• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

احمدی عبادت گاہ کی ملکیت: معاملہ عدالت میں حل ہونے کا امکان

شائع December 19, 2016

چکوال: دوالمیال گاؤں میں 1860 میں تعمیر کی گئی تاریخی مسجد کو 1974 میں اُس وقت احمدیوں کی عبادت گاہ میں تبدیل کردیا گیا تھا جب سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا تھا۔

اس تاریخی عمارت پر رواں ماہ 12 دسمبر کو مشتعل ہجوم نے حملہ کردیا تھا، جس میں 2 افراد ہلاک اور 3 زخمی ہوئے تھے، اب یہ واقعہ احمدیوں اور علاقے کے رہائشیوں کے درمیان قانونی جنگ بن چکا ہے۔

چواس سیداں پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) محمد نواز کی درخواست پر جوڈیشل مجسٹریٹ چوہدری ظفر اقبال نے عبادت گاہ کو سیل کردیا ہے جبکہ عدالت نے تمام فریقین کو آئندہ ماہ 3 جنوری تک اپنے جوابات جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔

مجسٹریٹ کی جانب سے جاری کیے گئے حکم نامے کے مطابق 'عبادت گاہ دارالذکر احمدیوں اور سنیوں کے درمیان فساد کی جڑ ہے اور دونوں کے درمیان جاری طویل رسہ کشی حالیہ کشیدگی کا سبب بنی'۔

یہ بھی پڑھیں: چکوال: کشیدگی کے بعد احمدیوں کی نقل مکانی

حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ 'متعلقہ فریقین کو 3 جنوری 2017 کو ہونے والی سماعت میں ذاتی طور پر یا وکلاء کے ذریعے پیش ہونے کی ہدایات کی جاتی ہے'، جبکہ تمام فریقین کو دارالذکر کی ملکیت کے دعووں سے متعلق تحریری بیانات بھی جمع کرانے کا کہا گیا۔

احمدی کمیونٹی کے ایک مقامی افراد کے مطابق عبادت گاہ کو 1860 میں ان کے آباؤ اجداد نے تعمیر کیا تھا۔

عبادت گاہ پر حملے کے بعد علاقے کو چھوڑ کر جانے والے احمدی کمیونٹی کے ایک شخص کے مطابق‘ ان کا تعلق اعوان قبیلے سے ہے جنہوں نے دوالمیال کی بنیاد رکھی اور 1927 میں انہوں نے مسجد کے منار کی تعمیر کی جس کے بعد اسے 'منار والی مسجد' کا نام دیا گیا لیکن 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے جانب سے انہیں غیر مسلم قرار دیئے جانے کے بعد اس کا نام تبدیل کرکے دارالذکر رکھ دیا گیا کیوں کہ قانون کے تحت ہم اپنی عبادت گاہ کا نام مسجد نہیں رکھ سکتے تھے‘۔

انہوں نے بتایا کہ گاؤں کے کچھ اعوان 20 ویں صدی کے اوائل تک احمدی بن چکے تھے اور 1974 تک دوالمیال احمدیوں کا مضبوط گڑھ رہا کیوں کہ وہاں کی نصف آبادی احمدیوں پر مشتمل تھی مگر غیر مسلم قرار دیئے جانے کے بعد حملوں کے باعث احمدیوں نے ملک چھوڑنا شروع کردیا اور کئی احمدی، امریکا، کینیڈا اور برطانیہ منتقل ہوگئے۔

احمدی کمیونٹی کے مذکورہ رکن کے مطابق مسلمانوں نے 1997 سے پہلے کبھی بھی دارالذکر پر اپنی ملکیت کا دعویٰ نہیں کیا تھا مگر بعد میں گاؤں کے کچھ مسلمان رہائشیوں نے احمدیوں کو دارالذکر خالی کرنے کا کہا، مسلمانوں نے عبادت گاہ پراپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ اسے مسجد کے طور پر بنایا گیا تھا اس لیے اسے واپس مسلمانوں کو دیا جائے، اس مطالبے کا ابھی تک کوئی حل نہیں نکالا جاسکا۔

مزید پڑھیں: چکوال میں کشیدہ حالات کے باعث دفعہ 144 نافذ

ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں نے دارالذکر کی ملکیت کے حوالے سے مقامی عدالت میں درخواست دائر کی، جس کے بعد سول جج نے دارالذکر کو کچھ دنوں کے لیے سیل کردیا، اس دوران احمدیوں نے گلیوں میں عبادات کیں، ان کے مطابق احمدیوں کی جانب سے سیشن جج کے سامنے سول جج کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کیے جانے کے بعد عبادت گاہ کو کھولنے کا حکم دیا گیا۔

ایک مقامی احمدی کے مطابق مسلمانوں نے لاہور ہائی کورٹ بینچ راولپنڈی میں بھی درخواست دائر کی، تاہم انھوں نے اس کیس کی پیروی نہیں کی، جبکہ مقامی مسلمانوں کا موقف تھا کہ کیس سے متعلق فائل عدالت میں کھوگئی ہے۔

چواس سیداں کے سابق تعلقہ ناظم حفیظ الرحمٰن کے مطابق کیس سے متعلق فائل کو جان بوجھ کر تین بار لاہور ہائی کورٹ میں گم کیا گیا، جس وجہ سے ہم نے قانونی جنگ چھوڑ دی، خیال رہے کہ حیفظ الرحمٰن عبادت گاہ پر حملے کا مشتبہ ملزم ہے۔

دوالمیال یونین کونسل کے وائس چیئرمین فیض احمد فیض نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے عدالت میں کیس کی پیروی اس لیے نہیں کی کیوں کہ احمدی طاقتور تھے اور اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرنے کی پوزیشن میں تھے۔

انہوں نے کہا کہ 'متوقع فیصلے کے تحت لاہور ہائی کورٹ احمدیوں کو دارالذکر کا منار مسمار کرنے کا حکم دے گی اور اسے ہماری ملکیت تسلیم نہیں کیا جائے گا'۔

یاد رہے کہ 12 دسمبر کو ہونے والا حملہ 1997 کے بعد سے دارالذکر کے تنازع کے سلسلے میں اس طرح کا پہلا حملہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چکوال حملہ: مرکزی ملزم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست

ایک مقامی شخص کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ گاؤں کے مسلمان اس معاملے پر 23 سال سے خاموش کیوں رہے؟ مسلمانوں نے 1997 میں کیس داخل کیا جب کہ احمدیوں کو 1974 میں غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔

ان کے مطابق 'عبادت گاہ کو نہ صرف ان کے آباؤ اجداد نے تعمیر کیا بلکہ یہ علاقہ احمدیوں کا گڑھ بھی رہا ہے، مگر اب یہ کیسی دانشمندی ہے کہ ہمارے پاس اس وقت گاؤں میں ایک بھی عبادت گاہ موجود نہیں ہے؟'

خیال رہے کہ عبادت گاہ پر حملے کے بعد کئی احمدی گاؤں چھوڑ چکے ہیں جب کہ تحریک تحفظ ختم نبوت پاکستان نے عبادت گاہ کو حاصل کرنے کی قانونی جنگ لڑنے کے لیے وکلاء کی خدمات بھی حاصل کرلی ہیں۔

یہ خبر 19 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

Qalam Dec 19, 2016 03:54pm
قرآن کریم میں حضرت داؤد علیہ السلام کے حوالے سے لکھا ھے کہ آپ کے پاس دو اشخاص آئے ایک نے کہا یہ میرا بھائی ھے اس کے پاس ۹۹ بھیڑیں ھیں اور میرے پاس صرف ایک ھے اور یہ بھائی دلائل دے رھا ھے کہ جو میرے پاس ایک ھے وہ بھی اس کو دے دوں۔ یہ وہ صورت حال ھے جو دولمیال ھے پیش ھے کہ احمدیوں سے ان کے آباؤاجداد کی مسجد چھیننے کی کوشش کر رھے ھیں جو سو سال سے زائد عرصے سے ان کے پاس ھے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024