• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

'باجی دروازہ کھولیں، میں مر رہی ہوں'

شائع January 4, 2016 اپ ڈیٹ January 5, 2016

اسے ایک ٹھنڈے بیت الخلاء میں بند کیا گیا تھا۔ اس کی مدد کی کمزور پکاریں رات کی تاریکی میں کھڑکی سے باہر جا رہی تھیں اور اکثر بند کانوں پر گر رہی تھیں۔ اس کی مصیبت زدہ زندگی بے حس پڑوسیوں کی مہربانی سے اس وقت تک ایسے ہی چلتی رہے گی جب تک وہ کسی 'حادثاتی' موت کا شکار نہیں ہو جاتی۔

راولپنڈی کنٹونمنٹ کے قلب میں ایک کم عمر ملازمہ جس کی عمر بارہ سال سے زیادہ نہیں ہوسکتی، غفلت اور برے سلوک کی شکار ہے۔ وہ اکثر راتوں کو مدد کے لیے گھنٹوں تک روتی رہتی ہے۔

میں پہلی بار اس کی بے بسی کو سنتا رہا۔

آج رات میں نے پولیس کو فون کیا۔

میں ان دنوں راولپنڈی آیا ہوا ہوں۔ چوبیس دسمبر کو نماز فجر سے قبل میری آنکھ بچی کی مدد کی پکار کے باعث کھلی۔

وہ بارہ ربیع الاول تھی، ایسا دن جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت پر شکرگزاری کا اظہار اور خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ میں علی الصبح توپوں کے گولے داغنے کو سن سکتا تھا ممکنہ طور پر یہ خصوصی دن کے اعزاز کے لیے تھا۔ مگر میں نے صرف یہی نہیں سنا۔

سرد رات کی خاموشی کو چیرتی مدد کی پکار بھی گونج رہی تھی۔

' باجی، دروازہ کھولیں، میں یہاں مر رہی ہوں'۔

میں اٹھ کر برآمدے میں گیا اور اس پکار کی جگہ کا تعین کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت تک میرے میزبان بھی جاگ گئے تھے۔ ہم نے باہر کی روشنیاں جلائیں اور پڑوسیوں کے بیت الخلاء کے قریب کھڑے ہوگئے جہاں سے بچی کی پکاریں ابھر رہی تھیں۔

میرے میزبانوں نے مجھے بتایا کہ آہ و زاری کرنے والی بچی ممکنہ طور پر پڑوسی کے گھر میں کام کرنے والی کم عمر ملازمہ ہوسکتی ہے۔ یہ کرائے دار پڑوسی وسطی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ میرے میزبان دیگر ایسے ملازمین کو بھی جانتے ہیں جو ان پڑوسیوں کے خراب رویے کے باعث کام چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ بچی بہت کم عمر تھی جسے اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا یا وہ اپنے دفاع سے قاصر تھی۔ وہ بس رو سکتی تھی جب اسے ایک ٹھنڈے بیت الخلاءمیں سونے کے لیے بند کر دیا جاتا۔

میں نے اپنے میزبان اور گلی کے چوکیدار کو اپنے ساتھ لیا اور چوبیس دسمبر کو پڑوسی کے گھر پر دستک دی۔ اس وقت صبح کے پانچ بجے تھے۔

میری جانب سے زوردار دستکوں کے باوجود کوئی بھی دروازے پر نہیں آیا۔ اس وقت بچی کی پکاریں بھی تھم گئی تھیں۔

گزشتہ رات وہی سب کچھ دوبارہ ہوا۔ بچی نے رات ڈھائی بجے کے لگ بھگ رونا شروع کیا۔

میں نے چیخ کر بچی کو جواب کے لیے پکارا، مگر وہ خاموش رہی۔

میں نے پڑوسیوں سے رابطہ کیا مگر وہ بہرے بنے رہے۔

اس اثناء میں بچی مسلسل مدد کے لیے چیختی رہی۔

' باجی، دروازہ کھولیں، میں یہاں مر رہی ہوں'۔

میں نے انٹرنیٹ پر کسی ایسے ادارے کو سرچ کیا جو بچوں پر مظالم کی روک تھام کا ذمہ دار ہو پر کوئی کامیابی نہیں ہوئی. میں نے اپنے میزبانوں سے پوچھا مگر انہیں بھی کسی این جی او یا حکومتی ادارے کے بارے میں معلومات نہیں تھی جسے ہم مدد کے لیے فون کرسکیں۔

آخرکار میں نے مقامی پولیس اسٹیشن کو فون کیا۔ خوش قسمتی سے پولیس نے جواب میں ایک موبائل بھیج دی۔

میں نے اس معاملے کی وضاحت پولیس کے سامنے کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ایک ہفتے کے دوران دوسری بار ہوا ہے۔ وہ میرے ہمراہ پڑوسیوں کے دروازے پر پہنچے۔ پولیس نے بیل بجائی۔ اس وقت صبح کے تین بج کر 45 منٹ ہوئے تھے۔

اس بار پڑوسی کی بیوی نے جواب دیا۔ اس خاتون نے اسی وقت پولیس سے کہا کہ گھر میں کوئی مرد نہیں اور تمام مرد اہلکاروں پر مشتمل پولیس ٹیم کو گھر میں داخلے سے روک دیا۔ اس نے پولیس کو بتایا کہ یہ اس کی اپنی بچی تھی جو رو رہی تھی۔ ایسی بچی جو اپنی ماں کو 'باجی' کہتی ہے۔

پولیس نے پڑوسی کی بیوی کو مشورہ دیا کہ ان کا گھرانا مقامی پولیس اسٹیشن میں رجسٹر نہیں جو کہ اب کرائے داروں کے لیے لازمی شرط ہے۔ پولیس ٹیم مزید کسی اقدام کے بغیر وہاں سے چلی گئی تاہم ہمیں یہ کہہ گئی کہ وہ دن میں کسی وقت واپس آئے گی اور گھر کے مردوں سے بات کرے گی۔

اگر یہ واقعہ میرے شہر ٹورنٹو میں پیش آتا، تو چائلڈ پروٹیکشن سروسز حرکت میں آتیں۔ وہ کم عمر ملازمہ کو وہاں سے نکالتے اور اسے اپنے سینٹر میں رکھتے۔ یہاں تک کہ اگر حقیقی والدین پر بھی بچوں پر مظالم کا شبہ ہو تو ریاست فوری طور پر بچے کو اپنی تحویل میں لے کر اس وقت تک رکھتی ہے جب تک معاملے کی تفتیش نہ ہوجائے۔ اگر بچہ بعد ازاں والدین کے پاس واپس چلا جائے تو بچوں کے تحفظ کا کوئی ادارہ اس گھرانے میں جانا معمول بناکر اس بچے کی بھلائی کا تعین کرتا ہے۔

ایسا نہیں کہ کینیڈا میں بچوں پر مظالم نہیں ہوتے۔ کچھ بچے ایسی جگہوں پر پھنس جاتے ہیں جہاں ریاست اور معاشرہ ان کے تحفظ میں ناکام ہوجاتا ہے۔ جیفری بالڈون ایسا ہی پانچ سالہ بچہ تھا جس کے قانونی سرپرست اس کے نانا نانی تھے، اور وہ فاقہ کشی کے باعث موت کے منہ میں چلا گیا۔ وہ نظام جو اس کا محافظ ہونا چاہئے تھا، اسے بچانے میں ناکام رہا۔

پاکستان میں ایسے لاکھوں جیفری بالڈون ہیں جنھیں ریاست اور معاشرے دونوں کی مدد کی ضرورت ہے۔

کم عمر گھریلو ملازمین زیادہ بدقسمتی کا شکار ہیں۔ وہ خاموش معاشرے کی سپاٹ آنکھوں کے سامنے مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں مارا جاتا ہے اور بھوکا اور غیر انسانی حالات میں رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ انہیں شہروں میں دیہات سے لایا جاتا ہے جہاں ان کے والدین اکثر بخوشی حوالے کر دیتے ہیں تاکہ ایک بچے کا پیٹ نہ بھرنا پڑے۔

پاکستان کے لیے خوش قسمتی یہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف خود ایک شفیق دادا اور نانا ہیں جو اس طرح کے مظالم کے واقعات پر درد مندی کے ساتھ ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ کم عمر گھریلو اور کمرشل ملازمین پر مظالم کے پھیلتے سلسلے کی روک تھام کے لیے وفاقی حکومت کو ایک قومی ہیلپ لائن متعارف کروانی چاہیے جہاں اچھے شہری کال کرکے ظلم کی رپورٹ درج کروا سکیں۔ اسے بالکل آسان ہونا چاہیے جیسے 15 یا 1122 سے رابطہ کرنا۔

اگرچہ مددگار جیسے ادارے موجود ہیں، مگر انہیں قومی سطح پر نہیں جانا جاتا اور ان کے پاس قانونی اختیارات بھی نہیں جو کسی ظلم کے شکار بچے کو بچانے کے لیے استعمال کیے جاسکیں۔ بچوں کے تحفظ کے لیے نئے ادارے کے قیام کو عمل میں لاکر بچے کو بلاتاخیر متاثرہ جگہ سے نگہداشت کے مرکز میں منتقل کرنا ترجیح دینا ہوگا۔ مظلوم بچوں کے تحفظ کے لیے قومی پروگرام کے حوالے سے ایدھی کی مدد بھی عارضی طور پر لی جانی چاہیے۔ یونیسیف کو بھی دنیا بھر میں اس طرح کی بہترین مثالوں پر مشتمل پروگرام کو ڈیزائن کرنے کے لیے شامل کیا جانا چاہیے۔

پڑوسی کے گھر میں جو بچی رات میں پکارتی ہے اور اس کی طرح کے ہزاروں بچوں کو فوری طور پر ہماری توجہ اور نگہداشت کی ضرورت ہے۔ ہماری بے حسی ان بچوں کے لیے سزائے موت کے مترادف ہوسکتی ہے۔ وہ ہوسکتا ہے ایک دن نمونیا کے باعث مرجائے مگر اس کی موت کی حقیقی وجہ ظلم، بے حسی اور غفلت ہوگی۔

اس بچی کی طرح کے بدقسمت بچے ہر روز مرتے ہیں اور تدفین کے لیے واپس دیہات منتقل کر دیے جاتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ طبعی موت نہیں مرے بلکہ ان کا قتل ہوا ہے۔

ہماری خاموشی ہمیں بھی مجرم بناتی ہے۔ خاموشی کو توڑیں اور وزیر اعظم سے آج اقدام کا مطلبہ کریں تاکہ ان بچوں کو بچایا جاسکے جو ابھی زندہ ہیں۔

راولپنڈی میں پکارتی بچی کے لیے میری توقع ہے کہ آئندہ سال بارہ ربیع الاول پر وہ کسی بند بیت الخلاء میں رونے کی بجائے کسی محبت کرنے والے خاندان کی نگہداشت میں ہوگی۔

انگلش میں پڑھیں.


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

مرتضیٰ حیدر

مرتضیٰ حیدر ٹورنٹو میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، اور regionomics.com کے ڈائریکٹر ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: regionomics@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (14) بند ہیں

Sajjad Khalid Jan 04, 2016 03:17pm
بہت تکلیف دہ حقیقت ہے۔ ہم سب کے کانوں تک ایسی آوازیں پہنچتی ہیں۔ کچھ لوگ خود خوف میں مبتلاء ہو جاتے ہیں کہ ایسا کرنے سے کہیں ان کو برے نتائج کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کچھ لوگ منافقت کی وجہ سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ پاکستان بے انصافی میں پستا ہؤا جنگل کے قانون کے تحت چلنے والا ایک معاشرہ ہے۔ ہمیں بچوں کے الگ ادارے کی نہیں مظلوموں کی دادرسی کے لئے انصاف پر مبنی نظام کی ضرورت ہے ورنہ ایسے ادارے بن کر بھی طاقتور کی مرضی سے چلتے ہیں اور چلتے رہیں گے۔ ریاست کے لئے کام کرنے والے ملازمیں بھی اپنی ذاتی زندگی میں اکیلے اور بے یارومددگار ہوتے ہیں۔ وہ کسی ایڈونچر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اور اگر جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر کسی مظلوم کی مدد کر بیٹھیں تو یہ نظام انہیں دوسروں کے لئے نشانِ عبرت بنا دیتا ہے۔
فدا حسین Jan 04, 2016 03:25pm
اس صورتحال پر کسی شاعر کے اس روباعی سے بہتر کوئی تبصرہ نہیں کیا جا سکتا؎ عجب رسم ہے ہے چارہ گروں کی محفل میں لگا کر زخم نمک سے مساج کرتے ہیں غیریب شہر تو ایک نوالے کو ترستے ہیں امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں
Muhammad Arif Jan 04, 2016 04:11pm
Child Protection and Welfare Bureau is already working in Punjab Helpline 1121
نجیب احمد سنگھیڑہ Jan 04, 2016 06:13pm
پولیس نے گھر میں مرد نہیں ہے، جملے کو درست مان کر اپنی نااہلی کو آشکار کیا ہے۔ پولیس سیانی ہوتی تو عورت کی بات کو سچ ماننے سے پہلے عورت کو پردہ کر لینے کا کہہ کر گھر کی تلاشی ضرور لیتی کہ واقع ہی مرد کوئی نہیں ہے اور بچی کی چیخ و پکار کسی طاقت کے استعمال کا نتیجہ تو نہیں۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ مظلوم چیخ و پکار کر رہا ہو اور پولیس پردہ سسٹم اپنا لے۔ محلہ داروں کی خاموشی ان کی بزدلی ہے۔
Naveed Jan 04, 2016 06:37pm
Story is interesting, but from where the comparison between Canada and Pakistan came? People who left Pakistan are not Pakistani, why are they discussing things like this.
avarah Jan 04, 2016 07:13pm
When the crime is going to happen the police can check it using women police as well_ ? How posible police came without lady police?
Arslan Jan 04, 2016 08:16pm
Sir i agree k pakistan main koi aisi org nhi hai jo really loogon k haqook ki Awaz bulnd kr saky...Yahan tou koi b idara apna kaam nhi kr raha mai rooz schoota hun k hum ny is mulk ko kai sy kai bna diya hai..... Mari opnion main tou is mulk ko chlny k liye sirf 4 cheezon ko koi theek sy analyze kr k fix krny ka promise kr ly tou yeh mulk theek ho jaie ga or koi b is tarha zulm nhi kry ga or koi b zulm nhi sahey ga.... 1)Police system 2)judicial system with strong lower judiciary 3)Education system not only Course 4)Local bodies system not like we have been provided after 7.5years yehi wo cheezain hain jo is mulk mai Hakooq or insaaf ko prevail kr skty hain.
Imran khan Jan 04, 2016 08:37pm
@Naveed Naveed sahab agar burai ko burai nahi keh sakte to kam se kam dil me to bura jane. Insan ko sab se pehle insan banna chahiye na ki Pakistani ya Canadian. I hope u understand.
Faisal Jan 05, 2016 01:29am
Heart touching story . May Allah pak send an angel or change the minds of peoples , put them on rah e hidayt . Human being is everywhere canada or pakistan .
Usman Razzaq Jan 05, 2016 02:53am
Murtaza Haider did well at his end. As i have experienced many times in my life that Pakistanis pretend as big lovers of Prophet Muhammad (PBUH) but in fact they are selfish. They neither help troubled persons nor raise the voice against tyranny. But you can see their passion for celebrating the Eid Melad ul Nabi on every year. This is simply individual matter but as far as concern to the Gov't policies for child protection, the always try to find out the way from where they can earn more money rather than addressing the citizens' issues. The biggest child abuse starts from their homes, because they get the services of children as baby sitter, who take care of their infants and they enjoy the dinner at lavish restaurants. I appreciate Mr. Murtaza Haider for his courageous initiative.
Naveed Jan 05, 2016 02:43pm
@Imran khan Sorry to Imran, but you need to understand, Canada have different problems Pakistan have different, there is no comparison between them. if you want to see or want to solve the problems of Canada have a look at some Canadian local news papers and try to understand. Canada is not a heaven where all angels are living where ever humans are living there are problem but of different nature. If some one have to compare Pakistani problems one must compare on equal grounds, compare with India or any other neighboring country . Compare Canadian problems with America rather then Pakistan, i hope you understand the difference.....
Shaista Jan 05, 2016 02:54pm
Well done, you didn't do practically and just wrote an article.
shahneellah.adnan Jan 05, 2016 03:46pm
I had to visit Lahore yesterday 4.1.2016 after 8 months and on shokat khanam round about I have seen posters containing a complaint number for children who are victims of domestic violence it was 1121 ...I wish this matter is taken seriously throughout the country.
Naveed Jan 05, 2016 07:00pm
@Shaista The Good One!

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024