بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت کیوں تسلیم نہیں کیا جاسکتا؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 6 دسمبر کو دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک بیت المقدس (یروشلم) کو کئی ممالک کی جانب سے غیر تسلیم شدہ ریاست اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے ایک نئے تنازع کا آغاز کردیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ہی ماضی کے امریکی صدور کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ایسا فیصلہ کردکھایا جو صرف وہی کرسکتے ہیں۔
امریکا کے اس متنازع فیصلے پر جہاں عرب و مسلم ممالک کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا، وہیں کئی غیر مسلم ممالک یہاں تک کے امریکا کے انتہائی اہم اتحادی ممالک کی جانب سے بھی اس کی مذمت کی گئی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت برطانیہ نے بھی کی، جس نے اسرائیل جیسے ملک کو دنیا میں آباد کرنے کا آغاز کیا۔
ایک مقدس، قدیم ترین، خود مختار اور کسی بھی طرح اسرائیل کے زیرانتظام نہ رہنے والے شہر کو کس طرح اس کا دارالحکومت تسلیم کیا جاسکتا ہے، یہ تو صرف ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو انتظامیہ ہی بتاسکتی ہے، باقی دنیا اس فیصلے کی دانشمندی سمجھنے سے بھی قاصر ہے۔
اسرائیل کی جانب سے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بنانے کا خواب یوں تو 70 سال پرانا ہے، تاہم اس نے خود کو تسلی دینے کے لیے سب سے پہلے 1980 میں یروشلم کو پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے بل کے ذریعے دارالخلافہ قرار دیا، جس کی مذمت اس وقت نہ صرف عرب و مسلمان ممالک بلکہ امریکا سمیت دیگر ممالک نے بھی مخالفت و مذمت کی، مگر آج 37 سال بعد امریکا نے اس فیصلے کو تسلیم کرکے ایک نئے تنازع کا آغاز کردیا۔
امریکا اس وقت دنیا کا واحد اور پہلا ملک ہے، جس نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا ہے۔
لیکن باقی دنیا بیت المقدس یا یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت اس لیے بھی تسلیم نہیں کرسکتی کہ اس شہر کو اقوام متحدہ (یو این) 1947 میں ایک عالمی خود مختار شہر کا درجہ دے چکی ہے۔
اس شہر کو انتظامی حوالے سے مکمل طور پر نہ تو فلسطین کے اختیار میں دیا گیا، نہ ہی اسرائیل کے اختیار میں، تو پھر کیسے اس شہر کو متعدد ممالک کی جانب سے غیر تسلیم شدہ ریاست کا دارالحکومت مانا جائے؟َ
اسرائیل کی جانب سے بیت المقدس پر قبضے اور اسے اپنا دارالحکومت تسلیم کروانے کا سلسلہ جنگ عظیم دوئم کے بعد اس وقت شروع ہوا، جب برطانیہ و امریکا سمیت یورپی ممالک کے آشیرواد سے یہودیوں کو یورپ سے پناہ گزینوں کی حیثیت میں فلسطین میں آباد کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
یوں تو یہودیوں کو اس سرزمین پر آباد کرنے کا سلسلہ 1922 میں برطانیہ کے فلسطین پر قبضے کرنے کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا، تاہم اس میں جنگ عظیم دوئم کے دوران اس وقت شدت آئی جب جرمنی کے چانسلر ایڈولف ہٹلر نے یہودوں کے خلاف زمین تنگ کردی۔
برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ اس عالمی تقسیم کے بعد کیا، جس میں جنگ عظیم اول میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد برطانیہ اور فرانس کو سلطنت عثمانیہ کے کئی علاقوں کا کنٹرول دیا گیا تھا۔
سلطنت عثمانیہ جنگ عظیم اول میں برطانیہ اور فرانس کے مخالف گروپ یعنی جرمنی کے ساتھ تھا، اسی گروپ کو شکست ملنے کے بعد جہاں جرمنی کو کمزور ترین کردیا گیا، وہیں سلطنت عثمانیہ کو بھی توڑ کر مختلف ممالک اور علاقوں میں تقسیم کردیا گیا تھا۔
یوں 1922 سے لے کر 1947 تک فلسطین میں یورپ سمیت دنیا کے دیگر خطوں سے لائے گئے یہودیوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ برطانیہ و امریکا سمیت دیگر یورپی ممالک کو ان کے لیے ایک الگ ریاست قائم کرنے کا خیال آیا۔
برطانیہ نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ معاملہ اس وقت نئے نئے بننے والے اقوام متحدہ میں بھیج دیا، جس نے معاملے کی سنگینی کا جائزہ لینے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی(یو این ایس سی او پی) تشکیل دی، جس کی ذمہ داری فلسطین کی یہودیوں اور عربوں میں تقسیم کرنا تھا۔
یوں انتہائی کم عرصے میں اس کمیٹی نے فلسطینی سرزمین کو تقسیم کرنے کی سفارش کردی، جس کے بعد اقوام متحدہ نے 23 ستمبر 1947 کو ریزولیشن 181 کے تحت اسے یہودیوں اورعرب قوم میں تقسیم کرکے ’بیت المقدس‘ کو ایک الگ اور خودمختار حیثیت دے دی۔
اس قرارداد کے اگلے سال ہی اسرائیل نے عرب ممالک سے جنگ کرکے جہاں بیت المقدس شہر کے مغربی حصے پر قبضہ کیا وہیں تل ابیب کو اپنا دارالحکومت قرار دے کر اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان بھی کردیا، اس جنگ میں اسرائیل کے خلاف مصر اور اردن کی سربراہی میں شام، لبنان اور عراق بھی شامل ہوئے۔
یوں اسرائیل کے قبضے سے لے کر آج تک جہاں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کا تصادم ہوتا رہتا ہے وہیں، اسرائیل کے ساتھ 1967 میں شام، مصر اور اردن نے ایک بار پھر جنگ لڑی، لیکن اس بار بھی عرب ممالک کو کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی، اور اسرائیل نے بیت المقدس کے مشرقی شہر پر بھی قبضہ کرلیا۔
اس سے قبل بیت المقدس شہر کا مشرقی حصہ اردن کے کنٹرول میں تھا۔
خود اسرائیلی حکومت نے بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ 1967 میں لگنے والی جنگ سے قبل بیت المقدس کا مشرقی حصہ بشمول شہر کا پرانا حصہ اردن کے پاس تھا، لیکن اسرائیل نے جنگ کے اختتام پر اس پر قبضہ کرلیا۔
اس جنگ کے محض 13 سال بعد 1980 میں اسرائیل نے ’یروشلم لا‘ نامی ایک بل پاس کیا، جس میں اسے اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا گیا۔
اسرائیل کے اس بل کے خلاف اسی سال اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ہنگامی اجلاس کے دوران ’ریزولیشن 478‘ پاس کرتے ہوئے اس قانون کو کالعدم قرار دیا.
نہ صرف اقوام متحدہ بلکہ اسرائیل کے اس قانون کو امریکا و روس سمیت درجنوں ممالک نے بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بیت المقدس کے مشرقی حصے پر قبضہ کیا گیا، اس لیے اس قانون کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
امریکا اور روس سمیت دیگر ممالک نے بعد ازاں قبضے سے حاصل کیے گئے بیت المقدس کے علاقے میں اسرائیلی بستیوں کے قیام کی بھی مخالفت کی، اور اس پر حکومتی بیان بھی جاری کیے۔
لیکن ان تمام معاملات کے باوجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 6 دسمبر کو بلآخر بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ فیصلہ امریکی حکومت کی جانب سے 1995 میں کیے گئے اس فیصلے کے پیش نظر کیا، جس میں امریکی حکومت صہیونی ریاست سے یہ معاہدہ کر چکی تھی کہ امریکا ’بیت المقدس‘ کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے منتقل کرے گی۔
امریکا نے اسرائیل کے ساتھ یہ معاہدہ بار بار صہیونیوں کی جانب سے کیے جانے والے مطالبے کے بعد کیا۔
تاہم امریکا کے مختلف صدور نے گزشتہ 23 سال سے اپنے ہی اس معاہدے پر عمل نہیں کیا، یہاں تک کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اقتدار سنبھالتے ہوئے اس فیصلے کو 6 ماہ کے لیے ملتوی کیا تھا، اور خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ اس معاملے کو مزید عرصے تک ملتوی کریں گے، لیکن توقعات کے برعکس انہوں نے 6 دسمبر کو یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے دنیا کو چونکا دیا۔
یروشلم کثیرالمذہبی و کثیرالثقافتی شہر
بیت المقدس دنیا کا وہ واحد شہر ہے جس میں تین بڑے مذاہب یعنی مسیحیت، اسلام اور یہودیت کے پیروکار بستے ہیں۔
اس شہر میں تین مذاہب کی صدیوں پرانی عبادت گاہیں موجود ہیں، جب کہ تینوں مذہب کے لوگ اسے اپنے اپنے عقیدوں کے مطابق سب سے مقدس شہر مانتے ہیں۔
مسیحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی وجہ سے اس شہر کو مقدس مانتے ہیں، جب کہ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ دیوار گریہ ہیکل سلیمانی کا حصہ ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے یہ شہر مقدس ہے۔
یہاں مسلمانوں کا قبلہ اول بھی ہے، جس کی وجہ سے یہ ان کے لیے بھی مقدس شہر ہے۔
دیوار گریہ کو یہودی ہیکل سلیمانی کا حصہ قرار دیتے ہوئے یہاں آکر عبادات کرتے ہیں، وہ اس دیوار کو ہاتھوں سے چھونے کے بعد کچھ دیر تک خاموشی سے آنسو بہاتے رہتے ہیں۔
یہودیوں کے عقیدے کے مطابق ہزاروں سال سے ان کے آباؤ اجداد یہاں آکر عبادات کرنے سمیت غمزدہ ہوا کرتے تھے، جس کی وجہ سے اسے دیوار گریہ کہا جاتا ہے۔
دوسری جانب مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ شب معراج پر جاتے وقت ان کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کا براق اس دیوار پر آکر رکا تھا، جس کی وجہ سے اسے 'دیوار براق' بھی کہا جاتا ہے۔
مرکزی محکمہ شماریات کے مطابق بیت المقدس کی آبادی کو نہ صرف اسرائیلی یہودیوں اور فلسطینیوں کے درمیان بلکہ یہودیوں کی آبادی میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے جبکہ شہر کے ایک تہائی 5 لاکھ 42 ہزار بالغ یہودی خود کو الٹرا آرتھوڈکس کے طور پر نمایاں کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ الٹرا آرتھوڈکس بیت المقدس میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا طبقہ ہے، جس کے دو تہائی سے زیادہ تعداد میں ایلمنٹری اسکول بیت المقدس میں قائم ہیں۔
بیت المقدس میں فلسطینیوں نے اسرائیلی خدمات اور رہائش گاہیں حاصل کررکھی ہیں جبکہ زیادہ تر فلسطینی بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہیں لیتے اور پارلیمانی انتخابات میں بھی ووٹ نہیں ڈالتے۔
اس شہر میں عیسائیوں اور آرمینیائی قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھی بہت بڑی تعداد بستی ہے، لیکن یہ دونوں ایک ہی مذہب کے ماننے والے ہیں۔
اس شہر میں جہاں تین بڑے مذاہب کے لوگ بستے ہیں، اسی طرح یہاں تین مختلف تہذیبوں کی جھلک بھی نظر آتی ہے، یہاں تینوں مذاہب کے ماننے والوں کے روایتی کھانوں کے متعدد ہوٹل اور کئی سیاحتی مقام بھی ہیں، جس وجہ سے یہاں سال بھر سیاحوں کا رش لگا رہتا ہے۔
تبصرے (4) بند ہیں