آخر وہاب ریاض کس مرض کی دوا ہیں؟
چلیے آپ سے ایک آسان سا سوال پوچھتے ہیں، یہ بتائیے کہ وہاب ریاض نے اپنی باؤلنگ سے پاکستان کو آخری مرتبہ کوئی میچ کب جتوایا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ یادداشت پر زور ڈالیں گے تو بھی انتہائی کوشش کے باوجود آپ کو ایسا کوئی انوکھا موقع یاد نہ آئے۔
صرف بھارت کے خلاف میچ ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی جب جب پاکستان کوئی میچ انتہائی برے طریقے سے ہارا (ہم حالیہ عرصے کے دوران اکثر ہی میچ بہت برے طریقے سے ہارے ہیں) تو جہاں سب لوگوں نے انتہائی تنقید کی وہیں تمام ہی حلقوں کی جانب سے ایک سوال یہ بھی سامنے آیا کہ آخر وہاب ریاض کس مرض کی دوا ہیں اور انہیں کس لیے ٹیم میں رکھا ہوا ہے؟
2011 کے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میچ میں بھارت کے خلاف یادگار اسپیل سے وہاب ریاض نے بتایا کہ وہ بڑے میچوں میں باؤلنگ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن اگلے چار سال تک جمود طاری ہو گیا اور سوائے ایک آدھ اسپیل کے، فاسٹ باؤلر کوئی بھی قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکے۔
پڑھیے: چیمپیئنز ٹرافی میں پاک-بھارت مقابلوں کی تاریخ
2015 ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میں آسٹریلیا کے خلاف میچ میں ان کے اسپیل کی بہت تعریف کی گئی جہاں انہوں نے خصوصاً شین واٹسن کو بہت پریشان کیا لیکن سب یہ بات بھول گئے کہ پاکستان وہ میچ ’ہار‘ گیا تھا۔
وہ اسپیل ہے اور آج کا دن، ان سے دوبارہ اچھی کارکردگی کی امید لگا کر بیٹھے حکام، انتہائی ثابت قدمی اور تحمل کے ساتھ مسلسل انہیں کھلائے چلے جا رہے ہیں۔
اگر اعدادوشمار کے آئینے میں دیکھیں تو 2015 ورلڈ کپ میں ایڈیلیڈ کے مقام پر آسٹریلیا کے خلاف کھیلے گئے اس میچ کے بعد سے اب تک وہاب ریاض 25 ون ڈے میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔
اس دوران کئی باؤلر آئے، کسی کو فٹنس کے بہانے باہر کیا گیا تو کسی کی ٹیم مینجمنٹ سے بن نہ سکی جبکہ کئی کھلاڑیوں کو وجہ بتائے بغیر ہی ٹیم سے باہر کا راستہ دکھا دیا گیا لیکن وہاب ریاض ٹیم کیلئے لازم و ملزوم بنے رہے۔
اس دوران وہاب ریاض نے 25 وکٹیں لیں جس میں سے انہوں نے 13 میچ ویسٹ انڈیز، زمبابوے اور بنگلہ دیش جیسی ٹیموں کے خلاف کھیلے اور 19 وکٹیں حاصل کیں۔
اگر بات کی جائے بڑی ٹیموں کے خلاف میچوں کی تو انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور انڈیا کے خلاف کھیلے گئے بقیہ 12 میچوں میں وہاب ریاض نے 660 رنز دے کر صرف چھ وکٹیں لیں یعنی انہوں نے ایک وکٹ کے لیے 110 رنز دیے (اس دوران انگلینڈ کے خلاف ایک ون ڈے میچ میں 110 رنز کی پٹائی بھی برداشت کی)۔
ان تمام بڑی ٹیموں کے خلاف فاسٹ باؤلر نے 94 اوورز کیے اور سات میچوں میں اپنے کوٹے کے اوورز بھی مکمل نہ کیے جس سے ’ورلڈ کلاس‘ باؤلر کی فٹنس کے معیار کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اب بھارت کے خلاف میچ کی بات کرتے ہیں جس سے قبل اس طرح کی اطلاعات منظر عام پر آئیں کہ وہاب ریاض انجری کا شکار ہیں لیکن انڈین ٹیم کے خلاف جنید خان کے متاثر کن ریکارڈ کے باوجود انہیں ڈراپ کر کے وہاب کو موقع دیا گیا اور پھر جو ہوا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔
وہاب نے 8.4 اوورز میں 87 رنز دیے اور کوئی وکٹ بھی حاصل نہ کر سکے اور اس باؤلنگ کے ساتھ چیمپیئنز ٹرافی کی تاریخ میں کسی بھی میچ میں سب سے زیادہ رنز دینے والے باؤلر بھی بن گئے۔
ویسے تو موجودہ پاکستان کرکٹ ٹیم کو کئی امراض لاحق ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہاب ریاض ان میں سے کس مرض کی دوا ہیں۔ سہیل خان، راحت علی، عمران خان اور کئی متعدد فاسٹ باؤلرز کو فٹنس، فارم اور نہ جانے کس کس بنیاد پر ٹیم سے باہر کیا جاتا رہا لیکن وہاب ریاض ٹیم کا حصہ بنے۔
پڑھیے: بھارت کے خلاف بدترین باؤلنگ، وہاب نے معافی مانگ لی
ایسا نہیں ٹیسٹ یا ٹی ٹوئنٹی میں انہوں نے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے ہوں بلکہ وہاں بھی کارکردگی ہمیشہ ہی واجبی رہی لیکن اس کے باوجود ان پر کرامات کا سلسلہ جاری رہا۔
وہاب کی انجری کے بعد مکی آرتھر نے انہیں میچ کھلانے کی ذمے داری قبول کی جس سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ ہیڈ کوچ کھلاڑیوں کی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ٹیم کا حصہ بنا رہے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال سہیل خان کا ٹیم سے اخراج ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم ون ڈے رینکنگ میں آٹھویں نمبر پر کیوں موجود ہے اس کا جواب یقیناً متعدد لوگوں کو بھارت کے خلاف میچ میں مل گیا ہو اور اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیم مینجمنٹ، سلیکشن کمیٹی اور دیگر متعلقہ حکام بھی اس بات کو تسلیم کر لیں کہ ٹیم کو بڑے ناموں کی نہیں بلکہ بڑے کام کرنے والوں کی ضرورت ہے ورنہ ممکنہ طور پر وہ دن دور نہیں ہو گا جب ہم عالمی رینکنگ میں کہیں نویں یا دسویں نمبر پر موجود ہوں اور افغانستان جیسی کم تجربہ کار ٹیم کے خلاف بھی جیت کے لیے دعائیں مانگ رہے ہوں گے۔
تبصرے (2) بند ہیں