الیکشن 2018: پشاور کے اعداد وشمار کیا بیان کر رہے ہیں؟
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی شہری آبادی 19 لاکھ 7 ہزار 42 (1970042) جبکہ دیہی آبادی 22 لاکھ 99 ہزار 32 (2299032) ہے، یوں مجموعی آبادی 42 لاکھ 69 ہزار 79 ہے۔
پشاور میں مجموعی طور پر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 16 لاکھ 93 ہزار 386 ہے، جن میں خواتین ووٹرز 7 لاکھ 13 ہزار 615 جبکہ مرد ووٹرز کی تعداد 9 لاکھ 79ہزار 771 ہے۔
پشاور کی این اے 27 سے لے کر این اے 31 تک 5 قومی نشستیں ہیں جبکہ 14 صوبائی نشستیں ہیں جو کہ پی کے 66 سے پی کے 79 تک ہیں۔ قومی اسمبلی کے لیے این اے 27 اور این اے 28 شہری جبکہ این اے 29 این اے 30 اور این اے 31 کا ایک بڑا حصہ دیہی علاقہ شمار ہوتا ہے۔
عوامی خدمات کے سرکاری ادارے
پشاور میں 30 نجی اور 20 سرکاری ہسپتالیں جبکہ 52 ڈسپینسریاں بھی ہیں، 2013ء سے 2017ء تک کے عرصے کے دوران 2 نئے سرکاری ہسپتالوں کا اضافہ ہوا۔
تعلیم کے حوالے سے پشاور کا معیار قدرے بہتر ہے، 155 اضلاع کی ریکنگ میں پشاور 64ویں نمبر پر ہے۔
پشاور میں 1 ہزار 41 پرائمری اسکول، 46 مڈل اسکول، 149 ہائی اسکول اور 35 ہائی سیکنڈری اسکول ہیں جبکہ 16 ڈگری کالجز ہیں۔ 2013ء سے 2017ء تک 5 سال کے عرصے میں تعلیمی اداروں میں 2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
زراعت کے حوالے سے بھی اگر جائزہ لیا جائے تو 2013ء سے 2017ء تک گندم ،چاول، سبزیاں، پھل اور دیگر اجناس کی پیداوار میں معمولی اضافہ سامنے آیا ہے۔
2 ہزار برس قدیم شہر پشاور موجودہ خیبر پختونخوا کا دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اہم شہروں میں شمار ہوتا ہے۔
پاکستانی سیاست اور انتخابات میں پشاور شہر نے ہمیشہ اپنا اہم کردار ادا کیا، لیکن بدقسمتی سے زمانہ قدیم سے حملہ آوروں کا نشانہ بننے والا یہ تاریخی شہر توجہ اور ترقیاتی کاموں سے بھی محروم رہا ہے۔
صوبے کا دارالحکومت ہونے کی وجہ سے اسے تمام سیاسی جماعتوں کی توجہ حاصل ہے، لیکن امن و امان کے حوالے سے کسی سیاسی جماعت نے اسے وہ توجہ نہ دی جس کا یہ مستحق تھا۔
پشاور میں 2013ء سے 2017ء تک مختلف دہشت گرد کارروائیوں میں 929 افراد جاں بحق جب کہ 1 ہزار 554 افراد زخمی ہوئے، پشاور میں گزشتہ 5 برسوں کے دوران 149 بم دھماکے اور 22 خود کش حملے ہوئے۔
اس وقت پشاور کے شہری اس شہر کو گندگی اور کچرے کا ڈھیر پکار رہے ہیں، کئی علاقوں میں سیوریج لائن تبدیل کی جاچکی ہیں مگر اب بھی متعدد علاقے ایسے ہیں جہاں ان لائنوں میں زنگ لگ چُکا ہے اور وہ گندگی میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں، گزشتہ 5 برس میں گندگی اور کچرے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی مناسب بندوبست نہیں کیا گیا۔
شہر کو پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے، شہری بیروزگاری کو بھی اپنا اہم مسئلہ بتاتے ہیں۔
پشاور کے شہریوں کو ٹریفک جام کی مشکلاتوں کا بھی سامنا ہے۔ گاڑیوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافے اور تجاوزات نے سڑکوں پر گاڑی چلانا بھی محال کردیا ہے، تجاوزات کے خلاف بھرپور آپریشن کے باوجود بھی صورتحال جوں کی توں ہے، کوہاٹی چوک، شعبہ بازار، چوک یادگار اور دیگر بازاروں میں سے گزرنا اب تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔
تحریکِ انصاف نے اپنی حکومت میں بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے کا اعلان کیا، جس پر 50 ارب کی رقم خرچ ہونے ہیں، یہ منصوبہ ابھی تک مکمل نہیں کیا جاسکا ہے۔
ووٹ کی تقسیم
پشاور 3 اطراف سے قبائلی علاقہ جات سے جُڑا ہوا ہے، یہاں کی سیاست پر 3 قبائل کی چھاپ ہے، داود زئی، خلیل اور مومند قبیلے کے بااثر افراد اپنے نام کے ساتھ ارباب لگاتے ہیں، پشاور میں برادری ووٹ اثر رکھتا ہے اور لوگ عمومی طور پر اپنی برادری کے نامزد افراد کو ہی ووٹ دینا پسند کرتے ہیں۔
شہر میں ہندکو بولنے والے افراد شہری نمائندوں کو ووٹ دینا پسند کرتے ہیں، شہر میں محمد زئی، یوسف زئی، اعوان، مہمند اور قریشی برداری بھی اپنا اثر رکھتی ہے، دیہی علاقوں میں برادری کا ووٹ زیادہ اہمیت رکھتا ہے، جبکہ شہری علاقوں میں برادری سے زیادہ کاروباری مفاد کو سامنے رکھا جاتا ہے۔
قومی اسمبلی کے حلقے
پشاور 2013ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے 4 حلقوں میں مجموعی طور پر اوسطاً 44.03 فیصد ووٹ کاسٹ ہوئے۔
2018ء میں ووٹنگ ٹرن آوٹ بڑھنے کی امید ہے، آئندہ عام انتخابات میں 46 سے 48 فیصد ٹرن آوٹ کی توقع کی جارہی ہے۔
این اے-27
پشاور کے اس حلقے میں بابو زئی، خازانہ، تلرزئی، لارم، عیسیٰ خیل حامد اور دیگر علاقے شامل ہیں، یہ نیم شہری علاقہ ہے۔
2013ء میں اس حلقے سے ساجد نواز کامیاب ہوئے تھے، جن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے تھا۔
2008ء میں یہاں سے نور عالم خان نے فتح حاصل کی جن کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا، نور عالم خان آصف علی زرداری کے خاص احباب میں سے تھے۔
2002ء میں فیض الرحمن کو یہاں سے کامیابی ملی تھی، جن کا تعلق متحدہ مجلس عمل سے تھا۔
نور عالم خان اب بھی تحریک انصاف کا حصہ ہیں اور اس حلقے سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہے ہی، نور عالم خان کو 2008ء میں امیر ترین رکنِ پارلیمنٹ ہونے کا ’اعزاز‘ بھی حاصل تھا۔
اس حلقے میں اگر عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور پیپلز پارٹی کی بات کریں، تو گزشتہ 5 عام انتخابات میں پارٹی ووٹ بری طرح متاثر ہوا ہے۔
اے این پی 1992ء کے الیکشن میں 65 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ 2013ء کے عام انتخابات میں اس حلقے سے صرف 3 فیصد ہی ووٹ حاصل کرسکی، اسی طرح پیپلز پارٹی 28 فیصد سے گھٹ کر 12 فیصد پر پنہنچ گئی، پاکستان مسلم لیگ (ن) کا اس حلقے میں ووٹ بینک 8 سے 13 فیصد تک رہا، جبکہ متحدہ مجلس عمل کا 15 سے 48 فیصد، تحریک انصاف نے 2013ء کے انتخابات میں اس حلقے سے 37 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔
مجموعی طور پر اس حلقے کے امیدواروں کی پارٹی وفاداری اپنی جگہ قائم ہے، لیکن اُن کا کسی بڑی برادری سے ہونا، ان کی جیت اور ووٹ بینک پر خاصا اثر انداز ہوتا ہے۔
اب ہوگا مقابلہ
اس حلقے سے 10 امیدوار سامنے آئے ہیں، جن میں سے 4 اُمیدوار آزاد حثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
اصل مقابلہ تحریکِ انصاف کے نور عالم خان اور متحدہ مجلس عمل کے حاجی غلام علی کے درمیان ہونے کی توقع ہے۔
اس حلقے کے زیادہ تر اُمیدوار خاصے امیر ہیں، نور عالم خان نے ماضی میں حلقے میں کچھ ترقیاتی کام کروائے تھے، جس کی وجہ سے حلقے کے مختلف علاقوں میں رہنے والے اکثر لوگ نور عالم خان کو ووٹ دینے کی خواہش کا اظہار کرتے نظر آئے ہیں۔
حلقے کے دیگر علاقوں میں کچھ لوگوں نے حاجی غلام علی کے حق میں بھی ووٹ ڈالنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا، مختلف اندازوں سے سامنے والے حقائق کے مطابق 2018ء میں ووٹ بینک تو تقسیم ہوسکتا ہے، تاہم سابقہ امیدوار کی پوزیشن کسی حد تک مضبوط ہے۔
این اے-28
این اے 28 اس حلقے کا نیا نام ہے، 2008ء اور 2013ء میں اس حلقے کے علاقے این اے 4 اور این اے 3 کا حصہ تھے۔
پشاور کے اس حلقے کو نیم شہری کہا جا سکتا ہے، اس حلقے میں اخوند آباد، گلشن آباد، گڑھی عطا محمد، آفریدی آباد، ہزار خوانی، سرفراز کالونی، چمکنی، موسی زئی، ترناب، سرزئی پائین، کندی حیات، بدھامی، ثمر باغ، لنڈی داود زئی، گڑھی حمزہ، کوچین گڑھی، شریف خان، گل بیلا اور دیگر علاقے شامل ہیں۔
اس حلقے میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی پوزیشن کسی زمانے میں کافی مضبوط رہی ہے، اُس کے بعد اس علاقے میں متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) نے اپنا اثر بڑھایا، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) اس حلقے میں زیادہ اثر نہیں رکھتیں۔
2013ء کے عام انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے اس حلقے کو اپنا مضبوط ووٹ بینک بنا لیا ہے، یہ نیم شہری اور دیہی حلقہ ہے، یہاں پر برادری کا ووٹ بہت زیادہ اثر رکھتا ہے۔
2018ء کے عام انتخابات کے لیے عوامی نیشنل پارٹی نے ہزار خوانی کے رہنے والے شفیع اکبر کو موقع دیا ہے، شفیع اکبر گو کہ پہلی مرتبہ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، تاہم ان کا خاندان گزشتہ 4 دہائیوں سے سیاست میں ہے، ان کے ایک بھائی ٹاؤن کونسل کے رکن بھی ہیں۔
تحریکِ انصاف نے این اے 28 سے ارباب عامر ایوب کو ٹکٹ دیا ہے، ارباب عامر ایوب پہلے عوامی نیشنل پارٹی کے رکن تھے، ایک سال قبل ہی 2017ء میں انہوں نے تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔
ارباب عامر ایوب نے این اے 4 سے 2017ء کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے اُمیدوار کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی تھی، یہ عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے پشاور ٹاؤن کے مئیر بھی رہے ہیں۔ ارباب عامر ایوب، ارباب نور محمد خان مرحوم کے بیٹے اور ایم این اے ارباب ظاہر کے بھائی ہیں۔
متحدہ مجلس عمل نے اس حلقے سے صابر حسین اعوان کو ٹکٹ دیا ہے، جو کہ 2002ء کے الیکشن میں این اے 4 سے منتخب ہو چکے ہیں، صابر اعوان جماعتِ اسلامی کے عہدے دار ہونے کے ساتھ ساتھ اعوان برادری کی تنظیم کے صدر بھی ہیں، جو کہ پشاور سمیت پورے خبیر پختونخوا میں پھیلی ہوئی ہے۔
اس حلقے سے تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے اکرام اللہ کو ٹکٹ جاری کیا ہے، جب کہ مسلم لیگ (ن) نے انتخاب خان کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔
یہاں پاکستان تحریکِ انصاف، متحدہ مجلس عمل کے درمیان کانٹے کا مقابلے ہونے کی امید کی جا رہی ہے، کسی حد تک عوامی نیشنل پارٹی بھی جیت کی دوڑ میں شامل ہونے کی کوشش کرسکتی ہے۔
اس علاقے میں اعوان اور ملک برادری کے لوگوں کی ایک خاصی تعداد آباد ہے جو کہ چمکنی، بدائی اور ملحقہ علاقوں کے رہائشی ہیں، سادات اور ارباب بھی اس حلقے میں اپنا کافی اثرو رسوخ رکھتے ہیں، اس حلقے میں برادری ووٹ 30 فیصد تک کہا جاسکتا ہے، جبکہ 70 فیصد پارٹی ووٹ ہے، کیونکہ یہ حلقہ نیا ہے اور پرانے حلقوں سے ملا کر بنایا گیا ہے، اس لیے گزشتہ 5 انتخابات کے اعداد و شمار (ایکشن کمیشن ، فافین، گیلپ) کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اس حلقے میں ووٹنگ کا تناسب 2018ء میں 40 فیصد سے زیادہ رہنے کی امید ہے۔
اُمیدوار
اس حلقے سے 6 اُمیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ، 5 کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے جبکہ ایک اُمید وار آزاد حثیت سے الیکشن لڑ رہا ہے۔
2018ء کے انتخابات کے حوالے سے امید کی جا رہی ہے کہ تحریک انصاف ممکنہ طور پر دوبارہ یہ نشست حاصل کرسکتی ہے، تاہم ایم ایم اے کی جانب سے مشکل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
این اے-29
پشاور کے حلقہ این اے 29 (سابقہ این اے-4) دیہی علاقوں پر مشتمل ہے، اس حلقے میں بازید خیل، احمد خیل، سرزائی بالا، بڈھا بیر، مریم زئی، یوسف خیل، پسانی، گڑھی باغبان، لنڈی اخوند احمد، ہنگو، متنی اور متصل دیگر علاقے شامل ہیں۔
2013ء کے عام انتخابات میں یہاں سے تحریکِ انصاف کے گلزار خان کامیاب ہوئے تھے، 2008ء کے الیکشن میں اے این پی کے ارباب ظاہر خان جبکہ 2002ء کے الیکشن میں اس حلقے سے صابر حسین فتح یاب ہوئے تھے جن کا تعلق متحدہ مجلس عمل سے تھا۔
اس حلقے میں 2002ء کے انتخابات سے ووٹنگ کے تناسب میں اضافہ دیکھنے کو ملتا رہا ہے، 2002ء ووٹنگ تناسب 29.6 فیصد تھا، جبکہ 2008ء میں 31.7 فیصد اور 2013ء میں یہ 40.4 فیصد تھا، 2018ء کے عام انتخابات میں یہ تناسب 5.2 فیصد کے تناسب سے بڑھنے کی توقع ہے، اس حلقے میں 2018ء میں ووٹنگ کا تناسب 45 فیصد تک پہنچنے کی توقع کی جا رہی ہے۔
یہ ایک دیہی حلقہ ہے جبکہ یہاں برادری کا ووٹ اہمیت رکھتا ہے، یہاں مومند، آفریدی، ماشو خیل، سلمان خیل برادری بڑی تعداد میں موجود ہے، مہمند قبیلے کا یہاں زیادہ اثر و رسوخ ہے، اس حلقے میں برادری ووٹ 30 فیصد تک کہا جاتا ہے۔
ووٹر پارٹی سے پہلے شخصیت کو دیکھتے ہیں، اس حلقے میں امیر مقام کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں، جب تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف مقامی ملیشیا بنی تھی، تب مسلم لیگ کے رہنما امیر مقام نے یونین کونسل ناظمین کو خاصا سپورٹ کیا تھا، اسی حمایت کی وجہ سے ان پر حملے بھی ہوئے۔
ناصر خان موسی زئی بھی اپنی برادری کی وجہ اس حلقے میں کافی اثر رکھتے ہیں، ناصر خان موسی زئی پہلے مسلم لیگ(ن) سے وابستہ تھے، بعدازاں انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی۔
پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی بتدریج اس حلقے میں اپنا ووٹ بینک کھو رہی ہیں، کہا جاتا ہے کہ اس حلقے میں امیدوار کو 30 فیصد برادری ووٹ مل سکتا ہے۔
اس حلقے سے 5 اُمیدوار سامنے آئے ہیں جبکہ پانچوں کا تعلق سیاسی جماعتوں سے ہے۔
ناصر خان موسی زئی تحریکِ انصاف میں شمولیت سے قبل امیر مقام کے خاصے قریبی دوستوں میں سے تھے, لیکن اب اس حلقے میں دونوں دوست آمنے سامنے ہیں، ناصر خان موسی زئی جب تک مسلم لیگ(ن) میں تھے, تحریک انصاف کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے لیکن اب تحریکِ انصاف کے ہی ٹکٹ پر اس حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
امیر مقام مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر یہاں سے انتخاب لڑ رہے ہیں، انہوں نے اس حلقے میں گیس اور بجلی کے حوالے سے کافی کام کیا ہے۔
گلزار خان کی وفات کے بعد اس حلقے سے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف ہی جیتی تھی، حلقے میں پینے کے صاف پانی کی قلت ہے، کچرے کے انبار ہیں، بے روزگاری کے ساتھ صحت اور تعلیم کی مناسب سہولیات بھی موجود نہیں ہیں۔
متحدہ مجلس عمل سے نعیم جان اور عوامی نیشنل پارٹی کے ارباب کمال بھی اس حلقے سے مضبوط امید وار ہیں، لیکن اصل مقابلہ ناصر خان موسی زئی اور امیر مقام کے درمیان ہوگا۔
تحریکِ انصاف کی کامیابی کے زیادہ امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں، جبکہ مسلم لیگ (ن) دوسرے نمبر پر نظر آ رہی ہے۔
ہر اُمیدوار اپنی جیت یقنی بنانے کے لیے برادری ووٹ کا محتاج ہے، برادری ووٹ ہی اس حلقے میں کسی بھی اُمیدوار کی جیت کا فیصلہ کر سکے گا۔
این اے-30
این اے 30 (سابقہ این اے 2) میں خٹک کالونی، حبیب کالونی، کوچہ نثر اللہ شاہ کالونی، کوچہ ولی، غیاث آباد ، رحیم آباد، کوٹلہ محسن خان، گڑھی محسن خان، آرمی آفیسرز کالونی، یونی ورسٹی ٹاؤن، کفیلہ ٹاؤن، تہکال، ریگی، پلوسئی، حیات آباد اور اس سے متصل علاقے شامل ہیں۔
اس حلقے سے 2013ء کے عام انتخابات میں انجینئر حمید الحق تحریک انصاف کے ٹکٹ پر تقریباً 80 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے، ان کے مقابلے میں ارباب عالمگیر خان اور ارباب نجیب اللہ خان کچھ خاص عوامی حمایت حاصل نہیں کرسکے۔
یہ شہری حلقہ ہے اور یہاں برادری ووٹ سے زیادہ امیدوار کی کارکردگی کو دیکھا جاتا ہے، تحریکِ انصاف کے حمید اللہ الیکشن جیتنے کے بعد سے اس علاقے میں کوئی خاص کام نہیں کروا سکے، یہی وجہ ہے کہ تحریکِ انصاف نے اس بار انہیں ٹکٹ نہیں دیا۔
اس حلقے میں 2002ء کے الیکشن سے ووٹنگ کے تناسب میں اضافہ ہوتا رہا ہے، 2002ء میں یہ تناسب 26 فیصد تھا، 2008ء میں 24.9 فیصد جبکہ 2013 کے الیکشن میں یہ 43.3 فیصد تھا، 2018ء کے عام انتخابات میں یہ تناسب 6.2 فیصد تک بڑھنے کی توقع ہے۔
اس حلقے میں 2018ء میں ووٹ دینے کا تناسب 49 فیصد تک پہنچنے کی توقع کی جا رہی ہے۔
اس حلقے میں ارباب ہی زیادہ تر الیکشن میں آمنے سامنے نظر آتے ہیں، یہاں عوامی نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کا ووٹ بینک کم ہوتا رہا ہے، اس حلقے میں تحریکِ انصاف کی پوزیشن کافی مضبوط ہے، جبکہ متحدہ مجلس عمل بھی اپنا ووٹ بینک رکھتی ہے، اس لیے اصل مقابلہ بھی تحریک انصاف اور متحدہ مجلس عمل کے درمیان متوقع ہے۔
اس حلقے میں چونکہ زیادہ تر شہری علاقہ شامل ہے، اس لیے یہاں برادری ووٹ صرف 15 فیصد تک کہا جاتا ہے۔
این اے-30 سے انتخابات 2018 میں اُمیدوار
2018ء کے انتخابات میں اس حلقے سے 8 اُمیدوار حصہ لے رہے ہیں، جن میں سے صرف ایک امیدوار ہی آزاد حثیت سے میدان میں ہے، باقی تمام امیدواروں کا تعلق کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ہے۔
اس حلقے میں صورتحال بہت دلچسپ ہے، خلیل قبیلے سے تعلق رکھنے والے بیشتر ارباب آمنے سامنے ہیں، پیپلز پارٹی سے وابستہ ارباب عالمگیر خان، ارباب جہانگیر کے بیٹے ہیں جو وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں.
ارباب نجیب اللہ خان متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر اس حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور کافی مضبوط اُمید وار بھی بتائے جا رہے ہیں، ارباب نجیب اللہ متحدہ مجلس عمل سے پہلے تحریکِ انصاف میں شامل تھے، لیکن جب انہیں وہاں سے ٹکٹ نہیں ملا تو انہوں نے متحدہ مجلس عمل میں شمولیت اختیار کرلی، یاد رہے وہ عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر بھی 2008ء کے انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں۔
تحریکِ انصاف نے یہاں سے شیر علی ارباب کو ٹکٹ دیا ہے جو نجیب اللہ کے مقابلے میں قدرے کمزور اُمیدوار ہیں لیکن علاقے میں تحریکِ انصاف کا اچھا ووٹ بینک ہے، مسلم لیگ (ن) نے یہاں سے محمد جنید کو ٹکٹ دیا ہے۔
امید کی جا رہی ہے کہ ایم ایم اے کے امیدوار کو یہاں سے سبقت حاصل ہوجائے گی۔
این اے-31
قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 31 (سابقہ این اے 1) میں الف خان کورونا، لال دین کالونی، اتحاد کالونی، افغان کالونی، حسین ٹاون، خبیر کالونی، گل آباد، فیصل کالونی، حیدر شاہ ٹاون، جی ٹی روڈ بلال کالونی، گلبرگ، توحید کالونی، جہانگیر پورہ، اتفاق کالونی، بشر آباد اور دیگر متصل علاقے شامل ہیں۔
پشاور کا یہ حلقہ سب سے اہم ہے، یہ شہری حلقہ ہے، جہاں زیادہ تر پختون اور ہندکو بولنے والے آباد ہیں۔
این اے 31 کی اپنی ایک سیاسی اہمیت ہے، گزشتہ تمام انتخابات میں یہ پاکستان کا پہلا حلقہ کہلایا جاتا تھا، پاکستانی سیاست کے اہم لیڈران یہاں سے الیکشن لڑچکے ہیں، جن میں بے نظیر بھٹو اور عمران خان بھی شامل ہیں۔
اس حلقے میں 2002ء کے الیکشن سے یہاں ووٹنگ کے تناسب میں اضافہ ہی دیکھنے کو ملا ہے، 2002ء میں یہ تناسب 28 فیصد تھا، 2008ء میں 23 فیصد جبکہ 2013ء کے الیکشن میں یہ 46.2 فیصد تھا، 2018ء کے الیکشن میں یہ تناسب 49 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔
حلقے میں سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک گزشتہ 3 انتخابات کے دوران کچھ اس طرح سے رہا۔
اس حلقے میں سوائے عوامی نیشنل پارٹی کے کوئی دوسری پارٹی ایک سے زائد بار نہیں جیت سکی، 2013ء کے انتخابات میں اس حلقے سے تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان 90ہزار ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے تھے، لیکن انہوں نے یہ سیٹ چھوڑ دی تھی، جس کے بعد یہاں سے ضمنی انتخابات میں حاجی غلام احمد بلور یہ سیٹ جیت گئے، اس حلقے میں برادری ووٹ صرف 10 فیصد کہا جاسکتا ہے، یہاں پارٹی ووٹ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
این اے-31 سے انتخابات میں اُمیدوار
اس حلقے سے 13 اُمیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، جن میں سے 4 آزاد امیدوار ہیں، جبکہ دیگر کا تعلق سیاسی جماعتوں سے ہے۔
سیاسی اعتبار سے اہمیت کے حامل اس حلقے میں عوامی نیشنل پارٹی اور تحریکِ انصاف کے درمیان کانٹے کا مقابلے ہونے کی اُمید ہے۔
اس حلقے میں غلام احمد بلور بھی انتخاب لڑ رہے ہیں، جو پہلے بھی اس حلقے سے کامیاب ہوچُکے ہیں، حاجی غلام احمد بلور ماضی میں اس حلقے سے بے نظیر بھٹو کو بھی شکست دے چکے ہیں، 2013ء کے عام انتخابات میں وہ یہ نشست تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے ہار گئے تھے، بعد ازاں ضمنی انتخاب میں یہاں سے کامیاب ہوئے۔
تحریکِ انصاف نے یہاں سے سابقہ ٹاؤن ناظم شوکت علی کو ٹکٹ دیا ہے، جو غلام احمد بلور کے مقابلے میں زیادہ مضبوط امیدوار تو نہیں، لیکن انہیں پارٹی ووٹ کی مدد حاصل ہے۔
پیپلز پارٹی نے یہاں سے اخوند اللہ عرفان شاہ کو ٹکٹ دیا ہے جو پہلے تحریک انصاف میں تھے تاہم ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے انہوں تحریک انصاف کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔
اس حلقے میں متحدہ مجلس عمل نے صدیق الرحمٰن پراچہ کو ٹکٹ جاری کیا ہے لیکن یہاں اصل مقابلہ اے این پی اور پی ٹی آئی کے درمیان متوقع ہے۔
پشاور خیبر پختونخوا کا دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کا ایک اہم سیاسی شہر بھی ہے، یہاں سے بالی وڈ اسٹار شاہ رخ خان کی ایک کزن پی کے 77 سے الیکشن میں حصہ لے رہی تھیں، تاہم بعد ازاں وہ دستبردار ہوگئیں، اسی طرح پشاور کا ارب پتی خاندان بھی الیکشن میں حصہ لے رہا ہے، جن میں ارباب عالمگیر، ان کی اہلیہ عاصمہ عالمگیر اور بیٹا ارباب زرک خان شامل ہیں۔
الیکشن 2013ء پشاور کی قسمت اس طرح نہیں بدل سکا، جس کا اس سے وعدہ کیا گیا تھا، 5 برس گزر جانے کے باوجود مسائل اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن یہاں کے عوام مایوس نہیں، وہ پر امید ہیں کہ 2018ء کے انتخابات پشاور شہر اور اس کے عوام کے لیے ضرور بہتر ثابت ہوگا۔
تحریر : منصور مانی — ترتیب و گرافس : وقار محمد خان
منصور احمد خان صحافت کے شعبے سےتعلق رکھتے ہیں اور ڈان نیوز ٹی وی سے وابستہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔