لاہور دھماکے میں جاں بحق فرض شناس پولیس افسران
لاہور: 'مجھے وہاں جانے دو تاکہ میں مال روڈ پر موجود کیمسٹس سے مذاکرات کرکے انھیں احتجاج ختم کرنے کے لیے راضی کرسکوں اور سڑک کو عوام کے لیے کلیئر کیا جاسکے'۔
یہ الفاظ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ٹریفک کیپٹن (ر) سید احمد مبین کے تھے، جو گذشتہ روز لاہور میں ہونے والے خودکش دھماکے میں جان کی بازی ہار گئے۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) آپریشنز زاہد محمود گوندل بھی اسی دوران ڈی آئی جی ٹریفک مبین کے ہمراہ ہولیے اور وہ بھی اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران لقمہ اجل بن گئے۔
مزید پڑھیں: پنجاب اسمبلی کے سامنے خودکش دھماکا،ڈی آئی جی ٹریفک سمیت 13 ہلاک
ایک سینئر پولیس افسر کے مطابق، 'ڈی آئی جی مبین کی زندگی کا طرہ امتیاز اپنے کام سے عقیدت اور ایمانداری تھی، انھوں نے انتہائی سخت حالات میں بھی کبھی ڈیوٹی میں غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا، وہ اپنے کسی ماتحت کو بھی احتجاج کرنے والے کیمسٹس سے مذاکرات کے لیے بھیج سکتے تھے، لیکن اپنے فرائض کی انجام دہی کے عزم نے انھیں ایسا نہیں کرنے دیا'۔
پاک فوج سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد کیپٹن سید احمد مبین نے 1996 میں 24ویں پولیس کامن فورس میں شمولیت اختیار کی اور زیادہ تر پنجاب اور بلوچستان میں تعینات رہے، کوئٹہ کے رہائشی ہونے کی حیثیت سے وہ ماڈل ٹاؤن کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی)، پاکپتن اور قصور کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) اور ڈی آئی جی کوئٹہ بھی تعینات رہے۔
وہ 2013 میں کوئٹہ کی پولیس لائنز میں ہونے والے دھماکے میں بھی بال بال بچے تھے، جس کے دوران ڈی آئی جی (آپریشنز) فیاض احمد سنبل 30 افراد سمیت جاں بحق ہوگئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور دھماکا: 'یا خدایا، میں نے خون اور لاشوں کو خود دیکھا‘
مذکورہ پولیس افسر کے مطابق، 'ڈی آئی جی احمد مبین نے فیاض احمد سنبل کی وفات کے بعد ان کے اہلخانہ کی بھی بھرپور دیکھ بھال کی، ان کی موت ایک بہت بڑا نقصان ہے، صرف ان کے اہلخانہ کے لیے ہی نہیں بلکہ ان کے لیے بھی جن کی وہ دیکھ بھال کر رہے تھے'۔
کیپٹن (ر) احمد مبین کی ایمانداری اور کام سے عقیدت کو یاد کرتے ہوئے ان کے ایک قریبی دوست اور فیڈرل انوسیٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) پنجاب کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عثمان انور نے بتایا، 'مبین ان چند بہترین اور محنتی پولیس افسران میں سے ایک تھے، جن سے میری ملاقات ہوئی'۔
ڈاکٹر عثمان انور نے بتایا، 'ڈیفنس اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کی حیثیت سے ذمہ داریاں سرانجام دیتے ہوئے احمد مبین نے 2 بچوں کے اغواء کے کیس کو حل کرنے کے لیے مسلسل ایک ہفتے تک اس حالت میں کام کیا کہ وہ 104 بخار میں تَپ رہے تھے'۔
ان کا کہنا تھا کہ کیپٹن (ر) احمد مبین ایک ذہین اور قابل افسر تھے، جن کی پولیس فورس کو آج اشد ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں:لاہور دھماکا: ’حملہ آور ایک سے زائد تھے‘
لاہور میں وہ کنٹونمنٹ کے علاقے میں سرکاری گھر میں رہائش پذیر تھے۔
ڈی آئی جی مبین، مشہور فزیشن ڈاکٹر قرار حسین زیدی کے صاحبزادے تھے، انھوں نے سوگواران میں ایک بیوہ، 3 بیٹیاں اور ایک 3 سالہ بیٹا چھوڑا ہے، ان کی بڑی صاحبزادی ایم بی بی ایس کی طالبہ ہے۔
دوسری جانب 43 سالہ ایس ایس پی زاہد گوندل، 32ویں کامنر تھے، جنھوں نے 2015 میں پولیس سروس جوائن کی۔
منڈی بہاؤ الدین کے علاقے ملک وال کے رہائشی زاہد گوندل نے راجن پور کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر اور ایس ایس پی لاہور کے وی وی آئی پی سیکیورٹی کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیں۔
گورنمنٹ کالج لاہور میں زاہد گوندل کے ساتھ پڑھنے والے ایس ایس پی سرفراز احمد نے بتایا، 'زاہد بہت نرم دل اور ایک ایماندار پولیس افسر تھے'۔
ان کا کہنا تھا کہ زاہد گوندل جیسے افسران کو کھو دینا پوری قوم اور پولیس فورس کا ایک بہت بڑا نقصان ہے۔
زاہد گوندل نے سوگواران میں ایک بیوہ اور 2 بیٹیاں چھوڑی ہیں۔
پولیس افسران نے ڈان سے بات کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ وہ ان افسران کو تمغہ شجاعت سے نوازے اور ان کے اہلخانہ کی دیکھ بھال کو بھی یقینی بنایا جائے۔
یہ خبر 14 فروری 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی
تبصرے (1) بند ہیں