• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm

بجٹ کا بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی کی نذر

شائع June 19, 2016

اسلام آباد: قومی اسمبلی نے سال 17-2016 کے لیے دفاع سمیت دیگر شعبوں کے اخراجات کی منظوری دے دی، جن میں لازمی اخراجات اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے تقریباً 103 کھرب 30 ارب روپے بھی شامل ہیں جو کہ ملکی اخراجات کا سب سے بڑا حصہ ہے۔

قومی اسمبلی میں 147 میں سے 75 مطالبات زر کی منظوری دی گئی جس کی مالیت تقریباً 31 کھرب 30 ارب روپے بنتی ہے، بقیہ مطالبات زر ان شعبوں پر مشتمل ہیں جن پر پیر سے اپوزیشن کی جانب تحریک تخفیف پیش کی جائیگی تاہم یہ محض رسمی کارروائی ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: 43.9 کھرب روپے کا بجٹ پیش، تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بجٹ کا سب سے بڑا حصہ دفاع کے لیے مختص کیا گیا ہے، دفاعی بجٹ کے 860 ارب روپے میں سے 409 ارب روپے آرمی، 182.79 ارب روپے فضائیہ اور 93 ارب روپے بحریہ کے حصے میں آئیں گے۔

اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ سمیت دفاع سے وابستہ دیگر خدمات کے لیے 9.97 ارب روپے منظور کیے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: سندھ کا 869 ارب روپے کا بجٹ پیش

اس کے علاوہ ‘دیگر اخراجات’ کے نام سے 174.84 ارب روپے منظور کیے گئے ہیں، وزارت دفاع کے لیے 1.5 ارب روپے جبکہ وفاقی حکومت کے تحت کنٹونمنٹس اور فوجی چھاؤنیوں میں چلنے والے تعلیمی اداروں کیلئے 5.09 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

ترقیاتی اخراجات کی مد میں وزارت دفاع کو 2.52 ارب روپے علیحدہ سے دیے جائیں گے۔

لازمی اخراجات

سال 17-2016 میں لازمی اخراجات کا تخمینہ 104 کھرب 40 ارب روپے لگایا گیا ہے، اس میں سپریم کورٹ آف پاکستان، اسلام آباد ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان جیسے اداروں کا بجٹ بھی شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا کا 505 ارب روپے کا بجٹ، 22 فیصد تعلیم کیلئے مختص

لازمی اخراجات کا تخمینہ متعلقہ ادارے اور محکمے خود تیار کرکے بجٹ سربراہ کو بھیجتے ہیں، ان کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کرنا محض رسمی کارروائی ہوتی ہے، کیونکہ مقننہ ان اداروں کے لیے مختص کردہ بجٹ میں تبدیلی نہیں کرسکتی۔

لازمی اخراجات میں سب سے اہم حصہ بیرونی و داخلی قرضوں کی ادائیگی ہے، آئندہ مالی سال کے لیے حکومت نے مقامی قرضوں کی ادائیگی کے لیے 83 کھرب 80 ارب روپے جبکہ مقامی قرضوں پر منافعوں کی ادائیگی وغیرہ کے لیے4 کھرب 43 ارب 80 کروڑ روپے رکھے ہیں۔

مزید پڑھیں: پنجاب کا 1681 ارب سے زائد کا بجٹ پیش

اس کے علاوہ بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے 113 ارب روپے اور قلیل مدتی بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے 141.37 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

دیگر اہم اخراجات میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کیلئے 3.97 ارب روپے جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کیلئے 2.25 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

صدارتی عملے کیلئے 86 کروڑ 34 لاکھ 80 ہزار روپے رکھے گئے ہیں، سپریم کورٹ نے آئندہ مالی سال کیلئے اپنے لیے 1.74 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئندہ مالی سال کیلئے اپنا بجٹ 46 کروڑ 96 لاکھ 30 ہزار روپے رکھا ہے جبکہ وفاقی محتسب اور وفاقی ٹیکس محتسب کیلئے بالترتیب 58 کروڑ 60 لاکھ اور 11 کروڑ 77 لاکھ 20 ہزار روپے رکھے گئے ہیں۔

منظوریاں

دفاعی اخراجات کے بعد سب سے زیادہ رقم پاکستان ریلویز کیلئے مختص کی گئی ہے جس کا حجم 113 ارب روپے ہے، وزارت پلاننگ، ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارمز کیلئے 41 ارب جبکہ وزارت صحت کیلئے 32 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

وفاقی منتظم شدہ قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کیلئے 20 ارب روپے رکھے گئے ہیں جس میں ترقیاتی اخراجات کی مد میں 22.3 ارب روپے علیحدہ سے دیے جائیں گے۔

قومی احتساب بیورو (نیب) کیلئے 2.33 ارب روپے جبکہ وزارت فیڈرل ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ کیلئے 3.43 ارب روپے بشمول ترقیاتی اخراجات مختص کیے گئے ہیں۔

حکومت نے اپنے تعلقات عامہ ونگ یعنی پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کیلئے 59 کروڑ 40 لاکھ روپے رکھے ہیں جو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے مختص کردہ رقم 54 کروڑ 50 لاکھ روپے، افغان مہاجرین کیلئے 48کروڑ 80 لاکھ روپے اور گلگت بلتستان کیلئے مختص شدہ 22 کروڑ 70 لاکھ روپے سے کہیں زیادہ ہے۔

بجٹ میں سب سے کم رقم 26 لاکھ 50 ہزار روپے سابقہ حکمرانوں کیلئے رکھی گئی ہے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ یہ رقم بہاولپور اور اس جیسی دیگر سابقہ نوابی ریاستوں کے حکمرانوں پر خرچ کی جائے گی۔

یہ خبر 19 جون 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں

تبصرے (1) بند ہیں

Nadeem Ahmed Jun 19, 2016 04:25pm
PML (N)Government one hand squeeze the neck of all ordinary Pakistani People to collect the taxes, other hand they give huge amount to the Local & Foreign Banks . Now Local Banks become Rich to Richer. The middle class in very critical condition ,how they survive because this govt have only one solution increase Taxes.

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024