• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

کیا بھٹو کو سیلاب نے ڈبویا تھا؟

شائع July 29, 2016

ایسی بارش پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔

صرف 12 گھنٹوں کے اندر کراچی میں 8 انچ سے بھی زیادہ برسات ہو چکی تھی۔ لیاری اور ملیر کی پرسکون ندیوں میں وحشت بھر چکی تھی اور دونوں اپنے بند توڑ بیٹھی تھیں۔

کراچی سیلاب کی زد میں تھا۔

1977 میں جولائی کے اوائل میں ہونے والی بارشوں سے 350 سے بھی زائد لوگ ہلاک ہوچکے تھے۔ کچھ ذرائع کے اندازوں کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 1000 تک جا پہنچی تھی۔ سیلاب کے نتیجے میں 20 ہزار افراد بے گھر جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہوگئے تھے۔

چند ہی دن بعد فوج اقتدار پر جھپٹتی ہے اور ذوالفقار علی بھٹو کو ہٹا کر ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا جاتا ہے۔

اس سال 5 جولائی کو اس فوجی بغاوت کو 39 سال مکمل ہوگئے جس کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق 11 برس اقتدار میں رہے۔ سماجی اور سیاسی بحثوں میں اکثر بھٹو کے زوال کا ذمہ دار سیاسی عدم استحکام کو ٹھہرایا جاتا ہے۔

پڑھیے: جب وزیراعظم کو پھانسی دی گئی

حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے بھٹو کے خلاف زبردست احتجاجی تحریک کا آغاز کیا کیونکہ ان کے نزدیک بھٹو کی اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے والے 1977 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔

1977 میں سڑکوں پر حزب اختلاف کی جماعتیں ہی نہیں بلکہ سیلابی پانی بھی تھا۔ کراچی کے کچھ علاقوں میں 5 سے 8 فٹ تک سیلابی پانی کھڑا تھا۔

سیاسی فسادات اور سیلاب، دونوں نے مل کر معیشت کو مکمل طور پر تباہ اور بھٹو کی حکومت کو کمزور کر دیا تھا، جو کہ پچھلے سال کے سیلاب کی وجہ سے پہلے ہی لڑکھڑاہٹ کا شکار تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی استحکام کو نہ صرف ایک بلکہ ہر سال باقاعدگی سے آنے والے سیلابوں نے ٹھیس پہنچائی تھا۔

یہاں پر ایک ضروری سوال قابلِ غور ہے کہ اگر 1977 میں 45 سال کا بدترین سیلاب نہ آتا، تو ان گرمیوں میں سیاسی و سماجی صورتحال کیا ہوتی۔

1977 سے اب تک کئی بار کراچی میں مون سون بارشیں ہو چکی ہیں۔ مگر چالیس سال گزر جانے کے باوجود یہ شہر آج بھی سیلاب کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔

قدرتی آفات کی سیاست

قدرتی آفات کو حکومتوں کے لیے زبردست مشکلات کا باعث بننے کے لیے جانا جاتا ہے، خاص طور پر ایسی حکومتوں کے لیے جو ان آفات سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔

معاشی ترقی کے ماہرین یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ غریب قدرتی آفات سے زیادہ اپنے نااہل حکمرانوں کی وجہ سے موت کا شکار بنتے ہیں کیوںکہ وہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے پیشگی انتظامات اور قدرتی آفات کے بعد مناسب ریلیف اقدامات اٹھانے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔

کولمبیا یونیورسٹی کے جیفری سیکس کے مطابق قدرتی آفات، بشمول موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرناک اثرات دنیا کے کئی نسلی اور علاقائی تنازعات کے ذمہ دار ہیں۔

مزید پڑھیے: ایک ڈالر اور سات ڈالر کا فرق

وہ قبائل جنہوں نے صدیوں سے کسی کے ساتھ پانی اور چراگاہیں نہیں بانٹی تھیں، انہیں زمین اور پانی بانٹنے پر مجبور کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ قتل و غارت کی صورت میں نکلتا ہے۔

قدرتی آفات بھی کچھ حد تک اس 'عرب بہار' کی ذمہ دار ہیں جو مشرقِ وسطیٰ کے ان جابر حکمرانوں کو تو بمشکل ہی ہٹا پائی جو واشنگٹن کے ایوانوں میں بیٹھے لابسٹس کی حمایت کھو چکے تھے۔ قحط اور اس کے نتیجے میں خوراک کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہونے سے عوام میں غصہ پیدا ہوا، جو اس قدر بڑھ گیا کہ انہیں سڑکوں تک کھینچ لایا۔

70 کی دہائی کے اواخر کا عرصہ اس خطے میں افراتفری سے بھرپور رہا تھا۔ ایران اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا کیونکہ ایرانی مولوی رضا شاہ پہلوی کی حکومت کو ہٹانے جا رہے تھے۔

افغانستان میں بادشاہت کے نظام کو جبراً ہٹا کر برسراقتدار آنے والی سوشلسٹ حکومتیں ان عسکریت پسند کسانوں کے دباؤ میں آ کر زوال پذیر ہو رہی تھیں جنہیں امریکا، سعودی عرب اور پاکستان سے امداد اور معاونت حاصل تھی۔

مغرب نے چین کو ابھی تک پوری طرح سے اپنا نہیں بنایا تھا اور ایک معمہ اور مسلسل خطرہ بنا رہا۔

پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب

مگر پھر نہ صرف پاکستان میں بلکہ ہندوستان میں بھی سیلاب آئے اور نہ صرف 1977 میں، بلکہ اس سے بھی قبل بھی آئے۔ درحقیقت ستمبر 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو ملک کے پہلے وزیراعظم کے طور پر امریکا کے اپنے پہلے دورے پر تھے۔

بھٹو کو جولائی میں دورے پر جانا تھا۔ مگر صدر رچرڈ نکسن کے بیمار پڑ جانے کی وجہ سے آخری منٹ پر دورہ منسوخ کر دیا گیا تھا۔ بھٹو کو جولائی میں فوجی امداد اور گندم مانگنے جانا تھا۔

مگر، سیلاب نے سب کچھ تبدیل کر دیا۔

1973 کے سیلاب میں کپاس اور چاول کی کھڑی فصل برباد ہو گئی تھی۔ کروڑوں ڈالرز مالیت کی محفوظ شدہ گندم برباد ہو چکی تھی۔ سال 1973 میں جس معاشی ترقی کا تخمینہ 8 فی صد لگایا گیا تھا، وہ صفر فی صد پر آ گری تھی۔ سیلاب کی قبل از وقت منصوبہ بندی کرنے میں بھٹو حکومت انتہائی بری طرح ناکام ہوئی تھی۔

حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے بھٹو پر بدانتظامی کا الزام لگایا۔ امریکا مدد کرنے کے لیے آگے بڑھا اور 3 کروڑ ڈالر بشمول 1 لاکھ ٹن اناج کی امداد فراہم کی — کسی بھی ملک کو دی گئی یہ سب سے بڑی امداد تھی۔

جانیے: غریبوں کی مسیحا صرف فوج؟

اگر امداد کے اعداد کی اس دور کے تناظر میں بات کریں تو 1973 میں پاکستان کی اوسط فی کس آمدنی 80 ڈالرز سے زیادہ نہیں تھی۔

بھٹو نے اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے سیلاب کا استعمال کیا۔ انہوں نے معاشی بحالی پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے معاشی تحفظ کے ایسے ایجنڈے کو اپنایا جس نے نجی شعبے سے سارے روابط منقطع کر دیے۔ اسی اثنا میں ان کا اپنے مخالفین سے سختی سے پیش آنا سوائے تباہی کے اور کچھ نہ تھا۔

انہوں نے بلوچستان اور سرحد میں مخالف قبائل اور سیاستدانوں کے خلاف فوجی کارروائی کی۔ انہوں نے اپنے مخالفین کو جیلوں میں ڈالا اور مخالف ذرائع ابلاغ کو بند کروا دیا۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ جنرل ضیاء نے بھٹو کے ہاتھوں مشکلات کا سامنا کرنے والوں کے درمیان اپنی حمایت تلاش کر لی تھی۔

اگر عوام کے نزدیک بھٹو کی حکومت ایک گرم توا تھی تو ضیاء کا اقتدار بھی شعلوں سے کم نہ تھا۔

سخت گیر بلکہ غیر انسانی سزاؤں کے لیے جنرل ضیاء کی شدید پسندیدگی نے تشدد کے بیچ بوئے، سر عام پھانسیوں اور کوڑے مارنے جیسی سزاؤں نے لوگوں کو تشدد کی جانب بے حس کر دیا تھا۔

اس بدترین تشدد کی انتہا وہ تھی جب کئی دہائیوں بعد جب طالبان نے بے سر لاشوں کو سوات کے ایک چوک پر ٹانگنا شروع کیا۔

80 کی دہائی کے اواخر تک سیلاب تباہی مچاتے رہے۔

سال در سال سیلابی پانی فصلیں برباد کرتا رہا، جس وجہ سے پاکستان اناج برآمد کرنے پر مجبور رہا اور ملک کے خود انحصار ہونے کا خواب شرمندہء تعبیر نہ ہوسکا۔

سیلاب کی وجہ سے پاکستان میں ہونے والی شدید ترین تباہ کاری واضح طور پر 2010 کے سیلاب میں دیکھنے کو ملی جب کروڑوں لوگ بے گھر ہوئے اور ہزاروں افراد موت کا شکار بنے۔

سیلاب آج بھی عوام کے لیے تباہ کن ہیں، ویسے ہی جیسے 70 کی دہائی میں تھے، مگر اب سیلابوں سے سیاسی اشرافیہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔

مرتضیٰ حیدر

مرتضیٰ حیدر ٹورنٹو میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، اور regionomics.com کے ڈائریکٹر ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: regionomics@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024