گاؤں میں پابندی سے ’فخر پاکستان‘ تک کا سفر
کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک ایسا موقع بھی آیا کہ فخر زمان کے کرکٹ کھیلنے پر گاؤں میں پابندی لگا دی گئی تھی اور انہیں ان کے بھائیوں نے بہت مارا تھا جس کی وجہ محض یہ تھی کہ وہ بہت اچھا کھیلتے ہیں لیکن پاکستان کو چیمپیئنز ٹرافی میں فتح دلانے کے بعد وہ ایک ہیرو کی حیثیت سے وطن واپس لوٹے ہیں۔
27 سالہ نوجوان کھلاڑی جب انگلینڈ سے اپنے آبائی علاقے کٹلنگ پہنچے تو ان پر گل پاشی کی گئی اور لوگ ان کے ساتھ سیلفی بنوانے کیلئے بے قرار نظر آتے تھے۔
اوپننگ بلے باز نے کہا کہ انہیں ابھی تک یقین نہیں ہو رہا کہ انہوں نے چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں روایتی حریف بھارت کے خلاف 106 گیندوں پر 114 رنز کی اننگز کھیل کر پاکستان کو فتح سے ہمکنار کرایا۔
لندن میں کھیلے گئے فائنل میچ میں سنچری بنانے کے بعد کا احوال سناتے ہوئے فخر نے کہا کہ میں اس وقت کچھ زیادہ محسوس نہیں کر رہا تھا۔ پھر جب میں یہاں آیا تو لوگ مجھ سے ملنے کیلئے آنا شروع ہو گئے۔ یہ سب مجھ پر اپنی محبتیں نچھاور کر رہے ہیں جس کے بعد اب مجھے اندازہ ہو رہا ہےی کہ میں نے کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔
عالمی درجہ بندی میں آٹھویں نمبر پر موجود پاکستانی ٹیم نے پہلے میچ میں بدترین شکست کے بعد بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عالمی نمبر ایک جنوبی افریقہ، سری لنکا اور میزبان انگلینڈ کو شکست دینے کے بعد فائنل تک رسائی حاصل کی۔
فائنل میں فیورٹ اور دفاعی چیمپیئن بھارتی ٹیم کے خلاف اوپننگ بلے باز زمان کی سنچری اور اظہر علی اور محمد حفیظ کی نصف سنچریوں کی مدد سے چار وکٹ کے نقصان پر 338 رنز اسکور کیے۔
ان شاندار کارکردگی پر میچ کے دوران ہی سوشل میڈیا پر ان کی مداح سرائی شروع ہو گئی اور ان کی تصاویر ہر جگہ وائرل ہو گئیں۔ تاہم فخر کیلئے کرکٹر کھیلنا اتنا آسان کبھی نہ تھا کیونکہ ایک ایسا موقع بھی آیا جب گاؤں کے مقامی ٹورنامنٹ اور میچوں میں انہیں کرکٹ کھلانے سے انکار کردیا گیا تھا۔
’میں نے اسکول میں بمشکل ایک یا دو ہارڈ بال میچز کھیلے تھے اور کچھ رنز بھی کیے۔ اس کے بعد پورے ریجن میں یہ مشہور ہو گیا اور میں جہاں بھی جاتا لوگ یہی کہتے کہ یہ ہارڈ بال کا کھلاڑی ہے، اسے نہیں کھلانا‘۔
ان کے بڑے بھائی آصف نے شرمندگی سے بتایا کہ فخر کے بھائی بھی انہیں مارتے تھے تاکہ کرکٹ کھیلنے سے روک سکیں لیکن انہوں نے کرکٹ کھیلنا نہیں چھوڑی اور آج ہمارے ہیرو بن گئے۔
سمندر کا سفر
فخر نے بتایا کہ بچپن میں انہوں نے اپنا زیادہ تر وقت کرکٹ کیلئے وقف کردیا تھا لیکن کبھی بھی کلب کی سطح سے آگے کھیلنے کا نہیں سوچا تھا بلکہ وہ تو بحریہ کے کمانڈو بننا چاہتے تھے۔
’بحریہ کا حصہ بننا میری زندگی کا سب سے ٹرننگ پوائنٹ تھا‘۔
پاک بحریہ میں سیلر کی حیثیت سے بھرتی ہونے کے بعد وہ افواج کے ٹورنامنٹ میں شریک ہوئے جہاں نیوی کے کوچ ناظم خان نے ان میں موجود ٹیلنٹ کا فوری طور پر اندازہ لگا لیا اور نیوی چھوڑ کر کرکٹ کھیلنے کیلئے ان کی حوصلہ افزائی کی۔
فخر نے ماضی کے جھرونکوں میں جھانکتے ہوئے بتایا کہ ناظم خان نے کہا کہ تم اعلیٰ سطح پر کرکٹ کھیل سکتے ہو۔
وہ پانچ سال تک ڈومیسٹک ٹورنامنٹس میں مسلسل کارکردگی دکھاتے رہے لیکن یہ پاکستان سپر لیگ ہی تھی جس نے ان کی قسمت بدل دی اور لاہور قلندرز کی نمائندگی کرتے ہوئے عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرنے پر سلیکٹرز کی نگاہ ان پر ٹھہر گئی۔
فخر کو پہلی مرتبہ قومی ٹیم کی نمائندگی کا موقع اس وقت ملا جب انہیں دورہ ویسٹ انڈیز پر ٹی20 میچز کیلئے قومی ٹیم کا حصہ بنایا گیا۔
آغاز زیادہ اچھا نہ تھا جہاں وہ دو اننگز میں صرف 26 رنز بنا سکے لیکن یہ کارکردگی بھی چیمپیئنز ٹرافی میں ان کی جگہ بنانے کیلئے کافی ثابت ہوئی۔
بھارت کے خلاف ایونٹ کے افتتاحی میچ میں احمد شہزاد کی مایوس کن کارکردگی پر اگلے میچ میں فخر کو موقع دیا گیا۔
اوپننگ بلے باز نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور پہلے ہی میچ میں جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے 31 رنز کی اننگز کھیلی اور بارش سے متاثرہ میچ میں ان کی یہ باری ٹیم کی فتح میں کلیدی کردار ادا کر گئی۔
اس کے بعد انہوں نے سری لنکا اور انگلینڈ کے خلاف میچوں میں نصف سنچریاں اسکور کرتے ہوئے فائنل میں شاندار سنچری بنا کر پاکستان کو تاریخی فتح سے ہمکنار کرا دیا۔
اب پاکستان کے اس ابھرتے ہوئے اسٹار کا پیچھے مڑ کر دیکھنے کا کوئی ارادہ نہیں اور وہ طویل عرصے تک شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے سبز ستارہ سینے پر سجا کر قومی ٹیم کی نمائندگی کیلئے پرعزم ہیں۔