دو ٹیسٹ میچز کے درمیان 18 سال کا وقفہ
آج کل کرکٹ اتنی تیز اور زیادہ ہوتی جا رہی ھے کہ سوائے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے باقی کرکٹ کو دیکھنے کے لئے وقت نکالنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ھے۔ آئے دن میچز کی وجہ سے کرکٹرز نا صرف تھکاوٹ کا شکار رہتے ہیں بلکہ انہیں فٹنس مسائل کا سامنا بھی رہتا ھے۔
مگر کرکٹ میں ایسا بھی وقت تھا جب میچز بہت کم ہوا کرتے تھے اور کھلاڑیوں کے پاس فرصت ہی فرصت ہوتی تھی۔ جدید کرکٹ میں چند ہی ایسے کرکٹرز ہوں گے جن کا پورا کیریئر15 سال پر محیط ہو، لیکن ماضی کے کچھ کرکٹرز ایسے بھی رہے ہیں جو صرف ایک ٹیسٹ میچ کھیلنے کے بعد 15 سال سے زائد عرصے تک انتظار کرتے رہے اور بالآخران کو صبر کا میٹھا پھل ملا۔
جارج گن (انگلینڈ)
انگلینڈ کے سابق ٹیسٹ کرکٹر جارج گن ایسے منفرد (یا بدقسمت کہہ لیں) کھلاڑی تھے جنہیں اپنا اولین ٹیسٹ کھیلنے کے بعد دوسرا موقع ملنے تک لگ بھگ 18 سال انتظار کی سولی پر لٹکنا پڑا۔ جارج گن نے مارچ 1912ع میں جنوبی افریقہ کے مدمقابل پہلی بار انگلینڈ کی ٹیسٹ ٹیم کی نمائندگی کی اور اس کے بعد ٹیسٹ ٹیم کے دروازے 1930 میں تب کھلے جب کرکٹ بورڈ نے انہیں زمبابوے کے خلاف دوبارہ کھیلنے کے لئے ''سرپرائزنگ کال'' دے کر گویا ڈوبتے کو تنکے کا سہارا دیا۔
دو ٹیسٹ میچوں کے بیچ 18 سال اور 222 دن کا طویل وقفہ ٹیسٹ کرکٹ کا ایک منفرد رکارڈ ہے۔ دائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے جارج گن نے 15 ٹیسٹ میچز کی 29 اننگز میں 40 کی اوسط سے 1120 رنز اسکور کیے، ان کے ٹیسٹ کیریئر میں 2 سنچریز اور7 ففٹیز شامل ہیں۔ وہ انگلش کاؤنٹی ٹیم ناٹنگھم شائر کے سابق بیٹسمین جارج ورنن گن کے صاحبزادے بھی تھے۔
محمد یونس احمد (پاکستان)
جارج گن کے بعد پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر محمد یونس احمد دوسرے نمبر پر آتے ہیں۔ 1969ع سے 1987ع تک 4 ٹیسٹ اور صرف 2 ون ڈے انٹرنیشنل میچزمیں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے بائیں ہاتھ کے مڈل آرڈر بیٹسمین یونس احمد نے حال ہی میں لکھی گئی اپنی سوانح حیات میں یہ انکشاف کیا ہے کہ 1969ع میں پہلا ٹیسٹ میچ کھیلنے کے بعد دوسری بار ٹیسٹ ٹیم کا حصہ بننے کے لئے ان کو 17 سال اور تین ماہ کا طویل اور صبر آزما انتظار کرںا پڑا تھا۔
اس دوران قومی کرکٹ ٹیم نے 104 ٹیسٹ میچز کھیلے مگر یونس احمد ان میچز سے محروم رہے۔ 20 اکتوبر 1947ع میں بھارتی پنجاب کے شہر جالندھر میں پیدا ہونے والے یونس احمد نے صرف 14 سال کی عمر میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں قدم رکھا، ان کے بڑے بھائی سعید احمد بھی ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔
انتہائی مختصر انٹرنیشنل کیریئر کے بعد یونس احمد نے کائونٹی کرکٹ اور ویسٹرن آسٹریلیا کی ٹیم میں بھی قسمت آزمائی۔ انہوں نے 4 ٹیسٹ میچز کی 7 اننگز میں 29. 50 کی اوسط سے 177 رنز بنائے۔ ایک نصف سنچری کے ساتھ 62 ان کی بہترین اننگز تھی۔
مارٹن بکنیل (انگلینڈ)
دو میچز کے درمیان طویل عرصے تک ٹیم سے باہر رہنے والے کرکٹرز میں سرے کاؤنٹی کے باؤلر مارٹن بکنیل بھی شامل ہیں جو انگلینڈ کی طرف سے ریکارڈ 114 ٹیسٹ میچز کھیلنے سے محروم رہے۔ وہ 1993 میں دو ٹیسٹ میچز کھیلے اور 2003ع میں وہ مزید دو اور ٹیسٹ میچز کھیلنے میں کامیاب ہوئے۔
فلائیڈ ریفر (ویسٹ انڈیز)
ویسٹ انڈیز کے سابق ٹیسٹ کرکٹر فلائیڈ ریفر 1999ع سے لیکر 2009 تک 109 ٹیسٹ میچز سے غائب رہے۔ کرکٹ بورڈ سے کانٹریکٹ کے معاملے پر تنازع کے باعث انہیں جبری طور پر ٹیم سے باہر رکھا گیا۔
2009 میں جب کانٹریکٹ کا تنازع ختم ہوا تو فلائیڈ ریفر نے ویسٹ انڈیز ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے کم بیک کیا۔ فلائیڈ ریفر کے کریئر کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جب 2009ع میں بنگلادیش کے ٹور پر موجود ویسٹ انڈیز کے تمام پلیئرز نے کرکٹ بورڈ سے اختلافات کے باعث کنگسٹن میں شیڈول ٹیسٹ سے ایک دن پہلے میچ کھیلنے سے ہی انکار کر دیا تو ریفر کی قیادت میں ویسٹ انڈین بورڈ نے نا تجربہ کار پلیئرز پر مشتمل جونیئر ٹیم کو بنگلادیش کے مدمقابل ٹیسٹ میچ کھیلنے کے لئے میدان میں اتار دیا تھا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ویسٹ انڈیز ٹیم ٹیسٹ سیریز میں بُری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی۔
تبصرے (3) بند ہیں