• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm

زرعی پالیسی حکومتی ارکان نے کسان دشمن قرار دے دی

شائع February 2, 2017

اسلام آباد: قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر ان کے اپنے ہی اراکین اسمبلی کے ایک گروپ نے شدید تنقید کرتے ہوئے زرعی پالیسی کو کسان دشمن قرار دے دیا۔

حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی نے قرضوں پر سود کی شرح کے حوالے سے صنعت کاروں کو کسانوں کے مقابلے میں زیادہ رعایت دینے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران توجہ دلاؤ نوٹس پر رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی شیخ فیاض الدین، قصور کے رانا محمد حیات خان اور رشید احمد خان نے حکومت کی قرضہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ کسانوں سے 16 فیصد سود وصول کررہا ہے جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے مقرر کیے گئے 5.75 فیصد کی مخالفت ہے۔

رانا محمد حیات نے شکایت کی کہ 'جب اسٹیٹ بینک دیگر بینکوں کو قرضوں پر 5.75 سود کی اجازت دیتا ہے تو وہ کسانوں سے 14 سے 16 فیصد تک کیسے وصول کررہے ہیں؟ جبکہ صنعتوں سے قرضوں پر 6.5 فیصد سود وصول کیا جاتا ہے، یہ انتہائی نا انصافی ہے'۔

انھوں نے کہا کہ 'یہ صنعتکار اربوں روپے کے قرض نادہندہ ہیں، لیکن ایک کسان کو 10 لاکھ سے زائد کا قرضہ بھی نہیں دیا جاتا، خدا کے واسطے انھیں صنعتکاروں کے برابر لایا جائے'۔

حکومت کا دفاع کرتے ہوئے فنانس کے پارلیمانی سیکریٹری رانا افضال خان نے کہا کہ زرعی پیداوار میں کمی کے عوامل میں نامناسب تحقیق اور ترقی شامل ہیں۔

انھوں نے زری ترقیاتی بینک پر قرضوں کے طریقہ کار میں بد انتظامی کا الزام لگایا اور کہا کہ اس کے ذریعے سے صرف 20 فیصد قرضے ہی فراہم کیے جاتے ہیں جبکہ دیگر 80 فیصد زرعی قرضے کمرشل بینک جاری کرتے ہیں۔

تاہم انھوں نے ساتھ ہی کہا کہ حکومت ناخوش کسانوں کے تحفظات کو دور کرنے کیلئے ان سے بات چیت کرنا چاہتی ہے۔

رشید احمد خان نے پارلیمانی سیکریٹری کی جانب سے پیش کیے گئے اعداد شمار کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ کسانوں کو 16.5 فیصد شرح سود سے کم قرضے فراہم نہیں کیے جارہے، اگر اس میں ریکوری کی فیس کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ 18 فیصد تک پہنچ جاتے ہیں، کسانوں کا اس سے زیادہ استحصال کیا ہوسکتا ہے؟ دوسری جانب زراعت کا شعبہ ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ ہمارے ساتھ یہ سلوک کیا جارہا ہے'۔

انھوں نے متعدد دیگر عوامل، جن میں کھاد اور بجلی کے نرخ شامل ہیں، کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ہر چیز ایک عام کسان کی پہنچ سے دور ہوگئی ہے اور مطالبہ کیا کہ زرعی قرضوں پر شرح سود کو 10 فیصد سے کم کیا جائے۔

لیکن پارلیمانی سیکریٹری افضال خان نے کہا کہ صنعتی قرضوں پر کمرشل بینکس تقریبا 9 فیصد تک سود وصول کرتے ہیں جبکہ کمرشل بینک کثیر تعداد میں کروڑوں روپے مالیت کے قرضے فراہم کرتے ہیں، دوسری جانب متعدد کسان انتہائی کم رقم کے حصول کیلئے کمرشل بینک سے رابطہ کرتے ہیں اور انتہائی کم شرح سود پر قرضے دینا ان کیلئے ممکن نہیں ہے۔

پارلیمانی سیکریٹری کی اس وضاحت پر شیخ فیاض الدین نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے انھیں مخاطب کیا اور کہا کہ 'آپ ہمارے ساتھ نہ صرف مخالفین بلکہ دشمنوں جیسا برتاؤ کررہے ہیں'۔

انھوں نے کہا کہ 'حکومت کی زرعی دشمن پالیسی وہ واحد وجہ ہے جس سے ہماری زرعی برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے'، ان کی اس بات پر اپوزیشن اراکین کی جانب سے ڈیکس بجا کر خوب داد دی گئی۔

انھوں نے کہا کہ 'میں آپ سے کہتا ہوں، کیا آپ نیشنل بینک اور زرعی ترقیاتی بینک کو ایک فیصد سے زائد وصول کرنے سے روک سکتے ہیں؟ اگر وہ اسٹیٹ بینک سے 5.75 فیصد شرح سود پر قرض حاصل کررہے ہیں تو وہ ہم سے 14 فیصد کیوں وصول کرتے ہیں؟ انھیں کسانوں کو 7 فیصد پر قرض فراہم کرنا چاہیے، اس سے زیادہ نہیں، ہم ان سے کم سے کم یہ تو کہہ سکتے ہیں یا ہمیں اللہ کی مدد کیلئے دعا کرنی چاہیے؟'

اس بات نے پارلیمانی سیکریٹری کو مزید دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کیا اور انھوں نے زرعی شعبے کو پہنچے والے نقصان کا ذمہ دار سابق حکومت کو قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت کسانوں کو سبسڈی اور پیکجز فراہم کررہی ہے، جن میں زرعی شعبے میں استعمال ہونے والی اشیاء کی قیمتوں میں کمی اور سود میں کمی بھی شامل ہے، تاہم آپ کے مسئلے کو نوٹ کیا گیا ہے اور اسے جلد حل کردیا جائے گا'۔

دوسری جانب اس دوران پاکستان تحریک انصاف کے رکن اسمبلی عارف علوی، شیریں مزاری اور دیگر اراکین نے ایوان میں شور شرابا کرکے مسلم لیگ نواز کے اراکین کو حکومت کے خلاف تنقید کرنے سے روکنے کی کوشش۔

یہ رپورٹ 2 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024