'سب اچھا ہے': جب طاقتور ہاتھ سچ کا گلا گھونٹ دیں
گزشتہ ماہ انگریزی اخبارات کے لیے باقاعدگی سے لکھنے والے کئی کالم نگاروں کو ایڈیٹرز کی جانب سے مطلع کیا گیا کہ ان کے کالم ان کے اخبارات میں شائع نہیں ہوں گے۔
مشرف زیدی 10 برسوں سے دی نیوز کے لیے لکھتے رہے ہیں، مگر ان 10 سالوں میں پہلی بار اخبار نے ان کا کالم شائع نہیں کیا۔
انہوں نے اپنا کالم ٹوئٹر پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ، ’مضبوط قومیں صحتمند بحث کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ جبکہ کمزور قومیں اس سے خائف ہوتی ہیں۔ پاکستان کو مضبوط بنانے کے لیے جتنی اجازت ملی ہوئی ہے پاکستان اس سے زیادہ مضبوط ہے۔‘
جب بابر ستار کا کالم بھی اسی اخبار سے خارج کیا گیا تو انہوں نے ہیش ٹیگ #TheAgeOfFreelyControlledMedia استعمال کرتے ہوئے اپنا کالم ٹوئیٹ کردیا۔ اخبار میں شائع ہوچکے کچھ مواد کو اخبار کی ویب سائٹ سے خارج کردیا گیا ہے۔
جہاں پریس اس ملک میں جو دہائیوں فوجی آمریت کے سائے تلے رہا ہے، سینسرشپ سے انجان نہیں، وہاں آج، میڈیا کے درمیان تقسیم نے اس غیر جمہوری دباؤ کی مزاحمت کرنے کی پریس کی صلاحیت کو کمزور کردیا ہے۔‘
عالمی یومِ آزادئ صحافت، کا مقصد عالمی سطح پر آزاد صحافت کو حملوں سے محفوظ رکھنے اور صحافیوں کے خلاف ہونے والے جرائم کے خلاف قانونی کارروائی کو ممکن بنانے کے لیے آواز اٹھانا ہے سو رواں برس عالمی آزادی صحافت کا دن بھی ایسے موقعے پر آیا ہے جب پاکستان میں میڈیا کی آزادی محدود ہوتی جا رہی ہے، خاص طور پر ایسے موقعے پر جب عام انتخابات سر پر ہیں۔
پڑھیے: پاکستانی آزادی صحافت
میڈیا کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے فریڈم نیٹ ورک کی تازہ رپورٹ کے مطابق مئی 2017ء سے اپریل 2018ء کے درمیان صحافیوں پر 157 حملے ریکارڈ کیے گئے جبکہ ان میں سے 55 حملے تو صرف اسلام آباد میں ہی ہوئے۔
اب جبکہ عسکریت پسندوں کی جانب سے خطرات نمایاں حد تک کم ہوچکے ہیں، مگر پھر بھی وفاقی دارالحکومت صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک جگہ بن کر سامنے آیا۔ لیکن اس بار، ریاستی ایجنسیوں کی جانب سے سنجیدہ خطرات کا سامنا ہے۔
ہمارے ملک جیسی ناپختہ جمہوریتوں میں تنقیدی خیالات کو نشانہ بنانے کی وجہ کمزور ادارے، محدود عدالتی ڈھانچے اور سیاسی عزم کی کمی ہے، جہاں ایسی صورتحال ہو وہاں آزاد صحافت کا تصور کس طرح ممکن ہے۔
بہرحال میڈیا کو سیلف سینسرشپ جیسے نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یعنی اپنی آواز خود ہی بند کر لینا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکریٹری جنرل نے بتایا کہ، ’دائیں، بائیں اور مرکز سے دباؤ ہوتا ہے۔ میں اپنی مرضی کے مطابق تحریر نہیں کرپاتا ہوں۔ آخر میں اس بات کی ذمہ داری کس طرح لے سکتا ہوں جس بات کو لکھنے کے لیے مجھے کہا گیا ہے؟
حدود کا تعین
موجودہ حالات میں کالم نگاروں کا کہنا ہے کہ انہیں کچھ 'حساس' موضوعات پر نہ لکھنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ حقوق کے لیے مطالبہ کرنے والی پشتون تحفظ موومنٹ بھی ایسا ہی ایک مسئلہ ہے۔
دی نیوز انٹرنیشنل کے طلعت اسلم بتاتے ہیں کہ کیوں: "ہمیں کہا گیا تھا کہ اس معاملے پر کم رپورٹنگ کریں کیوں کہ یہ (سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے) بیانیے کے ایک بڑے حصے کو زک پہنچا رہا ہے۔ کئی سالوں تک وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) میڈیا کی نظروں سے مکمل طور پر اوجھل رہے۔ ہمیں صرف آئی ایس پی آر کی جانب سے مارے گئے جنگجوؤں کی تعداد بتائی جاتی۔ پہلی دفعہ ہم اس کے لیے رہنماؤں سے ان مسائل کے بارے میں سن رہے ہیں جن پر ہم نے کبھی بھی بات نہیں کی ہے۔ تبھی اس بیانیے کو فوج مخالف سمجھا گیا، اور جیسے ہی اس میں کابل کی مداخلت کا شبہ ہوا، تو کوریج پر پابندی کا حکم دیا گیا۔"
پڑھیے: حق گوئی: ڈان کی ایک قدیم روایت
شمالی وزیرستان سے ایک رپورٹر رسول داور کہتے ہیں کہ قبائلی صحافی جانتے ہیں کہ انہیں فوج کے بالکل بھی خلاف نہیں جانا ہے۔ ان کے مطابق نوجوان پختون کارکنوں کی جانب سے پریس پر پابندی کا سوشل میڈیا کے ذریعے مقابلہ کرنے کے باوجود وہ اب بھی اس قابل نہیں کہ ایسے ہی مسائل، مثلاً جبری گمشدگیوں کے بارے میں لکھ سکیں۔
جنگ گروپ کا جیو ٹی وی ملک کے زیادہ تر حصوں میں بند کر دیا گیا تھا۔ یہ پابندی نہ ہی سرکاری ریگولیٹری ادارے پیمرا اور نہ ہی وزارتِ اطلاعات کی جانب سے عائد کی گئی۔ کیبل آپریٹرز کا دعویٰ ہے کہ انہیں ہدایات دی گئی تھیں کہ کن چینلز کو پچھلے نمبرز پر دھکیلنا، یا پھر بند ہی کر دینا ہے۔
کئی صحافیوں اور ایڈیٹرز کا کہنا ہے کہ انہیں یا تو 'ہدایات' دی جاتی ہیں کہ کون سی خبریں نہیں جانی چاہیئں، یا پھر وہ خود ہی خوف کے مارے اپنے مواد پر کنٹرول رکھتے ہیں۔
سینیئر صحافی نسیم زہرہ اسے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے احساسِ عدم تحفظ کے طور پر دیکھتی ہیں۔
"ہر طرح کی سینسرشپ کی مذمت کی جانی چاہیے۔ اس میں اگر مگر کی گنجائش نہیں ہے۔ میڈیا کو لڑ جھگڑ کر وہ آزادی واپس لینی چاہیے جو اس نے حاصل کی تھی۔"
کاروبار میں رہنے کی بنیادی شرائط یہ ہیں کہ فوج پر کسی بھی قسم کی تنقید کو سینسر کر دیا جائے، اور مسلم لیگ (ن) کی جانب جھکاؤ محسوس ہو تو اسے دبا دیا جائے، بشمول سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی اپنی نااہلی کے بعد عدلیہ مخالف تقاریر کی میڈیا کوریج کو۔
طلعت اسلم کہتے ہیں، "مجھے یاد نہیں پڑتا کہ حالات کبھی اتنے خراب ہوئے ہوں۔ ضیاء اور جونیجو دور میں بھی دباؤ ہوتا تھا مگر اب یہ زیادہ کھلے عام اور مطلق العنان ہے۔ سینیٹ انتخابات میں جو ہوا اور خواجہ آصف کی نااہلی کو دیکھتے ہوئے یہی پوچھوں گا آخر ہم کس طرح کے انتخابات کی جانب جا رہے ہیں؟"
پڑھیے: صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں پاکستان کا 139واں نمبر
سینیئر صحافی حامد میر کہتے ہیں، "جیو کو اس حوالے سے ادارتی پوزیشن لینی چاہیے مگر (نواز) شریف کا وکیل نہیں بننا چاہیے۔"
انہوں نے بتایا کہ سینسرشپ کا تازہ ترین دور صحافیوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے جنہوں نے ہمیشہ غیر یقینی اور خوف کا سامنا کیا ہے۔
"2015 میں تو حالات اور بھی خراب تھے جب صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ مگر آج ہمیں کبھی لائیو جانے والے اپنے پروگرام پہلے سے ریکارڈ کرنے پڑتے ہیں اور ہمارے مضامین روک دیے جاتے ہیں۔"
منقسم میڈیا
اپوزیشن جماعتوں اور کچھ میڈیا اداروں کی جانب سے اس طرح کی جابرانہ ہدایات پر کم ہی ردِ عمل سامنے آتا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر کے مطابق پارٹی کا "الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ معقول تعلق ہے۔ یہ تعلق ترش یا دشمنی پر مبنی نہیں ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت میڈیا پر دباؤ نہیں ڈال سکتی مگر حکومتیں کر سکتی ہیں اور کرتی بھی ہیں۔"
جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی جماعت نے میڈیا پر پابندیوں کے خلاف کیوں بات نہیں کی ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ: "میڈیا کی آزادی کو سب سے بڑا خطرہ موجودہ حکومت کی جانب سے دولت کے بل پر (میڈیا پر اثرانداز) ہونے سے ہے۔"
پڑھیے: ’ہر 4 سے 5 دن میں ایک صحافی کا قتل‘
یاد کریں کہ جب سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے 2007 میں نجی ٹی وی چینلز کے خلاف کریک ڈاؤن کیا تھا، تو سیاسی جماعتوں اور ایڈیٹرز، دونوں نے ہی اس کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
مگر اب کی بار مضبوط ہوتی ہوئی اس گرفت کے خلاف حزبِ اختلاف کی کسی بھی جماعت نے اب تک احتجاج نہیں کیا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ میڈیا گروپس کی آپسی لڑائیوں کی وجہ سے صنعت مزید مشکلات کا شکار ہوئی ہے۔
پاکستان میں اپنی پریس کے بارے میں مرکزی بیانیہ یہ ہے کہ یہ بے قابو ہے، چنانچہ جب کسی میڈیا ہاؤس کا گلا گھونٹا جاتا ہے اور کئی میڈیا گروپس سینسرشپ کی 'ہدایات' پر عمل کرتے ہیں تو اسے آزادی اظہار کے خلاف نہیں سمجھا جاتا، خود میڈیا کے اپنے کئی حلقوں کی جانب سے بھی نہیں۔
مگر جو بازی لگی ہوئی ہے، اسے دیکھتے ہوئے واضح ہے کہ ایک سانحہ ہمارا منتظر ہے۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 3 مئی 2018 کو شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں