تاحیات نااہلی: تمام فریقوں کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے
یہ فیصلہ غیر متوقع نہیں تھا اور کچھ ہی لوگوں کو شاید اس پر حیرت ہو کہ نتیجہ تاحیات نااہلی ہے۔ آنے والے دنوں میں ارکانِ پارلیمنٹ کی نااہلی کی مدت سے متعلق فیصلے اور قانونی دلائل پر ماہرین کئی بحثیں کریں گے۔
آئین کی شق 62 (1) (ف) کے تحت تاحیات نااہلی کے خلاف دو بنیادی دلائل ہیں۔ پہلا، آئین کی شق 17 ملک کے ہر شہری کو کوئی سیاسی جماعت قائم کرنے یا اس کا رکن بننے، اور کوئی بھی منتخب عہدہ رکھنے کا بنیادی حق دیتا ہے۔ چوں کہ شق 17 ایک بنیادی حق ہے، اس لیے کسی بنیادی حق کو دبانے والے آئین کے دیگر حصوں کو قانون کے تحت کم سے کم مارجن دینا چاہیے۔ اس لیے شق 62 (1) (ف) کو تاحیات نااہلی نہیں ہونا چاہیے۔
دوسری بات یہ کہ آئین کی شق 63 (1) (ایچ) کہتی ہے کہ ایک شخص جسے "برے اخلاقی کردار" کا مجرم پایا گیا ہو، اور اسے کم سے کم دو سال کی قید ہوئی ہو، تو وہ اپنی آزادی کے 5 سال بعد انتخابات لڑ سکتا ہے۔ چوں کہ شق 62 (1) (ف) کے تحت برا اخلاقی کردار ویسا ہی جرم ہے جس کی وجہ سے کوئی شخص "صادق اور امین" نہیں رہتا، چنانچہ شق 62 (1) (ف) کے تحت اتنی ہی مدت، یعنی کہ 5 سال کے لیے نااہلی ہونی چاہیے۔ عدالت نے دونوں دلائل کو مسترد کر دیا ہے۔
نتیجتاً یہ ہوگا کہ اعلیٰ عدلیہ یا تو اپنی مرضی سے اپنی از خود نوٹس لینے کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے یا اپنے مخالف کی نااہلی چاہنے والے کسی شخص کی پٹیشن پر شق 62 (1) (ف) کے تحت کسی شخص کے خلاف سماعت کرے اور اسے ساری زندگی کے لیے نااہل قرار دے دے، بھلے ہی اس کا جرم ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹرائل نہ ہوا ہو۔
نواز شریف اور جہانگیر ترین کے واقعات کو ایک طرف رکھیں۔ ایک ایسا سیاسی منظرنامہ جس میں اس طرح کی عدالتی طاقت کا مظاہرہ کیا جائے، کیا وہ جمہوریت کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے؟ صاف طور پر نواز شریف کی اپنی غلطیوں نے ان کے پیچیدہ ہوتے قانونی مشکلات کو جنم دیا ہے۔ مگر جمہوریت ایک فرد کی تقدیر سے زیادہ اہم ہے اور تازہ ترین فیصلے نے سیاست کو مزید حد تک عدالتی نذر کر دیا ہے۔
عام انتخابات قریب آ رہے ہیں اور اس بار سخت مقابلہ متوقع ہے، اور امکان ہے کہ عدلیہ کا کردار بھی کافی اہم ہوگا۔ شق 17 کی جس قدر ممکن ہو وسیع تشریح کی جاتی تو جمہوریت مزید مضبوط ہوتی اور انتخابات میں سب شہریوں کو حصہ لینے کی حوصلہ افزائی ہوتی۔ اس کے بجائے اب پہلے سے بھی زیادہ بے یقینی کی کیفیت ہے۔ اگر شق 62 (1) (ف) کو کھلے انداز میں استعمال کیا گیا تو سیاستدانوں کی ایک بہت بڑی تعداد انتخابات سے باہر ہوجائے گی۔
تمام فریقوں کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف کو چاہیے کہ وہ سوچیں کہ زبردستی خود کو سسٹم میں واپس لانے کی قیمت جمہوریت کے لیے کیا ہوگی۔
دوسری سیاسی جماعتوں کو یہ دیکھنا چاہیے کہ آج ایک سیاسی مخالف کے راستے سے ہٹائے جانے کے جواز کا استعمال کل ان کے خلاف بھی ہوسکتا ہے۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ کو یہ دیکھنا چاہیے کہ سیاسی مرحلے میں مداخلت سے کیا طویل المدتی نقصانات ہوں گے۔
عدالت کو بھی یہ دیکھنا چاہیے کہ عدلیہ کی سیاست میں مداخلت کی کیا قیمت ہو سکتی ہے۔
یہ اداریہ ڈان اخبار میں 14 اپریل 2018 کو شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں