شرمناک کیا ہے، سیلفی یا قتل؟
جب بمبو ساس بینڈ نے قندیل کے لیے نغمہ لکھا تب شاید بینڈ کے ممبران نے یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ یہ جلد ہی قندیل کی یاد میں ایک نوحہ بن جائے گا۔ بی بی سی کو حال ہی میں دیے اپنے ایک انٹرویو میں بینڈ کے مرکزی ممبر نے یوں کہہ کر قندیل بلوچ کے مظہر کو سمجھایا کہ وہ ''شریر خاتون'' تھیں جو عوام سے رابطے کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کرتی تھیں۔
''انٹرنیٹ اور شریر خاتون، یہ دو ایسی چیزیں ہیں جن سے پاکستان بطور ایک معاشرہ کچھ اچھا سلوک نہیں کرتا۔ ان کے الفاظ دور اندیش ثابت ہوئے۔ قندیل بلوچ کے رویے سے نمٹنے کی عدم صلاحیت نے ان کے بھائیوں کو انہیں قتل کرنے پر آمادہ کردیا۔
ان کے بھائیوں کی شمولیت کے پیش نظر قندیل بلوچ کے قتل کو 'غیرت' کے نام پر قتل کہا جا رہا ہے اور کیونکہ یہ غیرت کے نام پر قتل ہے، لہٰذا لوگ قندیل کے 'بے غیرت' رویے کا جواز پیش کر کے ان کے بھائی کے اقدام کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ کئی لوگوں نے انہیں پاکستان کے لیے داغِ بدنامی قرار دے کر ان کے قتل کے حق میں ٹوئیٹس کیں۔
قندیل کو ان کی زندگی میں موت کی دھمکیاں موصول ہوئی تھیں اور سوشل میڈیا میں ان کے پوسٹ کردہ مواد کے نیچے کمنٹس میں مسلسل انہیں قتل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ تین ہفتے قبل قندیل نے حکام سے رابطہ کر کے سکیورٹی کا مطالبہ کیا تھا۔
چند ہی لوگوں کو اس بات پر حیرانی ہوئی ہو گی کہ ان کی موت کے بعد ویسا ملک گیر صدمہ اور رد عمل سامنے کیوں نہیں آیا جو کچھ ہفتوں پہلے امجد صابری کے قتل پر دیکھنے کو ملا تھا، جبکہ انہیں بھی اسی لیے قتل کر دیا گیا تھا کہ دونوں ہی گنہگار اور برے سمجھے گئے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جب بھی کوئی عورت مبینہ طور پر کسی غیر مرد سے بات کرنے، پسند سے شادی کرنے یا اپنے خاندان کے خلاف جا کر کوئی اقدام اٹھانے پر ماری جاتی ہے تو ہمیں بہت ہی کم عوامی غم و غصہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہم ایسا کیسے کرسکتے ہیں؟ ہر سال ہزاروں ایسے کیسز درج کیے جاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں تشدد اس قدر عام ہے کہ ہم ہر واقعے پر ماتم نہیں کر سکتے۔ مزید برآں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے قتل کو 'غیرت' کے نام پر قتل سے منسوب کردیا جاتا ہے، لہٰذا ایک طرح سے یہ مانا جاتا ہے کہ اس قتل کی نوعیت تھوڑی مختلف اور قابل توضیح ہے، لہٰذا قابل قبول بھی ہے۔
ہفتے کی شام کو جب میں مضمون لکھ رہی تھی، تب تک نواز شریف نے قندیل بلوچ کے قتل پر اپنا رد عمل نہیں دیا تھا۔ میں ان کے عوامی سطح پر کسی بیان کی منتظر تھی کیونکہ فروری میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت ان قوانین میں ترمیم کرے گی جن کی وجہ سے غیرت کے نام پر قتل کر کے سزا سے بچا جا سکتا ہے۔ تب سے اب تک کوئی نیا قانون منظور نہیں کیا گیا ہے۔
جون میں لاہور کی زینت بی بی کو اپنی مرضی کی شادی کرنے پر ماں نے زندہ جلا دیا تھا۔ ان کی موت کے بعد اس عمل کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے نواز شریف نے اس قتل کی تحقیقات کا حکم دیا۔ وزیر اعظم زینت بی بی کے حق میں بات کرتے ہوئے خوش تھے، جس کی گم نامی اور حالات دونوں ہی جبر اور خطرے کی زد میں ہونے کی تصویر پیش کر رہے تھے۔
دوسری جانب اگر نواز شریف قندیل بلوچ، جو ایسی سیلفیاں لینے کی ذمہ دار تھیں جنہوں نے مفتی عبدالقوی کی بدنامی اور رویت ہلال کمیٹی سے معطلی کا باعث بنیں، کے حق میں کھڑے ہوتے ہیں تو اس مسئلے پر ان کی استقامت قابل تعریف ہوتی۔
اگر زینت بی بی کا قتل غیر اسلامی ہے تو کیا قندیل کا قتل بھی غیر اسلامی نہیں ہے؟
سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ ایسی وارداتوں پر ہم مذہب کی عینک لگا کر ہی تبصرہ کیوں کرتے ہیں؟ قندیل بلوچ اور زینت بی بی دونوں ہی قتل ہوئی تھیں۔ ہمیں ان دونوں کے قتل کو قتل ہی سمجھنا چاہیے اور مذمت کرنی چاہیے جبکہ ملزمان کو قانون کے مطابق ہی سزا ملنی چاہیے۔
افسوس کے ساتھ جب عورتیں قتل کی جاتی ہیں تو حکمران اور بڑے پیمانے پر عوام اس تشدد کا کوئی نہ کوئی جواز بنا لیتے ہیں، تاکہ ایسا کوئی قتل کم خوفناک محسوس ہو، اور بسا اوقات اس عورت کے رویے سے کچھ پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہوئے قتل کو درست قرار دے دیتے ہیں، مثلاً قندیل نے معاشرے کے رسوم و رواج کا تمسخر اڑایا اور معنی خیز سیلفیاں لیں؛ سبین محمود نے بلوچستان پر گفتگو کا اہتمام کیا اور برداشت کے فروغ کے لیے کام کیا؛ پروین رحمٰن نے کراچی میں زمین کی ملکیت پر ڈھیروں سوال پوچھے۔ ایسے افراد کا قتل درحقیقت ایک وارننگ ہوتی ہے، یعنی کہ کچھ کام ایسے ہیں جو خواتین کو نہیں کرنے چاہیئں اور کچھ ایسی حدود ہیں جن کو عبور نہیں کرنا چاہیے۔
ہر قتل کے بعد ایک نئی حد متعارف کردی جاتی ہے اور خواتین کے لیے معاشرے میں جگہ اور بھی محدود ہو جاتی ہے۔ اس سے بھی بدتر چیز ان حدود اور ایسے وحشیانہ عمل کو 'غلطی کی سزا' قرار دینا اور انہیں اس صورت میں قابل قبول بنانا ہے۔
قندیل بلوچ کا قتل ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہم ایسے دور میں رہتے ہیں جہاں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے منتخب موضوعات پر ہی بات ہوتی ہے۔ لوگوں کو کچھ معملات پر حقوق نسواں مناسب لگتے ہیں اور باخوشی ان حقوق کی فروغ دیتے ہیں، جیسے خواتین کی جانب سے کاروبار میں حصہ لینا، اس طرح معیشت کو فائدہ ہوتا ہے؛ لڑکیوں کی تعلیم، جس سے غیر ملکی امداد حکومت کو ملتی رہتی ہے، خواتین رکن اسمبلی کے انتخابات، جو پاکستان کو صنفی برابری کے عالمی معیار میں بلند درجے پر لانے میں مدد کرتے ہیں۔
مگر گھریلو تشدد سے لے کر تولیدی حقوق تک، خواتین کو درپیش تحفظ اور تقدس کے مسائل پر تھوڑا ہی کام ہوا ہے۔ حکومت ایسے قوانین پر نظر ثانی کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کیوں نہیں کر رہی جن سے 'غیرت' کے نام پر قتل کرنے والے مجرمان بچ نکلتے ہیں؟ وزیر اعظم کو اس معاملے پر اپنا ضمیر جگانے کے لیے بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ ڈاکیومنٹری کی ہی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ کیا ہر سال سینکڑوں لاشیں کافی نہیں ہیں؟
قندیل بلوچ کے والد نے اپنی 'بہادر' بیٹی کی جدائی پر شدید رنج و غم کا اظہار کیا ہے اور ایف آئی آر میں اپنے بیٹوں کا نام درج کروایا ہے جو امید ہے کہ سزا سے بچ نہیں پائیں گے۔ امید ہے کہ ہم سب اس بات کو سمجھیں کہ ان کے بیٹے کا وحشیانہ عمل پاکستان کے لیے ان کی بیٹی کی کھینچی ہوئی سیلفیوں سے زیادہ باعث شرم ہے۔
لکھاری فری لانس کالم نگار ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں