ہمارے پسندیدہ پھل اور سبزیاں، جو پہلے بالکل مختلف ہوتے تھے
اگلی مرتبہ جب آپ تربوز کے کسی ٹکڑے یا مکئی کے دانوں کا مزہ لیں تو یہ ضرور سوچ لیں کہ یہ جانے پہچانے پھل اور سبزیاں دیکھنے اور ذائقے میں ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے۔
جی ہاں جینیاتی طور پر تدوین کردہ فوڈز پر حالیہ دنوں پر کافی سخت ردعمل سامنے آیا ہے مگر انسان ہمیشہ سے اپنی پسندیدہ خوراک میں جینیاتی تبدیلیاں لاتا رہا ہے۔
کیلوں سے لے کر بینگن اور متعدد دیگر پھل اور سبزیاں پہلے بہت زیادہ مختلف ہوتی تھی اور ان کی موجودہ شکل اس وقت بننا شروع ہوئی جب انسانوں نے ان غذاﺅں کو خود اگانا شروع کیا۔
جنگلی ٹماٹر
آپ نے ٹماٹر تو دیکھیں ہوں گے اور سلاد تو ان کے بغیر نامکمل لگتی ہے، مگر انسانوں کے ہاتھوں میں آنے سے پہلے ان کی شکل بالکل مختلف ہوتی تھی۔
موجودہ ٹماٹر
بلکہ اس پھل یا سبزی نے اپنا حجم، رنگ اور ذائقہ بھی بدل لیا ہے۔
جنگلی تربوز
17 ویں صدی کی اس پینٹنگ میں Giovanni Stanchi نے ایک تربوز کو پیش کیا ہے جو موجودہ عہد کے تربوز سے بالکل ہی مختلف ہے۔ یہ پینٹنگ 1645 سے 1672 کے درمیان بنائی گئی تھی اور اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ تربوز کس طرح کی عجیب ساخت کے حامل ہوتھے تھے۔
موجودہ تربوز
وقت گزرنے کے ساتھ انسانوں نے تربوز کو اگانے کے لیے سلسلے میں کافی تجربات کیے اور اس کا اندرونی حصہ سرخ اور ماضی کے مقابلے میں بالکل مختلف ہوگیا۔ فرق آپ دونوں تصاویر کا موازنہ کرکے خود محسوس کرسکتے ہیں۔
جنگلی اسٹرابری
جنگلی اسٹرابری کا حجم کافی چھوٹا ہوتا تھا مگر یہ بہت لذیذ اور بہترین مہک والی ہوتی تھی، جو انسانی کاشت کے بعد کہیں گم ہوگئی۔
موجودہ اسٹرابری
اب اسٹرابری کا حجم تو بڑھ گیا ہے مگر اس کی مہک پہلے جیسی نہیں رہی۔
جنگلی کیلے
مانا جاتا ہے کہ پہلے کیلے کی کاشت کم از کم 7 ہزار سال پہلے ہوئی تھی اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایسا 10 ہزار سال پہلے شروع ہوا ہو، مگر جو کیلے پہلے ملتے تھے وہ آپ مندرجہ بالا تصویر میں دیکھ سکتے ہین جن میں بڑے اور سخت بیج ہوا کرتے تھے اور انہیں کھانا بھی اتنا آسان نہیں تھا۔
موجودہ کیلے
موجودہ عہد کے لذیذ کیلوں کی ساخت آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ماضی کے مقابلے میں کتنی مختلف اور دیکھنے میں بھی زیادہ خوبصورت ہے۔ ماضی کے مقابلے میں اس پھل میں اب پیج بہت چھوٹے ہوتے ہیں جبکہ یہ پھل اب ذائقے دار اور صحت کے لیے فائدہ مند اجزاء سے بھرپور ہوگیا ہے۔
جنگلی آلو
پہلے آلو جنوبی امریکا میں پائے جاتے تھے اور حیران کن طور پر ان کے رنگ، ساکت اور شکلیں مختلف ہوتھی تھیں۔
موجودہ آلو
اب یہ ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ کسی مختلف شکل میں ہمیں قبول بھی نہیں ہوں گے۔
جنگلی گاجر
ممکنہ طور پر اس کی کاشت 10 ویں صدی میں ایران اور ایشیاء کے مختلف حصوں میں شروع ہوئی تھی، ایسا بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا اصل رنگ جامنی یا سفید ہوتا تھا جبکہ پتلی، ٹیڑھی جڑ ہوتی تھی، مگر وقت کے ساتھ اس کا جامنی رنگ ختم ہوگیا اور یہ زرد رنگ کی ہوگئی۔
موجودہ گاجریں
کاشتکاروں نے ان پتلی اور سفید جڑوں کو گھریلو بناتے ہوئے اس میں تبدیلیاں کیں اور اس کا ذائقہ زیادہ بہتر جبکہ شکل بالکل بدل کر رہ گئی۔ یہ بڑی مزیدار نارنجی رنگ کی گاجریں اب ہر سال سردیوں کی فصل بن چکی ہیں۔
جنگلی بینگن
ہمیشہ سے بینگن کی ساخ اور رنگوں میں کافی فرق دیکھا گیا ہے، جیسے سفید، جامنی اور زرد وغیرہ، جیسا آپ اوپر دیکھ سکتے ہیں کہ سب سے پہلے اس سبزی کی کاشت چین میں ہوئی۔ ابتدا میں ان کے اوپر ایک کانٹا بھی ہوتا تھا اور اکثر گول ہوتی تھی۔
موجودہ بینگن
مگر اس سبزی کو اگانے کی مخصوص ترکیب نے کانٹوں کو ختم کردیا جبکہ اس کی رنگت بھی جامنی میں تبدیل ہوگئی اور اب اکثر بینگن لمبوتری شکل میں ہی فروخت ہوتے ہیں۔
جنگلی مکئی
مکئی کو سب سے پہلے 7 ہزار قبل مسیح میں کاشت کیا گیا تھا جو اتنی خشک ہوتی تھی جتنے خام آلو۔
موجودہ مکئی
مگر آج مکئی نو ہزار سال پہلے کے مقابلے میں ایک ہزار گنا بڑی ہوتی ہے جبکہ اسے اگانا اور چھیلنا بہت آسان ہوگیا ہے۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔
تبصرے (3) بند ہیں