کلبھوشن یادیو سےمتعلق تحریک التوا سینیٹ میں بحث کیلئےمنظور

شائع June 5, 2017

اسلام آباد: بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پر حکم امتناع سے متعلق تحریک التوا سینیٹ میں بحث کے لیے منظور کرلی گئی، جس کے بعد چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے وزارت خارجہ اور اٹارنی جنرل آف پاکستان کو نوٹس جاری کردیے۔

چیئرمین رضا ربانی کی صدارت میں سینیٹ اجلاس ہوا تو سینیٹر سراج الحق نے کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پر حکم امتناع کے معاملے سے متعلق تحریک التوا پیش کی، جسے چیئرمین سینیٹ نے بحث کے لیے منظور کرلیا۔

چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے، اس تحریک التوا پر 2 گھنٹے بحث کی جائے گی۔

چیئرمین سینیٹ نے وزارت خارجہ اور اٹارنی جنرل آف پاکستان کو بحث کے دوران اجلاس میں موجودگی کے لیے نوٹس جاری کردیے۔

مزید پڑھیں: حتمی فیصلہ آنے تک پاکستان کلبھوشن کو پھانسی نہ دے، عالمی عدالت

اس سے قبل سینیٹر سراج الحق نے تحریک التوا پیش کرتے ہوئے کہا کہ کلبھوشن کے معاملے پر بیانات دیے گئے کہ عالمی عدالت انصاف میں پیشی کے موقع پر پاکستان کی تیاری نہیں تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اب بھی اس قسم کے بیانات دیے جا رہے ہیں، جس سے ابہام پیدا ہو رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت نے کلبھوشن کے معاملے پر توقعات کے مطابق ذمہ داری ادا نہیں کی، اس معاملے پر اٹھائے گئے اقدامات پر شرمندگی ہوئی۔

سراج الحق نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف نے انڈیا کے موقف کو اپناتے ہوئے کلبھوشن کی پھانسی پر حکم امتناع جاری کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس انڈیا اور کلبھوشن سے متعلق حقائق عالمی سطح پر سامنے لانے کے لیے یہ اہم موقع تھا اور پاکستان کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا۔

سراج الحق کا کہنا تھا کہ کلبھوشن کی گرفتاری 70 سال کے بعد بڑی کامیابی تھی، کلبھوشن کے معاملے کے بعد انڈیا مسلسل پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے۔

انھوں نے واضح کیا کہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن یادیو کون ہے؟

18 مئی 2017 کو اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف ہندوستان کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ حتمی فیصلہ آنے تک کلبھوشن کو پھانسی نہیں دی جاسکتی۔

یاد رہے کہ بھارت نے رواں ماہ 10 مئی کو جاسوس کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف عالمی عدالت انصاف سے رابطہ کرکے پاکستان پر ویانا کنوینشن کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا۔

15 مئی کو درخواست پر پہلی سماعت کے دوران بھارت نے عالمی عدالت انصاف سے اپیل کی تھی کہ پاکستان کو کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کو معطل کرنے کی ہدایات جاری کی جائیں کیونکہ اس فیصلے سے کلبھوشن کے بنیادی حقوق مجروح ہوئے ہیں۔

کلبھوشن کی گرفتاری اور ٹرائل

3 مارچ 2016 کو حساس اداروں نے بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے بھارتی جاسوس اور نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا تھا۔

'را' ایجنٹ کی گرفتاری کے چند روز بعد اس کی ویڈیو بھی سامنے لائی گئی تھی، جس میں کلبھوشن یادیو نے اعتراف کیا تھا کہ اسے 2013 میں خفیہ ایجنسی 'را' میں شامل کیا گیا اور وہ اس وقت بھی ہندوستانی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے۔

کلبوشھن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد 'را' کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔

ویڈیو میں کلبوشھن نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔

مزید پڑھیں: کلبھوشن تک قونصلر رسائی: 'جاسوسی کو ہوا دینے کے مترادف'

گذشتہ ماہ 10 اپریل کو پاکستان کی جاسوسی اور کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنادی گئی تھی۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو یہ سزا پاکستان میں جاسوسی اور تخریب کاری کی کارروائیوں پر سنائی گئی تھی۔

کلبھوشن یادیو کا ٹرائل فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن 59 اور سرکاری سیکرٹ ایکٹ 1923 کے سیکشن 3 کے تحت کیا تھا، جس کی توثیق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کردی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 4 مئی 2025
کارٹون : 3 مئی 2025