’پاک-افغان سرحد پر باڑ لگانے کا پہلا مرحلہ آئندہ برس مکمل ہوگا‘
پشاور: سرحد پار فائرنگ اور اسنیپنگ کے باوجود پاک فوج دنیا کی خطرناک سرحدوں میں سے ایک پاک-افغان سرحد کے 150 کلو میٹر طویل حصے پر باڑ لگانے کے منصوبے کو جلد مکمل کرنے کے لیے کام کر رہی ہے جس کو آئندہ برس مکمل کر لیا جائے گا۔
سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ پاک فوج کے ہزاروں جوان اور سیکٹروں گاڑیاں سرحد میں باڑ لگانے کے منصوبے پر روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے کے لیے مختلف مقامات پر تعینات ہیں جو چترال سے لے کر جنوبی وزیرستان تک پاک-افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب کے لیے کام کر رہے ہیں۔
اس منصوبے کا پہلا مرحلہ 2018 کے اختتام تک مکمل کر لیا جائے گا جس میں 4 سو 32 کلومیٹر طویل سرحد کے انتہائی حساس مقامات پر باڑ لگا دی جائے گی۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’خوش کُن‘ کے نام سے دوسرے مرحلے میں 4 سو کلومیٹر طویل سرحد پر باڑ لگائی جائے گی اور پورے منصوبے میں 10 ارب روپے لاگت آئے گی اور یہ کام آئندہ 2 برس میں مکمل ہوگا۔
مزید پڑھیں: پاک-افغان سرحد کو جدا کرتی نئی باڑ
سیکیورٹی حکام نے بتایا کہ علاقے میں نامساعد حالات، سخت سردی اور برفباری میں بھی دن رات باڑ لگانے کا کام جاری ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد پر باڑ ایک حقیقت بن چکی ہے کیونکہ یہ منصوبہ حکمت عملی کے اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے جبکہ پاک فوج نے اس وہم کو بھی ختم کیا کہ اس سرحد پر باڑ نہیں لگائے جا سکتی۔
سیکیورٹی حکام نے بتایا کہ اس سرحد کی قلعہ بندی کو چیک پوسٹس اور دراندازی کا پتہ لگانے والے نظام سے لیس کرکے مزید مستحکم بنایا جائے گا جس میں 443 قلعوں میں سے 150 پہلے ہی تعمیر کیے جاچکے ہیں جن میں سے کچھ 12 ہزار فٹ کی بلندی پر پہاڑوں کی چوٹیوں پر تعمیر کیے گئے ہیں جبکہ 11 سو چیک پوسٹس بھی تعمیر کی جاچکی ہیں۔
سیکیورٹی حکام کا کہنا تھا کہ یہ باڑ پاکستان کے لیے ایک مضبوط دفاعی لکیر کے طور پر مدد فراہم کردے گی۔
یہ بھی پڑھیں: فاٹا اصلاحات پر محمود خان اچکزئی نے نیا فارمولا پیش کردیا
انہوں نے بتایا کہ یہ عزم انسانی جانوں کے دیے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا تھا اور جولائی اور اگست کے مہینے میں باڑ لگانے کے عمل کے دوران ہی سرحد پار فائرنگ سے پاک فوج کا ایک افسر ایک جونیئر کمیشن افسر شہید ہوگئے تھے جبکہ 3 فوجی اہلکار زخمی بھی ہوئے تھے۔
اس منصوبے سے منسلک مہمند کے قبائلی علاقے کے ایک ٹھیکیدار نے بتایا ’یہ کام ’انتہائی مشکل ہے‘، یہاں دن رات کام چل رہا ہے جبکہ ہم غیر معمولی طور پر سرحد پار سے فائرنگ کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔‘
سیکیورٹی حکام اس حوالے سے کہتے ہیں کہ افغانستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے جاری جنگ کے منفی اثرات پاکستان پر پڑے ہیں جن میں سیکیورٹی مسائل اور انتہا پسندی شامل ہے، لیکن سرحدی انتظامات کی بہتری سے یہ معاملات تبدیل ہوئے جبکہ سرحد پار پاکستان میں انتہا پسندوں کی سیکیورٹی مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) میں حکومتی رٹ بحال کر کے امن بحال کیا جاچکا ہے۔
مزید پڑھیں: پاک افغان سرحد پر تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ
انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ خیبرپختونخوا اور فاٹا میں میں 50 ہزار فوجی اہلکاروں کی موجودگی میں مکمل طور پر مردم شماری کرائی گئی، فاٹا سے نیشنل جیپ ریلی کا آغاز کیا گیا اور شمالی وزیرستان میں ’امن کرکٹ میچ‘ بھی کرایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کوششوں کے بغیر ممکن نہیں، پاکستان میں صرف گزشتہ برس خفیہ معلومات کی بنیاد پر 4 ہزار آپریشن کیے گئے جن میں 100 سے زائد انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ 8 ہزار سے زائد دہشت گردوں کو گرفتار کیا جن میں کینیڈین شہری اور اس کے اہلخانہ کی بازیابی کے لیے کیا گیا کامیاب آپریشن بھی شامل ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اب بھی سرحد پار 5 ہزار سے 7 ہزار دہشت گرد بیٹھے ہوئے ہیں جنہیں سرحدی پابندی کی وجہ سے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے آپریشن سے بچے ہوئے ہیں جبکہ وہ حملہ کرنے کے موقع کا انتظار کر رہے ہیں۔
سیکیورٹی حکام کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا بیانیہ شکست کھا چکا ہے اور ان کے لوگوں کو بھرتی کرنے کے معاملات بھی واضح حد تک کم ہوگئے ہیں تاہم سرحد پر افغانستان میں ان کی محفوظ بناہ گاہوں اور ان کے چلانے والوں کی جانب سے ملنے والی مدد کی وجہ سے وہ پاکستان میں آسان اہداف کو نشانہ بنا کر ہمیں تکلیف دینے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ’امریکی امداد کیلئے دہشتگردی کےخلاف جنگ نہیں لڑ رہے‘
ان کا کہنا تھاکہ پاکستان دہشت گردوں کے حملوں کو مکمل طور پر ختم کردینا سب سے بڑی خواہش ہے جسے پورا ہونے میں مزید وقت لگ سکتا ہے۔
معاشی و اقتصادی طور پر فاٹا پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں انتہائی تنزلی کا شکار ہے اور یہاں استحکام کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
سیکیورٹی حکام کا کہنا تھا کہ فاٹا کو تبدیلی کی ضرورت ہے، یہاں محض قانون کے نفاذ سے تبدیلی نہیں آئے گی جبکہ یہاں عملی اقدامات کرنے کی ضروت ہے۔
یہ خبر 30 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
تبصرے (2) بند ہیں