• KHI: Maghrib 5:50pm Isha 7:12pm
  • LHR: Maghrib 5:06pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:06pm Isha 6:35pm
  • KHI: Maghrib 5:50pm Isha 7:12pm
  • LHR: Maghrib 5:06pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:06pm Isha 6:35pm
شائع February 17, 2016

کسی ریگستان سے اگر بارش روٹھ جائے تو برسوں تک وہاں زندگی کے آثار دکھائی نہیں دیتے، اور ریگستان میں پانی کے بنا زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ تپتی ریت پر جینے والے یہ لوگ قحط کی صورت میں پانی والے علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور اپنے ساتھ اپنے پالتو جانور بھی لے چلتے ہیں۔

جیسے ہی قدرت مہربان ہوتی ہے اور بادل برستے ہیں تو بے جان ریت میں گھاس اگتے ہی زندگی لوٹ آتی ہے۔ درختوں کی شاخوں پر نئی کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں، پرندے چہچہاتے ہیں، ریت کے ٹیلے اور خالی میدان گھاس اور پودوں کی سبز چادر اوڑھ کر کئی آنکھوں کو اس بات کا پیغام دیتے ہیں کہ جانے والے لوٹ آئے ہیں۔ ضلع سانگھڑ کے علاقے 'اچھڑو تھر' (سفید تھر) کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ اسے اچھڑو تھر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہاں کی ریت سفید رنگت کی ہے۔

یہاں ہر طرف ریت ہے، مگر ریت کے ٹیلوں کے دامن میں چند ایسی بھی جھیلیں ہیں جہاں سے نمک نکلتا ہے۔ ہوا چلتی ہے تو ریتیلے میدان کی سطح سے ریت اس طرح اڑتی ہے، جیسے کوئی سانپ رینگ رہا ہو۔ میں جس جھیل کی جانب گیا تھا، اسے نمک والی جھیل کہا جاتا ہے مگر اس کا نام ایک نمبر جھیل بھی ہے۔ یہ جھیل آٹھ ایکڑ تک پھیلی ہوئی ہے۔

اچھڑو تھر میں کئی جھیلوں میں سے نمک نکلتا ہے.
اچھڑو تھر میں کئی جھیلوں میں سے نمک نکلتا ہے.
یہاں کے زیادہ تر رہائشی جھیل سے نمک نکالنے کا کام کرتے ہیں.
یہاں کے زیادہ تر رہائشی جھیل سے نمک نکالنے کا کام کرتے ہیں.
جھیلوں کی سطح پر نمک ٹھوس صورت میں موجود رہتا ہے.
جھیلوں کی سطح پر نمک ٹھوس صورت میں موجود رہتا ہے.

جھیل میں قدم رکھتے ہی ایک عجیب سا احساس ہونے لگا۔ کہیں پانی تھا، کہیں نمک کے ذرات، کہیں سخت فرش تو کہیں مخمل کی طرح نرمی محسوس ہوئی۔ دور سے ایسا لگا کہ سردیوں کی وجہ سے جھیل کا پانی برف بن کر جم گیا ہے۔ مگر قریب جانے پر معلوم ہوا کہ جسے ہم برف سمجھ رہے تھے وہ نمک کی سخت سطح تھی۔

ان ریت کے ٹیلوں کے دامن میں ایسی آٹھ جھیلیں ہیں جن سے نمک نکالا جاتا ہے۔ وہی نمک، جس کے بغیر ہمارے تمام لذیذ کھانے ادھورے ہیں۔ میں جب جھیل میں اترا تو اس وقت مزدور اپنے کام میں مصروف تھے۔ کہیں نمک کھود کر نکالا جا رہا تھا، کہیں اسے خشک کرنے کے لیے جمع کیا جا رہا تھا، تو کہیں بوریوں میں بند کیا جا رہا تھا۔

ایک جانب میرے چاروں اطراف ریت کے بڑے بڑے ٹیلے تھے تو جھیل میں نمک کے چھوٹے چھوٹے ٹیلے تھے، جن کی سفیدی آنکھوں کو بھا رہی تھی۔ نمک کی جھیل میں پاؤں رکھتے ہی مجھے اس بادشاہ کی وہ لوک داستان یاد آ گئی جو اپنی سات بیٹیوں سے ان کے پیار کی آزمائش لیتا ہے۔

جب وہ سوال کرتا ہے کہ اس کی بیٹیاں اس سے کتنا پیار کرتی ہیں تو کوئی کہتی کہ بادشاہ شہد جتنا میٹھا ہے، کوئی کہتی ہے کہ مصری جتنا میٹھا ہے تو کوئی یہ کہہ کر پیار کا اظہار کرتی ہے کہ بادشاہ گڑ جتنا میٹھا ہے، مگر سب سے چھوٹی بیٹی اس سے کہتی ہے وہ نمک جتنا میٹھا ہے، جس کے بعد بادشاہ غصے میں آکر اسے محل بدر کر دیتا ہے۔

حالات کا مارا بادشاہ ایک دن اسی بیٹی کے دروازے پر پہنچ جاتا ہے۔ تب اسے احساس ہوتا ہے کہ نمک جیسا میٹھا ہونے کا مطلب کیا ہے اور نمک کی اہمیت کیا ہوتی ہے۔ اسی لوک کہانی کو شیکسپیئر نے 'کنگ لیئر' کے نام سے لکھا، جو کہ شیکسپیئر کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک ہے۔

جھیلوں کی سطح پر نمک ٹھوس صورت میں موجود رہتا ہے.
جھیلوں کی سطح پر نمک ٹھوس صورت میں موجود رہتا ہے.
جھیل سے نکالا گیا نمک سوکھنے کے لیے رکھا ہے.
جھیل سے نکالا گیا نمک سوکھنے کے لیے رکھا ہے.
سخت محنت سے نکالا گیا نمک جس کے بغیر ہمارے تمام لذیذ کھانے ادھورے ہیں.
سخت محنت سے نکالا گیا نمک جس کے بغیر ہمارے تمام لذیذ کھانے ادھورے ہیں.

اچھڑو تھر میں پانی کی کئی جھیلیں اور بہاؤ ہیں مگر جہاں جہاں سیم ہے وہاں کی زمین نمک پیدا کرنے میں کافی بہتر ہے۔ بارشیں پڑنے کے بعد یہ جھیلیں پانی سے بھر جاتی ہیں اور نمک کی سطح سے مل کر بارشوں کا پانی اور بھی زیادہ نمک پیدا کرتا ہے۔ ایک صحرا میں ایسی جھیل اور سورج کی کرنیں اس کا پانی جذب کرتی رہتی ہیں، جس کے بعد پانی کو نمک بننے میں دیر نہیں لگتی۔

آچر کولہی جھیل پر کام کرنے والا ایک ایسا مزدور ہے جسے بس اتنا پتہ ہے کہ اس کے مقدر میں بس نمک نکالنا اور نمک صاف کرنا ہے۔ پہلے پہلے وہاں پر میری ملاقات اسی سے ہی ہوئی تھی۔ اس کے ہاتھوں، ٹانگوں اور بازوؤں پر نمک کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اگر میں اسے کھرچتا تو اس کے جسم سے شاید صرف نمک ہی نکتا۔ میں نے جب اس کے پیروں کی جانب دیکھا تو مجھے چند سبز رنگ کے نشانات نظر آئے۔

"یہ آپ کے پیروں کو کیا ہوا ہے، کیا لگا رکھا ہے؟" میں نے اس سے پوچھا۔

"صاحب یہ صمد بونڈ ہے، میرے پاؤں میں اسی جھیل میں کام کرتے کرتے زخم ہو جاتے ہیں تو میں صمد بونڈ لگا لیتا ہوں، کچھ اور چیز نمک میں ٹک نہیں سکتی، اس لیے صمد بونڈ لگانے کے بعد پانی زخموں کے اندر نہیں جا سکتا اور پھر کام کرنے میں دقت نہیں ہوتی"، وہ سوال کا جواب دینے کے بعد مجھے جھیل کے اور اندر لے گیا۔

"مگر یہ تو کوئی علاج نہ ہوا، صمد بونڈ نہ تو کوئی دوا ہے اور نہ ہی مرہم۔"

"وہ آپ کے لیے نہیں ہوتا ہوگا۔ ایک نمک مزدور کو یہاں دوا اور مرہم نہیں ملتے، بس ہم اپنے زخموں کو اس نمک والے پانی سے بچا لیں، وہی بہت ہے۔" وہ مجھے نمک کے ڈھیر کی جانب لے گیا جہاں اسے بوریوں میں بند کیا جا رہا تھا۔

آچر کولہی کا خاندان کئی نسلوں سے یہی کام کر رہا ہے.
آچر کولہی کا خاندان کئی نسلوں سے یہی کام کر رہا ہے.
نمکین پانی میں کوئی مرہم نہیں ٹکتا، اس لیے صمد بونڈ سے کام چلانا پڑتا ہے.
نمکین پانی میں کوئی مرہم نہیں ٹکتا، اس لیے صمد بونڈ سے کام چلانا پڑتا ہے.
خشک ہوجانے کے بعد نمک کو بوریوں میں بند کیا جا رہا ہے.
خشک ہوجانے کے بعد نمک کو بوریوں میں بند کیا جا رہا ہے.
یہاں رہنے والے زیادہ تر خاندان نمک نکالنے کے کام سے وابستہ ہیں.
یہاں رہنے والے زیادہ تر خاندان نمک نکالنے کے کام سے وابستہ ہیں.

آچر بچپن سے اس کام میں ہے، صبح 6 بجے سے شام کے 6 بجے تک وہ کام میں لگا رہتا ہے۔ وہ پھاوڑے سے نمک کی وجہ سے سخت بن جانے والے جھیل کے جسم کو کھودتا ہے، اسے باریک کرتا ہے، اسے پانی سے صاف کرتا ہے اور پھر بوریوں میں بند کرتا ہے۔ مجھے اس بات پر حیرت ہوئی جب اس نے بتایا کہ اسے ایک بوری بھرنے کی اجرت صرف ڈیڑھ روپے ملتی ہے۔ ایک دن میں سو بوریاں بھرنے کے اسے ڈیڑھ سو روپے ملتے ہیں۔ میں نے جب اسے کہا کہ یہ تو بہت کم مزدوری ہے، تو اس نے آنکھیں جھکا لیں۔

"ہاں بہت کم ہے، گزارا بھی نہیں ہوتا، مگر کیا کریں یہاں تو اتنا ہی ملتا ہے،" یہ کہہ کر وہ پانی سے نمک صاف کرنے لگا۔

"اس سے بہتر نہیں کہ تم کوئی اور کام کرو، جس میں کچھ پیسے زیادہ مل جائیں؟"

"کون سا اور کام؟ میرا باپ بھی اسی جھیل میں نمک صاف کرتا تھا، میں بھی یہیں نمک کھودتا ہوں، شاید میرے بیٹے کے حصے میں بھی یہی کام آئے گا، اپنی زندگی تو نمک ہو گئی ہے صاحب"۔ اس کی آنکهوں میں مایوسی ظاہر ہو رہی تھی اور آواز ہلکی ہوگئی۔

میرے چہار سو نمک ہی نمک تھا۔ مگر نمک تو آچر کی آنسوؤں کے پانی میں بھی ہوگا جو شاید اس نے میرے سامنے اس لیے نہیں بہائے تھے کہ وہ اپنے آپ کو کمزور نہیں دکھانا چاہتا تھا۔

جھیل میں نمک کا کام سارا سال جاری رہتا ہے۔ یہ نمک سارے ملک میں بھیجا جاتا ہے، جہاں اسے اور بھی بہتر کیا جاتا ہے مگر کوئی بھی نمک کا ٹھیکیدار آچر جیسے مزدروں کی اجرت بڑھانے کو تیار نہیں۔ آچر کا گھر بھی اسی جھیل کے کنارے ہے جہاں وہ اپنے بچوں کے ساتھ رہتا ہے۔ گھر کیا ہے، ایک دو جھونپڑیاں، جہاں پینے کا پانی بھی میسر نہیں ہے، پانی لانے کے لیے بھی انہیں ہرن کی طرح اس صحرا میں بھٹکنا پڑتا ہے۔

جھیل کی سطح کو غور سے دیکھنے کے بعد کسی مقام پر ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے سطح پر شریانیں ابھر آئی ہوں اور نمک ان شریانوں میں خون کی مانند بہہ رہا ہو۔ آچر مجھ سے بات چیت کرتے وقت بھی اپنے کام میں مصروف عمل تھا۔ میرے لیے نمک کی سخت سطح پر چلنا مشکل تھا۔ اب مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ آچر کے زخم کیسے ہوں گے جن کے لیے کوئی مرہم بھی دستیاب نہیں ہے۔ اور جب اس جھیل میں کام کرنے والے مزدور کے پیروں میں زخم بن جائیں تو نمک والا پانی گوشت کو گلانے میں دیر نہیں کرتا۔

میں جب تک وہاں تھا، ہر ایک کو اپنے کام میں مصروف دیکھا۔ ہر ایک کو اس بات کی فکر تھی کہ اگر آج کام پورا نہ ہوا تو مزدوری نہیں ملے گی۔ آچر کولہی کو بھی یہ فکر تھی کیونکہ پاس ہی اس کی جھونپڑی میں اس کے بچے اس کا انتظار کر رہے تھے۔

نمک کی بوریاں تیار کرنے کے بعد انہیں ٹرکوں کے ذریعے ملک کے دیگر شہروں میں بھیجا جاتا ہے، اور اسی طرح ایک دن کا کام تمام ہوتا ہے۔ دوسری صبح آچر جیسے کئی مزدور پھر نمک کی جھیل میں اتر کر نمک بن جاتے ہیں۔

نمک کی بوریاں اب بھیجے جانے کے لیے تیار ہیں.
نمک کی بوریاں اب بھیجے جانے کے لیے تیار ہیں.
یہاں سے نکالا گیا نمک ملک بھر میں بھیجا جاتا ہے.
یہاں سے نکالا گیا نمک ملک بھر میں بھیجا جاتا ہے.

اردو کے عظیم افسانہ نگار کرشن چندر نے افسانہ 'پانی کا درخت' شاید انہی نمک کے مزدوروں پر لکھا تھا، جو نمک کا کام کرتے کرتے نمک بن جاتے ہیں۔ جس میں بانو کی محبت روتی ہے، کیونکہ محبت صرف نمک ہی نہیں تھوڑا سا میٹھا پانی بھی چاہتی ہے۔

ان مزدوروں کی زندگی کو دیکھ کر لگا کہ ان کی زندگی میں بس نمک کا ذائقہ ہی رہ گیا ہے۔ ان کی آنکھوں میں خوشی کی جھلک نظر نہیں آتی اور ایسا لگتا ہے کہ ان کی بے بسی نے انہیں خوشیوں کے ذائقوں سے محروم کر دیا ہے۔ میں جھیل کو دیکھتا رہا اور مجھے بس کرشن چندر کی کہانی کا ایک اقتباس یاد آنے لگا جس میں انہوں نے لکھا تھا:

"میرے دل کے اندر نمک کے کتنے بڑے ڈلے اکٹھے ہوگئے تھے. میرے دل کے اندر نمک کی ایک پوری کان موجود تھی۔ نمک کی دیواریں، ستون، غار اور کھارے پانی کی ایک پوری جھیل۔ میرے دل اور دماغ اور احساسات پر نمک کی ایک پتلی سی جھلی چڑھ گئی تھی اور مجھے یقین ہو چلا تھا کہ اگر میں اپنے جسم کو کہیں سے بھی کھرچوں گا تو آنسو ڈھلک کر بہہ نکلیں گے اس لیے میں چپ چاپ بیٹھا رہا۔"

— تصاویر بشکریہ لکھاری۔


اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر ریے ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے.

اختر حفیظ

اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر رہے ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (29) بند ہیں

Imran Gandhi Feb 17, 2016 01:52pm
Very Nice, Feeling Tearfull, Kiya ye mumkin hai k End of article is k english link ko mansion kr diya jae,
عدنان Feb 17, 2016 02:42pm
زبردست اختر صاحب
Noreen Feb 17, 2016 02:59pm
wonderful article
Naveed Feb 17, 2016 04:16pm
Pakistan has abundant Natural Resources, all we need to manage them!
Abubakar Shaikh Feb 17, 2016 04:51pm
اچھی تصویریں۔۔اور اچھی تحریر اختر حفیظ کی۔
ali saleem Feb 17, 2016 05:32pm
gr8
Marjan khan Feb 17, 2016 05:47pm
Nice work done. Unusual topic.
santosh Meghwar Feb 17, 2016 05:52pm
زبردست اختر حفيظ صاحب
وسیم رضا Feb 17, 2016 05:54pm
یہ تحریر ہمارے ارباب اختیار خصوصا وزیر اعلی سندھ کو ضرور پڑھنی چاہئے۔
Santosh Meghwar Feb 17, 2016 05:57pm
زبردست اختر حفيظ صاحب بهترين انتخاب
samo Shamshad Feb 17, 2016 06:11pm
It is sorrowful Story that how people survive. It is very hard work but income iz zero. where are human activists and who raise voice for these people. So, come forward and do something for these people. Nice article of Akhtar Hafeez.....
Zaman Kunbhar Feb 17, 2016 06:24pm
Great work.. Thanks Akhtar Hafeez.. You are such a prolific writer..
Zahid Hussain Feb 17, 2016 06:31pm
Very nice Article.
Mrs. Razi Feb 17, 2016 08:18pm
Very nice but so painful
غلام شبير لغاری Feb 17, 2016 08:39pm
میرے چہار سو نمک ہی نمک تھا۔ مگر نمک تو آچر کی آنسوؤں کے پانی میں بھی ہوگا جو شاید اس نے میرے سامنے اس لیے نہیں بہائے تھے کہ وہ اپنے آپ کو کمزور نہیں دکھانا چاہتا تھا۔ اختر حفیظ کا آرٹیکل پڑھتے اس جملے پر میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں، ایسا محسوس ہوتا کے نمک کی جھیل میں زخمی آچر کولہی کے نہیں میرے پاؤں ہیں، لکھاری نے جو درد آرٹیکل میں بویا ھئے ، ضرور اس میں اس کے شامل ھونگے۔ جب کھانے میں نمک کی بات ھوتی ھۓ تو کبھی اس کو نکالنے والے مزدوروں کو بھی یاد جانا چاھیئے جن کے پاؤں ئی نہیں دل بھی زخمی ھیں۔ اختر حفیظ قابل داد ھیں۔
Nasrullah Jarwar Feb 17, 2016 09:04pm
Apne zindge to nemak hogae hi sahib Aktahar Hafeez ka ye kalum nemk ki talaa si nemak nakalny waly mazdooron ke haqeeqe awaz hi je han Mahtram Aktahar Hafeez ka ye kalum lajawab kalum hi or bahut ache photography very best article...... Nasrullah Jarwar senior journalist from Tando Bago Disst; Badin Pakistan
ط ل ع ت Feb 17, 2016 09:09pm
بہت خوب لکھا آپ نے
ط ل ع ت Feb 17, 2016 09:10pm
Very nice research and writeup.
Ak Feb 17, 2016 09:20pm
So light . , , . . so heart touching. . . . . . .
Amir Gul Katohar Feb 17, 2016 09:34pm
سچی باتیں تکلیف دیتی ہیں، سچے اور محنت کش دکھ سہتے ہیں اور ہم لوگ ان کی محنت سے اپنے زندگی میں رنگ بھرتے ہیں، کھانوں میں ذائقہ لاتے ہیں۔۔۔اختر حفیظ کی قلم کا کمال۔۔۔
شاہد علی صدیقی Feb 18, 2016 12:17am
یہ بلاشبہ ایک بہترین تحریر ہے۔ میری جانب سے بہت بہت مُُبارکباد قبول فرمائیں۔
solani Feb 18, 2016 09:16am
Khuda ne sab kuch Pakistan ko diya hai, us ka shuker ada kare or in mazdooro ko dekh ker afsosto ho reha hai, Khuda in ki mushkil asan kare.
Muhammad Haroon shabbir Feb 18, 2016 12:20pm
ASLAM O ALAKUM Bohat hi ala tahreer ha ya ase tahreeroon ma sa aik ha jahan pa ikhtelafaat bohat kam hoty hain balky ase kooshish ma to ya samajhta hoin ka kisi na kisi ka bakhat tabdeel kar saktii hain shaid koi KOI asa ho jo kisi ase thareer ko parahy or kisi ase jigah ka mutalik soochy in loogoon k lia kuch acha or bary kary ALLAH KARY lastly again thanks to writter akhtar sb keep it up bro have a blessed life or very lastly thank s to dawn group tooo to give chances to young
ایک سندھی Feb 18, 2016 05:48pm
ایک دل کو چھو جانے والے کہانی۔ لگتا ہے یہ سب میں نے پڑھا نہیں بلکہ اپنے آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا ہے۔
Shani Khan Feb 18, 2016 11:09pm
yeh aesa kam hy jo kisi ki nazar main nahi hy..... is kam ki logon ki nazar mian koi ahmeat nahi hy per jo log yeh kam krty hain un k ahsas ko achy andaz mian pesh kr kr un ki hosla afzai ki hy....
bushra khalid Feb 19, 2016 02:55pm
ﻧﻤﮏ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺳﺘﻢ ﮔﺮ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ــــــ!!!ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺯﺧﻢ ﮨﯿﮟ ﺩﻝ ﭘﺮ، ﺟﮩﺎﮞ ﭼﺎﮨﻮ ﭼﮭﮍﮎ ﮈﺍﻟﻮ
Doulat Meghwar Feb 21, 2016 04:45pm
Thanks Akhtar sb for ur visit to explore this region and attemp to depict the real story of the people. This article raises the voice of the those who force themselves to stay dumb whenever they and thier rights are discussed. Because they have learnt from thier ancestors that how to compromise with things. They have learnt everything: to live with love,peace,pain,hunger etc, but the only thing they did not learnt yet is to stone evils.
sardar ali Feb 24, 2016 02:37pm
ظلم وبربریت کی انتہا ہے اللہ ان ظالم حکمرانوں کو ھدایت دیں
Hanif Samoon Feb 26, 2016 06:21pm
A wonderful blog.