'حسین شاہ کی داستان بیک وقت المیہ اور متاثر کن'
ہم نے متعدد بار کھیلوں پر مبنی فلموں میں دیکھا ہے کہ ایک باصلاحیت مگر وسائل سے محروم شخص کو ایک استاد چن لیتا ہے اور تربیت کی چکی سے گزر کر وہ بتدریج فاتح کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ ایک باکسر کی رنگ میں کامیابی اس کی زندگی کے سابقہ مشکل حالات پر اس کی فتح کی علامت ہوتی ہے، یا شکست خوردہ چیمپئن اپنے اندر نئی ہمت پیدا کرکے آخری مقابلے کے لیے تیار ہوتا ہے اور وہ اسے جیتا بھی ہے۔
ان کہانیوں سے ہم متاثر کیوں ہوتے ہیں اس کے پیچھے ایک وجہ بھی ہے اور وہ ہے ان کا حقیقی ہونا۔
نئی پاکستانی فلم کا ایک ٹریلر حال ہی میں سوشل میڈیا پر منظرعام پر آیا جو کہ معمول کی کامیڈی یا ایکشن فلموں کی طرح نہیں بلکہ ایک سابق پاکستانی اولمپیئن باکسر سید حسین شاہ کی سوانح حیات پر مبنی ہے۔
یہ باکسنگ کہانی ہم میں سے ایک فرد کی اپنی مایوسی پر فتح کی داستان بیان کرتی ہے۔ کراچی کے علاقے لیاری کے باکسنگ رنگز اور احاطوں پر شوٹ ہونے والی اس فلم ' شاہ' کا عزم ہے کہ وہ بیان کرے کہ کیسا گلی کوچوں میں پھرنے والا وسائل سے محروم بچہ پاکستان کا ایک قومی ہیرو بن کر ابھرا۔
میوزک سے ڈائریکشن کا رخ کرنے والے عدنان سرور نے 'شاہ' کا مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس فلم کے باکسنگ مقابلوں کے مناظر ٹریلر کی حد تک تو متاثر کن ہیں، اس میں تمام لوکیشنز مقامی ہیں اور سینمافوٹوگرافی کمال کی ہے۔
باکسنگ مقابلوں میں سنسنی
عدنان سرور بتاتے ہیں کہ " میرے بچپن کی اولین یادوں میں سے ایک رات رات بھر جاگ کر حسین شاہ کے سیول اولمپکس (1988) میں باکسنگ دیکھنا تھی، وہ میرے ابتدائی ہیروز میں سے ایک ہیں اور یہ حقیقت کہ انہیں پاکستانی عوام اور میڈیا نے فراموش کردیا کسی نہ کسی طرح میرے اندر زندہ رہی"۔
وہ بتاتے ہیں کہ تین سال قبل 2012 میں جب وہ ایک اور فلم پر کام کررہے تھے تو انہیں ایک دوسرے پراجیکٹ کو ڈائریکٹ کرنے کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ وہ حسین شاہ کی زندگی پر فلم بنائیں گے اور عدنان نے پروڈیوسرز کو اپنی توجہ باکسنگ چیمپئن کی جانب مبذول کرنے پر قائل کرلیا۔
یہ تو ایک ' آسان' کام تھا مگر دوسری جانب حسین شاہ کی تلاش ایک چیلنج ثابت ہوا۔
صرف انسان اور اس کا عزم ہی بقاءکی جدوجہد میں کامیاب ہوتا ہے
عدنان سرور کے مطابق "حسین شاہ کو تلاش کرنے میں تین ماہ کا عرصہ لگا جب ہم نے یہ کرلیا تو بس یہ کام باقی رہ گیا تھا کہ ریکارڈر آن کریں اور ان سے اپنی کہانی بیان کرنے کی درخواست کریں، یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ حسین شاہ کی داستان بیک وقت المیہ اور متاثر کن ثابت ہوئی"۔
عدنان سرور نے اس فلم کا اسکرین پلے 2012 میں خود تحریر کیا " فلم میں بیشتر ڈائیلاگز حسین شاہ کے انٹرویوز سے لیے گئے ہیں، اسکرین پلے کو بھی لیجنڈ باکسر نے کلیئر کیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ہم ان کی نجی زندگی سے دور رہ سکیں اور اپنی توجہ بطور باکسر ان کے سفر پر مرکوز رکھ سکیں۔ اس کے بعد میں نے ان کے ساتھ کئی سیشنز کیے تاکہ ان کے انداز، باڈی لینگویج اور شخصیت کو سمجھ سکو"۔
محدود بجٹ کے ساتھ پروڈکشن کے لیے وہ فلم میں بڑے ناموں کو کاسٹ کرنے کا بوجھ نہیں اٹھاسکتے تھے، تاہم انہوں نے لیاری سے ہی مکمل کاسٹ کو لیا تاکہ فلم کو زیادہ مستند بنایا جاسکے۔
چیلنجز سے ابھرنا
یہ سوال اب بھی باقی تھا کہ کس طرح عدنان جو میوزک سے اداکاری کے میدان میں آئے، نے خود کو ایک باکسر کے کردار کی جسمانی ضروریات کے لیے تیار کیا ؟ اس حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ پہلے انہوں نے بے گھر ایتھلیٹ کا جائزہ لیا " حسین شاہ انٹرنیشنل سرکٹ کے دبلے پتلے باکسرز میں سے ایک تھے، مجھے ان کے روپ میں ڈھلنے کے لیے دس کلو گرام مسلز اور چربی کو ختم کرنا تھا جو کہ ایک مشکل کام تھا۔ مجھے زیادہ کھانے کی اجازت نہیں تھی اور میں ہر وقت بھوکا رہتا تھا، اس سے مجھے اس کردار سے جڑنے میں مدد ملی کیونکہ اسی طرح کی زندگی حسین شاہ نے گزاری تھی"۔
عدنان کا مزید کہنا تھا " میری تربیت باکسنگ ڈرلز، دوڑ اور دیگر ٹریننگ پر مشتمل تھی۔ میرا کھیلوں کا پس منظر ہونے کی وجہ سے باکسنگ قدرتی طور پر مجھے آتی تھی مگر سب سے مشکل کام حسین شاہ کے مخصوص انداز کو سیکھنا تھا"۔
کیا عدنان فلم سے قبل باکسنگ میں دلچسپی رکھتے تھے ؟ تو اس کا جواب ان اپنے الفاظ میں یہ ہے " درحقیقت مجھے اس طرح کے کسی کھیل میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، مجھے موٹر اسپورٹس میں دلچسپی تھی جو گزشتہ دس سال سے میری توجہ کا مرکز ہے"۔
باکسر سے ہٹ کر حسین شاہ کی شخصیت کا کونسا حصہ ایسا تھا جس کے بارے میں عدنان کو احساس ہوا کہ اسے اجاگر کرنا چاہئے ؟ عدنان اس بارے میں بتاتے ہین کہ حسین شاہ جب گلووو اتار دیتے تھے تو وہ ایک بالکل مختلف شخصیت کے روپ میں سامنے آتے"۔
“رنگ سے باہر حسین شاہ کسی خوفناک لڑاکے کے روپ میں سامنے نہیں آئے"
عدنان کے بقول " وہ حقیقی زندگی میں بہت شریف اور ہر طرح کے حالات سے آسانی سے گزر جانے والے شخص ہیں، مگر ایک نرم گو شخص کا رنگ کے اندر قاتلانہ صلاحیت رکھنے والے باکسر کے روپ میں ڈھل جانا میرے لیے ان کی شخصیت کا سب سے اہم پہلو تھا"۔
" میں نے اس پراجیکٹ کے لیے اپنی زندگی کے تین سال لگائے"۔
اس فلم کی بیشتر شوٹنگ کراچی اور لاہور میں ہوئی جبکہ مجموعی طور پر عکسبندی کا سلسلہ آٹھ ماہ تک جاری رہا تاہم اس کی تیاری اور تحقیق دو سال تک ہوئی، عدنان اس بارے میں بتاتے ہین " فلم کی مجموعی لاگت 1.7 کروڑ روپے ہے جس سوفیصد ہمارے کارپوریٹ برانڈ پارٹنرز نے فراہم کیا، یہ بجٹ اس کہانی کے سامنے بہت کم ہے جو ہم نے بیان کرنے کی کوشش کی ہے مگر ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کے عوام ہماری بجٹ مشکلات کے حوالے سے ہمدردی کا مظاہرہ کریں گے"۔
ان کا مزید کہنا تھا " ہمارا پراجیکٹ حسین شاہ کی کہانی کو سامنے لانا تھا اور اس کے لیے ہمیں بڑے پیمانے پر پروڈکشن کی نمائش کی ضرورت نہیں تھی۔ گمنام اور پہلی بار فلم بنانے والوں کے گروپ کے طور پر یہ ہمارے لیے باعث فخر ہے"۔
فلم کی ٹیم بھی کافی چھوٹی تھی اور محض سات افراد پر مشتمل تھی اور ڈائریکٹر کے اپنے الفاظ کے مطابق "ہم ایک یونٹ کی شکل میں اکھٹے کام کرتے تھے"۔
آرٹ ڈائریکشن، وارڈ روب اور پبلسٹی ڈیزائن سونیا اعجاز کے ذمے تھا، زبردست فوٹو گرافی کا کام عمر دراز اور حسن زیدی نے سنبھالا جن میں سے حسن زیدی اس وقت نیشنل کالج آف آرٹس میں زیرتعلیم ہیں۔ پروڈکشن منیجمنٹ کا شعبہ فرحان علی، میک اپ کا مدیحہ قیصر اور ایڈیٹنگ و پوسٹ پروڈکشن کا کام طاہر علی نے کیا۔
آخر میں ڈائریکٹر نے انکشاف کیا کہ ان میں سے کسی فرد کو فلم میں اداکار کے طور پر کاسٹ نہیں کیا گیا۔
" مجھ سمیت تمام باکسرز نے حقیقی باکسنگ کے مقابلے کیے"۔
عدنان بتاتے ہیں " فلم میں کچھ بھی فرضی نہیں، لیاری کے باکسنگ کلبز سے باکسرز کو لیا گیا اور وہ سب قومی سطح کے مکے باز تھے"۔
ان کا مزید کہنا تھا " باکسرز کو مجھے مارنے کی اجازت تھی تاہم ناک آﺅٹ کرنے کی نہیں کیونکہ ہم فلم کے شیڈول میں تاخیر کا بوجھ نہیں اٹھاسکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مقابلے کے بعد مجھے اپنے زخموں پر قابو پانے کے لیے کچھ دن لگتے تھے، مجھے پسلیوں پر زخم بھی آئے مگر وہ سب قیمتی تھے"۔
عدنان قہقہہ لگاتے ہوئے بتاتے ہیں " میرے باکسنگ کوچ چاہتے ہیں کہ میں باکسنگ کو جاری رکھوں اور مقابلوں میں شرکت کروں کیونکہ ان کے خیال میں، میں اچھی باکسنگ کرلیتا ہوں، مگر باکسنگ کو پس پشت ڈالنے پر خوش ہوں"۔
تبصرے (5) بند ہیں