننے کے بجائے صرف اس تنظیم کے مقاصد سے مخلص کردار ادا کرے تو بہت امکان ہے کہ پاکستان اور ہندوستان بھی اس مسئلے کے حل کی کسی مخلصانہ کوشش کا حقیقی حصہ بننے پر راضی ہو جائیں، کیونکہ شملہ معاہدے کے بعد پاکستان اور ہندوستان نے اس تنازع کے حل کے لیے اگر کوئی مخلص کوشش کی بھی ہے تو وہ ہمیشہ معاہدے کی اس شق پر آ کر بے اثر ہو جاتی ہے کہ دونوں ممالک آپسی تنازعات کو کسی بھی تیسری طاقت کو شامل کیے بغیر حل کریں گے۔
مگر 44 سال گزرنے کے بعد اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ معاملہ دوطرفہ مذاکرات کے نتیجے میں اول تو حل ہوتا ہوا نظر نہیں آتا اور اگر اس کا کوئی حل دوطرفہ مذاکرات کے نتیجے میں حاصل کر بھی لیا گیا تو وہ مثبت سفارتکاری کی کوئی اچھی مثال نہیں ہو گی۔
پڑھیے: شملہ معاہدے کو یاد کریں
شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل رکن ممالک، جن میں چین اور روس کے علاوہ وسط ایشیاء کی پانچ ریاستیں اور مبصرین ممالک میں پاکستان کے علاوہ ہندوستان، افغانستان، ایران، اور منگولیا شامل ہیں، اگر اس کے مستقل ممبران کی تعداد میں اضافہ جولائی کے پہلے عشرے میں ہوتا ہے، جیسا کہ امکان ہے کہ ایران کو بھی اس تنظیم کی مستقل رکنیت دی جا سکتی ہے، تو پاکستان کے لیے لازم ہے کہ وہ کشمیر کے معاملے پر جارحانہ سفارتکاری کرتے ہوئے نہ صرف روس اور وسط ایشیائی ریاستوں کو اعتماد میں لے، بلکہ ایران کو بھی اس امر پر قائل کیا جائے کہ وہ نہ صرف اس معاملے پر اپنے روایتی موقف کو اپنائے، بلکہ انسانی ہمدردی کے ناطے اور او آئی سی کے ممبر ہونے کی حیثیت سے اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے لیے اپنی کوشش کرے۔
پسِ نوشت: جدید زمانے میں کامیاب ریاست وہی ہوتی ہے جس میں ریاستی معاملات کو چلانے کے لیے متعلقہ وزارتیں فعال کردار ادا کرتی ہیں۔ نجانے پاکستان کے خارجہ معاملات چلانے کے لیے حکومت کو وزارت استعمال کرنے کا ضروری خیال کب آئے؟ شکر ہے کہ یہ فوج بھی ہے ورنہ اللہ جانے کیا بنتا؟