• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

فیس بک ’نیوز فیڈ‘ میں تبدیلی سے کیا کچھ تبدیل ہوگا؟

شائع January 16, 2018 اپ ڈیٹ February 1, 2018

اگر ہم اپنی زندگی کو 14 سال پیچھے لے جائیں اور ایک لمحے کے لیے اُس فیس بک کے بارے میں سوچیں جو 2004ء میں متعارف کروایا گیا تھا، تو ہمیں ماضی اور حال کے فیس بک میں کئی تبدیلیاں نظر آئیں گی، جن تبدیلیوں نے نہ صرف فیس بک بلکہ دنیا اور یہاں تک کہ ہمارے ذہنوں کو بھی تبدیل کردیا ہے۔

اِسی طرح اگر زندگی کو 14 سال آگے کرکے 2032ء کے زمانے کا فیس بک دیکھا جائے تو ہمارا ذہن کام کرنا چھوڑ دے گا، یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم آنے والے وقت کو اس کے شروع ہونے سے پہلے دیکھیں؟ لیکن انسان کے پاس تو یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ماضی اور حال کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی عقل اور سوچ کا استعمال کرکے مستقبل کے اندازے لگا سکتا ہے، لہٰذا 14 سال بعد آنے والے زمانے کے ممکنہ حالات کی عکاسی کرنا کوئی مشکل بات نہیں، اور ٹیکنالوجی سے منسلک چیزوں کے حوالے سے مستقبل کی عکاسی کرنا تو اور بھی آسان بن چکا ہے۔

یہ بات یوں بھی کہی جارہی ہے کہ اگر ہم محض دنیا کے آخری 18 سال کا جائزہ لیں تو وہ سب چیزیں اب حقیقت بن چکی ہیں، جن سے متعلق ڈیڑھ دہائی قبل سوچنا بھی ممکن نہ تھا۔

دیگر ٹیکنالوجی کے ہماری زندگی، کاروبار، پیشے اور رویوں پر کیا اثرات پڑے یہ ایک طویل بحث ہے، لیکن اگر ہم فیس بک کے صرف ایک ہی فیچر یعنی ’نیوز فیڈ‘ پر غور کریں تو ہم پر یہ حقیقت عیاں ہوگی کہ محض 14 سال میں سماجی رابطے کی اِس ویب سائٹ نے اُن اداروں کو بھی مفلوج کردیا ہے جو 100 سالوں سے لوگوں تک معلومات پہنچانے کی ذمہ داری سرانجام دے رہے تھے۔

اِس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ اب جب تقریباً دنیا کے تمام میڈیا، تشہیری، سماجی، تعلیمی و کاروباری ادارے فیس بک کے عادی بن چکے ہیں، اُن کی کمائی اور مواد کی لوگوں تک رسائی میں فیس بک کا کردار کلیدی بن چکا ہے، تو ایسے اہم ترین موقع پر فیس بک نے اپنے رویے یعنی نیوز فیڈ میں ایسی تبدیلی کرنے کا اعلان کردیا ہے، جو فوری طور پر نہ صرف خود اُس کے لیے نقصان دہ ہوگی، بلکہ اِس تبدیلی سے دنیا بھر کے کاروباری اور غیر کاروباری حضرات کی ایک بڑی تعداد بھی بلواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہوگی۔

فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے حال ہی میں اعلان کیا کہ 2018ء میں فیس بک کے نیوز فیڈ کو بدل دیا جائے گا اور اب وہاں وائرل ویڈیوز، نیوز آرٹیکلز اور دیگر تشہیری مواد لوگوں کو بہت کم نظر آئے گا، اور اِس مواد کی جگہ دوستوں، گھر والوں یا دفتری ساتھیوں کی تصاویر، ویڈیوز اور اسٹیٹس اپ ڈیٹس لیں گے۔

مارک زکربرگ اِس تبدیلی کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُن کا مقصد لوگوں کو اپنے پیاروں سے زیادہ رابطے کا موقع فراہم کرنا ہے اور اِس بات کو یقینی بنانا ہے کہ فیس بک پر زیادہ وقت گزارنا اُن کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب نہ کرے۔

یہ بھی پڑھیں: فیس بک صارفین کی تعداد 2 ارب سے زائد

فیس بک کے بانی کے مطابق وہ بطور ایک ادارہ یہ ذمہ داری محسوس کرتے ہیں کہ اُن کی سروس کو صرف تفریح کے لیے استعمال نہ کیا جائے، بلکہ یہ لوگوں کی شخصیت کے لیے بہتری کا سبب بھی بنے۔ لہٰذا اب انہوں نے اپنا مقصد بدل لیا ہے اور اُن کی ٹیم اِس چیز پر توجہ مرکوز کرے گی کہ صارف متعلقہ مواد ہی تلاش کرسکے جس سے بامقصد سماجی رابطوں میں مدد مل سکے۔

فیس بک کے بانی نے اگرچہ نیوز فیڈ میں بار بار نظر آنے والے تشہیری، میڈیا یا کاروباری اداروں کے مواد کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا، تاہم اُن کے کہنے کا مقصد یہی تھا کہ اب اُن کے لیے میڈیا یا کاروباری اداروں کی پوسٹس، مواد یا اشتہارات اتنے اہم نہیں رہے، جتنا 2017ء کے آخری دن تک تھے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ فیس بک کی اِس تبدیلی سے عام افراد کو کتنا فائدہ اور میڈیا، کاروباری یا تشہیری اداروں کو کتنا نقصان پہنچے گا؟َ

مارک زکربرگ کی جانب سے نیوز فیڈ میں تبدیلی کے اعلان کے بعد بھارتی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ نے برطانوی میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اِس فیصلے کا پہلا نقصان خود فیس بک کو ہی ہوا۔

ابتدائی رپورٹس کے مطابق نیوز فیڈ میں تبدیلی سے فیس بک کو فوری طور پر کم سے کم 23 ارب ڈالرز (پاکستانی 23 کھرب روپے سے زائد) کا نقصان ہوگا،جو اُسے شیئرز کی قدر میں کمی کی صورت میں ادا کرنا پڑے گا۔

اِس فیصلے سے مارک زکربرگ کے ذاتی اثاثوں میں بھی 3 ارب 30 کروڑ امریکی ڈالرز (پاکستانی 3 کھرب 30 ارب روپے سے زائد) کی کمی ہوجائے گی۔

رپورٹس کے مطابق مارک زکربرگ کی جانب سے نیوز فیڈ میں تبدیلی کے اعلان کے فوراً بعد فیس بک کے شیئرز کی قدر میں 4 فیصد کی کمی دیکھی گئی، لیکن اِن ابتدائی رپورٹس کو دیکھنے کے بعد سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اِس فیصلے سے صرف فیس بک کو نقصان ہوگا، اور یہ نقصان کیا اِس سے دگنا بھی ہوسکتا ہے؟

مزید پڑھیں: فیس بک کے سامنے آپ کا کوئی راز چھپا نہیں

فیس بک کے اِس فیصلے کے پیچھے کیا مقاصد ہیں، فوری طور پر تو اِس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن خیال کیا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر فیس بک نیوز فیڈ میں تبدیلی کرکے خود پر ہونے والی تنقید کو دبانے اور لوگوں کا اعتماد جیتنے کی کوشش کر رہا ہے، کیوں کہ گزشتہ 2 سال سے نہ صرف فیس بک بلکہ دیگر سوشل ویب سائٹس کو بھی عوامی دباؤ اور متعدد ممالک خصوصی طور پر یورپ و امریکی حکومتوں کی جانب سے مختلف اقسام کے دباؤ کا سامنا ہے، اگرچہ نیوز فیڈ میں تبدیلی سے اِس دباؤ میں بظاہر کوئی فرق نہیں آئے گا، تاہم فیس بک اپنی اِس کوشش کو بطور دلیل پیش کرنے کی بھرپور کوشش کرے گا کہ اُس نے لوگوں اور سماج کی بہتری کے لیے سب سے بڑی تبدیلی بھی کی۔

فیس بک کو اِس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ اگر لوگ اُس سے خوش ہوں گے اور فیس بک کا استعمال معمول کے مطابق کرتے رہیں گے تو کمپنی کو مستقبل میں ایسی تبدیلیاں کرکے اپنی کمائی بڑھانے یا اپنے نقصان کو پورا کرنے میں دیر نہیں لگے گی، جس سے فیس بک اِس وقت دوچار ہوگا۔

لیکن یہاں نقصان صرف فیس بک کو نہیں ہورہا بلکہ پوری دنیا میں سیکڑوں نہیں ہزاروں ایسے ادارے ہیں جو فیس بک پر تشہیر کے ذریعے اپنے اہداف کو پورا کرتے ہیں، لہٰذا سوال تو یہاں یہ بھی اُٹھتا ہے کہ اِس تبدیلی کے بعد ایسی کمپنیوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

آسٹریلوی ویب سائٹ ’اے ڈی نیوز‘ کے مطابق نیوز فیڈ میں تبدیلی کے فیصلے پر تقریباً تمام آسٹریلوی پبلشرز، صحافتی اداروں و دیگر کاروباری کمپنیز نے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

ویب سائٹ کے مطابق اگرچہ نیوز فیڈ میں تبدیلی کے فیصلے سے فیس بک کی نیوز فیڈ اشتہارات میں فوری طور پر 5 فیصد کی کمی ہوئی ہے، تاہم اِس تبدیلی سے سب سے زیادہ صحافتی ادارے متاثر ہوں گے، جو فیس بک کے ذریعے کروڑوں صارفین تک اپنا مواد یا پیغام پہنچاتے ہیں۔

پبلشرز، صحافتی، کاروباری، تعلیمی، سماجی و خالصتاً سوشل میڈیا تشہیری اداروں کا وسیع نیٹ ورک جو فیس بک کے ذریعے اپنے صارفین تک مطلوبہ چیزیں یا مواد پہنچانے کے لیے مصروف عمل رہتے ہیں وہ صرف آسٹریلیا، امریکا و یورپ تک محدود نہیں ہیں، بلکہ ایسے ادارے دنیا کے تمام براعظموں کے ہر ملک تک پھیلے ہوئے ہیں، جو اپنے نصف سے زائد ٹارگٹ فیس بک کے ذریعے ہی پورے کرتے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر کی ویب سائٹس پر آنے والے 70 فیصد صارف فیس بک کے ذریعے ہی آتے ہیں، کیوں کہ فیس بک کے صارفین کی تعداد 2 ارب سے بھی تجاوز کرگئی ہے، یعنی دنیا کی ایک چوتھائی آبادی فیس بک استعمال کرتی ہے۔

مزید پڑھیں: فیس بک کو لوگوں کی زندگیاں تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے

پاکستان کے 21 کروڑ افراد میں سے 3 کروڑ سے زائد افراد بھی فیس بک کا استعمال کرتے ہیں، اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی نیوز ویب سائٹس کے پڑھنے والوں کی 70 فیصد تعداد فیس بک کے ذریعے ہی ان ویب سائٹس تک پہنچتی ہیں۔

یعنی پاکستان میں اگر کسی بھی نیوز ویب سائٹ کی کسی خبر کو بیک وقت 150 افراد پڑھ رہے ہوں تو ممکنہ طور پر اُن افراد میں سے 120 افراد ایسے ہوں گے، جنہوں نے وہ خبر پہلے فیس بک کی نیوز فیڈ میں دیکھی ہوگی، جس کے بعد ہی وہ اُس خبر کی ویب سائٹ تک پہنچے ہوں گے۔

اب اگر فیس بک کی نیوز فیڈ ہی تبدیل کرکے اُس میں ایسی خبریں انتہائی کم کردی جائیں گی تو لوگوں تک عام ویب سائٹس کی خبریں کیسے پہنچیں گی، اور اُنہیں کیسے پتہ چلے گا کہ کون سی خبر زیادہ اہم ہے، اور کس ویب سائٹ نے کیا خبر دی ہے۔

مزید پڑھیں: ’فیس بک نے لوگوں کو سماج سے الگ کردیا‘

نیوز فیڈ میں تبدیلی کا براہِ راست فائدہ کسی کو بھی نہیں ہے، کیوں کہ کئی صارفین اپنی نیوز فیڈ میں ہر طرح کی خبریں اور اشتہارات بھی دیکھنا پسند کرتے ہیں، کیوں کہ وہ دنیا کے تمام معاملات، واقعات و حالات سے باخبر رہنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔

کئی ادارے نیوز فیڈ میں اپنی خبروں، مواد اور اشتہارات کو زیادہ سے زیادہ جگہ دلانے کے لیے فیس بک کو ’پوسٹ بوسٹ‘ کرنے کی صورت میں اشتہارات بھی دیتے ہیں جس سے فیس بک کی براہِ راست کمائی میں یومیہ کروڑوں ڈالرز کا اضافہ ہوتا ہے، اگرچہ نیوز فیڈ میں تبدیلی کے باوجود فیس بک ’پوسٹ بوسٹ‘ کرنے سے اپنی کمائی جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن نیوز فیڈ میں تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ ’پوسٹ بوسٹ‘ کرنے کے باوجود اداروں کی خبریں، مواد اور اشتہار اب اتنی تیزی اور اہمیت سے عام لوگوں کی نیوز فیڈ میں نظر نہیں آئیں گے، جس طرح آج سے پہلے آتے تھے۔

نیوز فیڈ میں تبدیلی کے اثرات دیکھنے کے بعد ممکن ہے کہ فیس بک آگے چل کر نیوز فیڈ میں کوئی ایسا فیچر متعارف کرائے جس سے صارفین کو اپنی ناپسندیدہ فالتو خبروں، اشتہارات و دیگر مواد سے بھی چھٹکارہ پانے میں آسانی ہو اور کاروباری اداروں کا بھی کام متاثر نہ ہو، لیکن ایسے کسی بھی فیچر کو سامنے لانے میں کم سے کم ایک سال یا اِس سے زائد کا عرصہ لگ سکتا ہے، تب تک میڈیا، کاروباری و تشہیری اداروں کو نیوز فیڈ میں ہونے والی تبدیلی کے باعث اپنے کاروبار پر پڑنے والے اثرات کو برداشت کرنا ہی پڑے گا، یا پھر انہیں کوئی ایسی حکمت عملی تیار کرنی پڑے گی، جسے استعمال کرتے ہوئے وہ فیس بک کی نیوز فیڈ کے محتاج نہ ہوں، لیکن یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فی الحال میڈیائی و کاروباری اداروں کے پاس ایسا کوئی آپشن ہی نہیں ہے۔

یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ فیس بک کی جانب سے نیوز فیڈ میں تبدیلی کے اس سب سے بڑے فیصلے سے قبل بھی وہ اپنی نیوز فیڈ میں گزشتہ برس تبدیلی کرچکا ہے، جو 2017 کے وسط تک محدود صارفین کے اکاؤنٹس پر تھی، لیکن اکتوبر 2017 تک وہ عام صارفین کے لیے بھی متعارف کرائی گئی۔

فیس بک نے اکتوبر 2017 سے ایک سیکنڈری نیوز فیڈ کا فیچر استعمال کرنا شروع کیا، اس فیچر موجودہ نیوزفیڈ متاثر نہیں ہوا بلکہ وہ ہوم ٹیب کی شکل میں بدستور موجود رہا، جبکہ ایکسپلور ٹیب کے ذریعے دوسری نیوز فیڈ کا جائزہ لینا بھی ممکن ہوا، جس میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ کی ایسی تصاویر، ویڈیوز اور مضامین وغیرہ کو دیکھا جاسکے گا جو صارف کی دلچسپی کے مطابق ہوں گی مگر ان کا تعلق ایسے پیچز یا صارفین سے ہوگا جنھیں لائیک یا فالو نہیں کیا جارہا ہوگا۔

اس نئے نیوز فیڈ فیچر کو فیس بک نے دراصل انسٹاگرام کے سرچ اور ایکسپلور ٹیب سے خیال لے کر متعارف کرایا، اس فیچر کا مقصد صارفین کو ایسے پیجز میں دلچسپی لینے میں مجبور کرنا ہے، جنھیں وہ لائیک یا فالو نہ کررہے ہوں اور ان کا مواد نیوزفیڈ پر نظر نہ آتا ہو، اس نئی ایکسپلور نیوز فیڈ فیس بک کی جانب سے صارفین کو زیادہ سے زیادہ ویڈیوز دیکھنے پر مجبور کرنے کی حکمت عملی کا بھی حصہ ہے۔ عین ممکن ہے کہ آگے چل کر فیس بک اسی طرح کا مزید کوئی ایسا آپشن متعارف کرائے جس سے وہ نیوز فیڈ میں تبدیلی کرانے میں بھی کامیاب ہوجائے اور میڈیائی، کاروباری و تشہیری اداروں کے خدشات کو بھی ختم کرنے سمیت اپنی کمائی میں مزید اضافہ بھی کرے، لیکن اس سارے عمل کے لیے ہمیں فی الحال انتظار کرنے کی ضرورت ہے۔

ساگر سہندڑو

لکھاری ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024