12 آئیڈیاز جن کے مالک ارب پتی بن گئے
عام طور پر ہر 10 میں سے نو کاروباری آئیڈیاز ناکام ہوجاتے ہیں مگر جو کامیاب ہوتے ہیں ان میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے اور وہ ہے ان کا زبردست ہونا۔
ایسے ہی چند زبردست خیالات کے بارے میں جانے جنھیں پیش کرنے والے افراد غربت کی سطح سے نکل کر ارب پتی بن گئے اور اب دنیا کے امیر ترین افراد میں شمار ہوتے ہیں۔
اور ان میں ایسے نام بھی شامل ہیں جن کے بارے میں آپ نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وہ کبھی غریب بھی ہوسکتے تھے۔
گوگل کے بانی لیری پیج اور سرگئی برن
لیری پیج اور سرگئی برن امریکا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالبعلم تھے جب وہ پہلی بار ایک سرچ انجن کے آئیڈیا کے ساتھ سامنے آئے۔ تاہم ان کا یہ خیال اس وقت مارکیٹ میں موجود دیگر سرچ انجنز سے مختلف تھا، یہ سرچ انجن صرف کی ورڈز ہی نہیں بلکہ ویب پیجز کے لنکس میں سرچ کی جانے والی چیز کی مناسب اور نمبر کا تجزیہ بھی کرسکتا تھا۔ اب دو طالبعلموں کا پیش کردہ گوگل سرچ انجن انٹرنیٹ پر راج کررہا ہے اور یہ کمپنی سینکڑوں ارب ڈالرز کی مالک بن چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دنیا کے مقبول ترین موبائل فون پلیٹ فارم (آنڈرائیڈ) اور دنیا کی سب سے مقبول ترین ویڈیو ویب سائٹ (یو ٹیوب) کو بھی چلا رہے ہیں جبکہ دیگر انوکھی ایجادات بھی سامنے آتی رہتی ہیں جیسے گوگل گلاس وغیرہ، دلچسپ بات یہ ہے کہ لیری پیج اور سرگئی برن دونوں اس لگ بھگ تیس، تیس ارب ڈالرز کے مالک بن چکے ہیں۔
مارک زیوکربرگ
مارک زیوکربرگ ہاورڈ میں انڈر گریجوٹ تھے جب وہ ایک فیس میش نامی ویب سائٹ کے خیال کے ساتھ سامنے آئے۔ اس سائٹ کے ذریعے مارک زیوکربرگ نے سیکھا کہ کس طرح ٹیکنالوجی کو لوگوں کو آن لائن کنکٹ کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور پھر انہوں نے ایک سائٹ دی فیس بک ڈاٹ کام متعارف کرائی۔ بعد ازاں اس ویب سائٹ کا نام تبدیل کرکے فیس بک رکھ دیا گیا اور ایک دہائی کے اندر اندر یہ ڈھائی سو ارب ڈالرز کی کمپنی کی شکل اختیار کرگئی، ذاتی طور پر مارک زیوکربرگ خود 35 ارب ڈالرز سے زائد کے مالک ہیں۔
مائیکل بلوم برگ
مائیکل بلوم برگ 1970 کی دہائی میں وال اسٹریٹ کے ٹریڈر تھے تاہم اس زمانے میں انہیں احساس ہوا کہ مالیاتی کمپنیاں قابل اعتبار کاروباری معلومات کے لیے بڑی رقم ادا کرنے کے لیے تیار رہتی ہیں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے ایک ایسا کاروبار متعارف کرایا جو اہم مالیاتی معلومات کمپیوٹر ٹرمینلز کے ذریعے فوری طور پر مہیا کرنے کا کام کرتا تھا۔ اب اس کمپنی کو سالانہ 8 ارب ڈالرز سے زائد کی آمدنی ہورہی ہے اور یہ دنیا کی طاقتور ترین میڈیا اور مالیاتی معلومات مہیا کرنے والی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ مائیکل بلوم برگ بھی اس کے نتیجے میں 37 ارب ڈالرز کما کر دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک بن چکے ہیں۔
جیف بیزوز
جیف بیزوز نوے کی دہائی میں ایک امریکی کمپنی میں ملازم تھے جب انہوں نے اپنی کمپنی کھولنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم کوئی کاروبار سمجھ میں نہیں آتا تاہم آن لائن بک اسٹور کو متعارف کرانے کا خیال ان کے دل کو بھا گیا۔ اب کی یہ کمپنی آمیزون کے نام سے دنیا بھر میں آن لائن خریداری کی مقبول ترین سائٹ بن چکی ہے جس کی مالیت دو سو ارب ڈالرز سے زائد جبکہ سالانہ فروخت 88 ارب سے زیادہ کی ہے۔ جیف بیزوز کی ذاتی دولت کا تخمینہ بھی 38 ارب ڈالرز سے زائد کا لگایا جاتا ہے۔
لیری ایلیسن
جنوبی شکاگو میں پلنے بڑھنے والے لیری کا بچپن مشکل حالات میں گزرا اور مالی مشکلات کے باعث دو بار کالج سے نکلنا پڑا۔ مگر ساٹھ کی دہائی کے وسط میں جب لیری نے کیلیفورنیا منتقل ہونے کا فیصلہ کیا تو ایک ڈیٹا بیس پروگرامنگ لینگویج ایس کیو ایل سے متعلق رپورٹ نے انہیں اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے ایس کیو ایل کو اپنا کر اوریکل ڈیٹا بیس کی تشکیل دی جو کہ آئی بی ایم برانڈ سے ہٹ کر دیگر کمپیوٹرز پر کام کرسکتا تھا۔ کچھ ہی برسوں میں اوریکل مقبول ترین ڈیٹابیس پروگرام کی شکل میں ابھر کر سامنے آیا اور اب اس کی مالیت 195 ارب ڈالرز سے زائد ہیں جبکہ اس کے بانی لیری ایلیسن میں 65 ارب ڈالرز کے اثاثوں کے ساتھ دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہیں۔
بل گیٹس
یہ سال 1975 کی بات ہے جب بل گیٹس اور پال ایلن نامی نوجوانوں نے مائیکرو کمپیوٹر کی ابتدائی قسم الٹیئر 8800 کو تیار کیا جس کے لیے انہوں نے ایک پروگرامنگ لینگویج تیار کی جسے بیسک کا نام دیا گیا بعد ازاں انہوں نے مائیکروسافٹ نامی کمپنی کو تشکیل دیا جس کے ذریعے ایک آپریٹنگ سسٹم ڈوز تیار کیا گیا اور آئی بی ایم کو اس کا لائسنس دیا گیا۔ کچھ سال بعد مائیکروسافٹ نے اس بہتر آپریٹنگ سسٹم ونڈوز تیار کیا اور اس کے بعد سے وہ دنیا کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں سے ایک ہے جو کہ پرسنل کمپیوٹر اور سافٹ ویئر مارکیٹ پر راج کررہی ہے۔ اس کے 370 ارب ڈالرز کا کاروبار سروسز اور ڈیٹا سینٹرز کے ساتھ ساتھ ویڈیو گیمز اور موبائل فونز پر بھی چل رہا ہے جبکہ بل گیٹس 80 ارب ڈالرز کے قریب کے اثاثوں کے ساتھ دنیا کے امیر ترین شخص قرار دیئے جاتے ہیں۔
مارک کیوبن
مارک کیوبن نوے کی دہائی میں ایک انٹرنیٹ کمپنی چلارہے تھے اور ایک کمپنی براڈکاسٹ ڈاٹ کام کو ترقی دے رہے تھے جس کے دوران انہوں نے سیٹلائیٹ نشریات کو وی پر نشر کرنے کے آئیڈیا کو اپنا لیا، کچھ عرصے بعد مارک نے براڈ کاسٹ ڈاٹ کام 5.7 ارب ڈالرز کے عوض یاہو کو فروخت کردی۔ اب یہ کمپنی تو موجود نہیں مگر مارک کیوبن تین ارب ڈالرز کے اثاثوں کے ساتھ غربت سے امارات کی سیڑھیاں چڑھنے والے کامیاب ترین افراد میں سے ایک ضرور مانے جاتے ہیں۔
جیک ما
جیک ما کو 1995 میں امریکا کا دورہ کرنے پر انٹرنیٹ سے دلچسپی پیدا ہوئی اور جلد ہی انہوں نے دو انٹرنیٹ کمپنیوں کا آغاز کیا تاہم وہ ناکام ثابت ہوئیں مگر ان کی تیسری کوشش جسے انہوں نے علی بابا کا نام دیا ہٹ ثابت ہوئی۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں برآمد کنندگان اپنی اشیاءکو صارفین کو براہ راست فروخت کرسکتے ہیں۔1999 میں اس کمپنی نے اپنے سفر کا آغاز کیا اور صرف پندرہ سال کے عرصے میں یہ علی بابا امریکی اسٹاک مارکیٹ میں سرفہرست آگئی اور اب اس کی مالیت دو سو ارب ڈالرز سے زیادہ ہے جبکہ جیک ما کے اپنے اثاثوں کی مالیت 24 ارب ڈالرز سے زیادہ ہوچکی ہے۔
جان کوم
جان کوم نے اپنے شراکت دار برائن ایکٹن کے ساتھ مل کر ایک ایسی فون بک اپلیکشن تیار کرنے کی کوشش کی جو لوگوں کے ناموں کے اسٹیٹس اپ ڈیٹس کے سامنے شو ہو، جس میں مختلف چیزیں جیسے مقامات یا یہ پتا چلے سکے کہ مذکورہ شخص فون پر مصروف ہے یا نہیں، وغیرہ ظاہر ہوسکے۔ بعد ازاں اس اپلیکشن کو واٹس ایپ کا نام دے کر اس میں فیچرز اور نوٹیفکیشنز کو شامل کیا گیا اور میسجنگ پلیٹ فارم کی شکل دے دی گئی۔ یہ اتنی مقبول ثابت ہوئی کہ 2014 میں فیس بک نے 19 ارب ڈالرز کے عوض اسے خرید لیا جبکہ اس کے متحرک صارفین کی تعداد اب 800 ملین سے زیادہ ہے جبکہ جان کوم کے ذاتی اثاثوں کی مالیت 6.8 ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔
جیری یانگ اور ڈیوڈ فلیو
امریکی یونیورسٹی جیری یانگ اور ڈیوڈ فلیو ویب سائٹس کی ایک لغت تیار کرنے کے خیال کے ساتھ سامنے آئے اور انہوں نے جیری اینڈ ڈیوڈز گائیڈ ٹو دی ورلڈ وائیڈ ویب کو متعارف کرایا۔ اس کے سامنے کے ایک سال بعد ہی یہ دنیا کی مقبول ترین ویب سائٹس میں سے ایک بن گئی اور انہوں نے اس کا نام تبدیل کرکے یاہو رکھ دیا جو کہ آج کی دنیا مین سب سے بڑے ویب پورٹلز میں سے ایک ہے۔ اس کی مارکیٹ ویلیو 38 ارب ڈالرز سے زائد ہے۔ تاہم جیری یانگ اس کمپنی کے ساتھ نہیں بلکہ اپنی ایک کمپنی چلارہے ہیں اور ان کے اثاثوں کی مالیت دو ارب ڈالرز ہے۔ اس کے مقابلے میں ڈیوڈ فلیو اب بھی یاہو بورڈ کا حصہ ہیں اور ان کے اثاثے تین ارب ڈالرز سے تجاوز کرچکے ہیں۔
مائیکل ڈیل
ٹیکساس یونیورسٹی میں دوران تدریس مائیکل ڈیل نامی نوجوان کو احساس ہوا کہ سیلز مین کو ایک طرف کرکے صارفین کو کمپیوٹرز فروخت کرنے کا ایک براہ راست طریقہ موجود ہے۔ انہوں نے ڈیل کے نام سے ایک کمپنی تشکیل دی جو کہ پی سی کے تمام پارٹس کو اسمبل کرکے کم قیمتوں پر فروخت کرنے کا کام کرتی تھی۔ اس کمپنی نے پہلے سال ہی 60 لاکھ ڈالرز کمائے اور جلد ہی کمپیوٹرز کی فروخت میں نمایاں اضافہ ہوا اور 2001 میں یہ دنیا کی سب سے بڑی کمپیوٹر بنانے والی کمپنی بن گئی۔ مائیکل ڈیل نے 2013 میں 24.9 ارب ڈالرز ادا کرکے اس کمپنی کو ایک بار پھر نجی ملکیت میں حاصل کیا اور اب بھی ان کے اثاثے اٹھارہ ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہیں۔
نک ووڈ مین
سرفنگ کے شوقین نک ووڈ مین کی خواہش تھی کہ لہروں پر سرفنگ کرنے والے افراد اپنی بہترین تصاویر لینے کے قابل ہوسکیں لہذا انہوں نے برسوں کی محنت کے بعد گو پرو نامی کیمرے کا پہلا ورژن متعارف کرایا اور جلد ہی یہ ڈیوائس سب کو بھاگئی۔ گو پرو نامی یہ کیمرہ گزشتہ سال عوام کے لیے پیش کیا گیا اور اب اس کمپنی کی مالیت 7.8 ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہے اور نک ووڈ مین کی ذاتی دولت بھی ڈھائی ارب ڈالرز سے تجاوز کرچکی ہے۔
تبصرے (10) بند ہیں